بکرا، قربانی، ڈیپ فریزر اور ہم سب


قربانی کا گوشت کٹنے کے بعد، پرات بھر بھر کے گھر کے اندرون خانہ لایا جانے لگا تب ہی گھر کی خواتین اس کے گرد چھوٹی بڑی تھالیاں اور پیالیاں لئے تقسیم کی نیت سے بیٹھ گئیں۔ ”امی! ہمسائیوں کے گھر گوشت بھیجنے لگی ہوں۔ یہ ران بھیج دوں؟ جیسے کچھ یاد آجانے پر بیٹی والدہ سے گویا ہوئی۔ “ نہیں بیٹی، ران تو تمہاری خالہ کے گھر بھیجنی ہے ”امی نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ “ امی پھر دستی بھیج دوں؟ ”بیٹی شاید پھر ہمسایوں کے گزشتہ نرم سلوک کو یاد کر بیٹھی تھی۔

“ ارے دستی نہیں، دستی تو پھوپھو کے گھر بھیجنی ہے ”۔ والدہ نے براہ راست ٹوکا۔ بیٹی بھی کہاں رکنے والہ تھی، کہنے لگی“ اچھا امی ایسے کرتی ہوں، چانپ بھیج دیتی ہوں۔ ”والدہ نے پھر ٹہوکا دیا اور جتاتے ہوئے کہا، “ نہیں بیٹا۔ چانپ تو تمہارے ابو کو بہت پسند ہے۔ چانپ کا ہم پلاؤ بنائیں گے۔ ”بیٹی نے ہار مانتے ہوئے کہا“ تو پھر کلیجی بھیج دوں؟ ”اس دفعہ تو والدہ ہتھے سے اکھڑ گئیں“ تم تو پوری پاگل ہو، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ عید والے دن سب سے پہلے گھر میں کلیجی ہی بنتی ہے ”۔

“ تو میں پھر پائے بھیجنے لگی ہوں ”بیٹی نے پھر اپنے من کی کہی۔ “ بیوقوف لڑکی، عید کے دوسرے دن کا ناشتہ تو ہوتا ہی سری پائے سے ہے۔ ”بیٹی نے اکتا کر کہا تو“ اوجھڑی بھیج دوں؟ ”ماں غصے سے بولی! “ اوجھڑی بھی کوئی بھیجنے والی چیز ہے؟ اگر اوجھڑی انہیں بھیج دی تو ہم یوسف کو کیا دیں گے۔ بیچارا سارا سال خدمت کرتا ہے، اتنا حق تو اس کا بنتا ہے ”۔ بیٹی (زچ ہو کر) ! امی اب آپ ہی بتا دیں کہ میں ہمسایوں کے گھر کیا بھیجوں؟ ماں نے بھی غصے سے جواب دیا“ تمہارے سامنے پورا بکرا کٹا پڑا ہوا، جو دینا ہے دے دو، میری جان چھوڑو، اگر تم نے اپنی ہی مرضی کرنی ہے تو مجھ سے کیا پوچھتی ہو ”

عید کے تینوں دن آپ کو یہ فقرے سننے کو ملیں گے۔ یہ فقرے ہمارے معاشرتی رویے کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔

اسلامی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو قربانی ہر صاحب استطاعت پہ فرض ہے۔ قربانی کے گوشت کے تین حصہ ہوتے ہیں، ایک اپنے لئے، دوسرا رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ مستحق افراد کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات قابل غور ہے کہ ہم میں سے بیشتر قربانی میں سے اپنا حصہ پہلے نکال لیتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی ان کا حصہ (چارو ناچار) دیتے ہیں، لیکن جب بات آتی ہے مستحق افراد کو ان کا حصہ دینے کی تو ہماری جان نکلنے لگتی ہے اور روح فنا ہونے لگتی ہے، اور ان کا حصہ ”ڈیپ فریزر“ کی نظر ہو کر اس طرح چھپا لیا جاتا ہے جیسے ناحق قتل کو۔

ہمارے ہاں غلط رواجوں اور فضول کی رسموں کے پنپنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ پچھلے چار پانچ سالوں میں اب قربانی ایک مذہبی فریضہ نہیں رہی بلکہ ایک رسم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس رسم میں مہنگا جانور خریدنا، اس کی نمود و نمائش کرنا، اس کو گلی گلی لے کر گھومنا اور سوشل میڈیا میں اس کی تشہیر کرنا شامل ہے۔ اصل مقصد فوت ہوئے تو زمانہ ہو گیا“ یہ سنت ابراہیمی کم اور سنت دکھاوا زیادہ بن گئی ہے۔ قربانی کا مقصد صرف جانور کا خون بہانا نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد تو تقوی اور ایثار ٰ ہے۔ لیکن ہم اصل مقصد سے بہت دور نکل چکے ہیں۔ اب ہمیں تقوی اور ایثار جیسی اصطلاحات دقیانوسی لگتی ہیں اور باقی سب شور شرابے ہمیں کلچر کا حصہ لگتے ہیں

ہمارے نزدیک قربانی اسی کی قبول ہوتی ہے جس کا جانور مہنگا اور خوبصورت ہو۔ اللہ تعالیٰ کو ہمارے مہنگے جانوروں سے کوئی سروکار نہیں وہ صرف ہماری نیت دیکھتا ہے۔ ہم جانوروں کی اس انداز سے تشہیر کرتے ہیں کہ وہ افراد جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے ہم ان کی دل آزاری کرتے ہیں۔ حد سے زیادہ ”امیر“ لوگ اپنے جانوروں کی قیمت بتا کر اتراتے ہیں کہ ہم نے اتنا مہنگا جانور خریدا۔ اگر ہم یہ غور کریں کہ ہمارے ان روایوں سے ہم کتنے لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں، اور عید قربان کو مستحقین کے لئے زحمت بنا چھوڑتے ہیں تو یقین مانیے ہم میں سے آدھے افراد قربانی ہی نا کریں۔

جب قربانی ہو جاتی ہے تو گوشت بانٹنے کا مرحلہ آتا ہے۔ یہاں پہ آ کر سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ گوشت کس کس کو دیا جائے۔ اپنا حصہ تو ہم سب سے پہلے ہی نکال چکے ہوتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی دے دیتے ہیں، لیکن بات جب آتی ہے، قربانی کے گوشت کے اصل حق داروں یعنی مستحق افراد کی تو ہم حد سے زیادہ کنجوس ہو جاتے ہیں۔ وہ بیچارے جو سارا سال قربانی کے گوشت کا انتظار کرتے ہیں ہم ان کو ان کا حصہ دینے کی بھی ہمت نہیں رکھتے۔ اکثر گھرانوں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ قربانی کا زیادہ تر حصہ ڈیپ فریزرز میں محفوظ کر لیا جاتا ہے اور گھر میں پورا سال یہ ہی گوشت چلتا ہے۔

آج کل ایک اور نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے، لوگ بکرا کی قربانی کرتے ہیں، اس کا سارا گوشت محفوظ کر لیتے ہیں اور بڑے جانور کی قربانی میں ایک دو حصے رکھ لیتے ہیں اور وہ سارا گوشت تقسیم کر دیتے ہیں۔ یعنی مٹن خود کے لئے اور بیف دوسروں کے لئے۔ میری ذاتی رائے میں ایسی قربانی کا کوئی فائدہ نہیں جس میں آپ خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتے ہوں۔ اور محض فارمیلٹی پوری کرنے کو ایک سے زائد قربانی کا فعل سرانجام دیتے ہوں۔

عید کے تو لفظی معنی ہی ”خوشی کا تہوار، بار بار آنے والا“ کے ہیں۔ عید تو نام ہی خوشیاں بانٹنے کا ہے۔ اگر ہم خوشیاں تو بانٹ ہی نہیں سکتے۔ مگر ہم لوگوں کی دل آزاری سے تو بچ سکتے ہیں۔ اگر مہنگائی کے اس دور میں آپ قربانی کے لئے استطاعت رکھتے ہیں تو یہ ایک نعمت سے کم نہیں، اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو آپ سارا سال ہی مٹن، بیف افورڈ کر سکتے ہیں تو پھر قربانی کے جانور کے لئے ڈیپ فریزر کیوں؟

اللہ تعالیٰ نے اگر آپ کو عید کی خوشیوں سے نوازا ہے تو آپ اپنی ان خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کیجئیے۔ خوشی کا تو اصل مزا ہی بانٹنے میں ہے۔

عید پہ جانور خریدیے، جانور اللہ کی خوشنودی کے لئے خریدیے نا کہ دکھاوے کے لئے۔ قربانی کے جانور کی تشہیر مت کریں، یہ تشہیر دوسرے لوگوں کی دل آزاری کا باعث بن سکتی ہے۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیجئیے۔ گوشت کو تقسیم کیجئیے نا کہ ڈیپ فریزر میں رکھیں۔ قربانی کے گوشت میں ان کا حصہ لازمی رکھیں جو کہ قابل استطاعت تو نہیں مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ مستحق افراد کو ان کا حصہ ان کے گھر تک پہنچائیے۔ اگر آپ چھوٹی اور بڑی قربانی دونوں کرنے ہیں تو دونوں قربانیوں کے تین برابر حصے کیجئیے۔

اپنے عمل سے قربانی کے اصل مقصد کو پورا کیجئے۔ اپنے عمل سے عید کی خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹیے۔ اللہ کے دیے میں سے قربانی کریں اور اسے اللہ کی راہ میں تقسیم کریں۔ جب آپ خوشیاں بانٹیں گے تو آپ کو عید کی اصل معنی میں خوشی ہو گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو خوش رکھے اور ہمیں خوشیاں بانٹنے کی توفیق دے۔ امین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).