مذہب کارڈ کا استعمال


اسلام اور سیاست کو کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ریاست انسان کے بنائے ہوئے سماجی معاشرے کو کہا جاتا ہے اور معاشرہ بغیر کسی قاعدے و قانون کے اپنے فطری تقاضے کبھی بھی پورے نہیں کرسکتا بلکہ اس کو مختلف قسم کے قواعد و ضوابط کی روشنی میں چلانا پڑتا ہے۔ اسلامی شریعت غیر منصوص معاملات میں مملکت اور رعایا کے مفاد میں ضوابط و قوانین وضع کرنے کی اجازت ضرور دیتی ہے لیکن ساتھ ہی حکومت کو اس بات کی پابند بھی بناتی ہے کہ وہ کوئی ایسا قانون وضع نہ کرے جو اسلامی اصول و ضوابط سے متصادم ہوں یا ان کی وجہ اسلامی احکامات پر ضد پڑتی ہو۔

اسلام کے وضع کردہ اصول وضوابط کی روشنی میں ریاست کا نظام چلانا، انہی کی روشنی میں عوام کے فائدے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے حسبِ ضرورت نئے قوانین بنانا یا کوئی بل پاس کرنا اور اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی طے کرنا ہی در حقیقت اسلامی طرزِ حکومت ہے۔

جب عہدِ رسالت مآب میں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا آغاز تدریجی طور پر مدینہ منورہ سے ہوا تو خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت منصبِ نبوت پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی اسلامی ریاست کے سربراہ بھی تھے، امام اور مفتی بھی اور عوام کے جج بھی۔ آپ نے ریاست کا قیام مذہب ہی کے نام پر فرمایا۔ آپ کے عہدِ مبارک کے بعد خلفاء راشدین کے دور میں بھی ریاست مذہب ہی کے نام پر قائم تھی۔

اس ساری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ مذہب کارڈ کا استعمال بذاتِ خود کوئی شجرہ ممنوعہ نہیں ہے بلکہ اس کا غلط استعمال غلط ہے۔ خود ہمارا ملک مذہب ہی کے نام پر تو وجود میں آیا تھا۔

بانیانِ پاکستان نے ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“ کا نعرہ ہی تو لگایا تھا۔

ہمارے ہاں عام سیاست دان صرف علما پر یہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ وہ مذہب کارڈ استعمال کرکے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف علماء ہی نہیں بلکہ بیشتر سیاسی جماعتیں پاکستانی عوام کی اسلام پسندی کو دیکھ کر ان سے حسب ضرورت اسلام کے نام پر سیاسی فوائد حاصل کرتی رہی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت بر سرِ اقتدار جماعت (پی ٹی آئی ) کی شناخت مذہب کے طور پر نہیں ہے بلکہ اس میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو سیکولر خیالات کے حامل ہیں۔

لیکن اس نے نہ صرف یہ کہ گزشتہ حکومت کے خلاف مذہب کارڈ کا استعمال کیا بلکہ خود بھی اسی مذہبی کارڈ کا استعمال کرکے برسرِ اقتدار آئی ہے، ”ریاستِ مدینہ“ کے نعرے کو مذہب کارڈ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ یہی وجہ کہ بہت سارے علماء نے اسی نعرے سے متاثر ہوکر خان صاحب کی صراحتاً یا دبے الفاظ میں حمایت کی، بلکہ ہر طبقے کے بہت سارے حضرات اب بھی ریاست مدینہ کے قیام کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں مذہب کارڈ کو استعمال کرکے عوام کو دھوکہ تو دیا جاتا ہے لیکن مذہب کے تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔

موجودہ حکومت کو ہی لے لیجیے۔ خان صاحب نے فرمایا تھا: کہ وہ قرض لینے کے لئے عالمی مالیاتی ادارے کے پاس جانے پر خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ یہ واضح رہے کہ قرضہ آئی ایم ایف سے لیا جائے یا کسی ملک سے سود پر ہی لیا جاتا ہے۔ جب خان صاحب نے قرضہ نہ لینے اور کرپشن کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تو اسلام پسندوں کی ایک بڑی تعداد ان کی معتقد ہوگئی، کیونکہ دونوں چیزیں اسلام میں حرام ہیں اور دونوں نے ہی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ دونوں کے حوالے سے اسلام میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ اگر دونوں کا موازنہ کیا جائے تو سود کی حرمت بھی شدید اور ملک کا زیادہ بیڑہ غرق بھی اسی نے کیا ہوا ہے۔

سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں سنائی گئی ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف تو خان صاحب کی نام نہاد اور نسبتاً یک طرفہ جد وجہد جاری ہے لیکن سود کا ارتکاب کرنے خود قوم کے سپہ سالار بن کر مختلف ممالک سمیت آئی ایم ایف سے معاہدے کر بیٹھے۔ عالی مقام نے اقتدار میں آتے ہی قلا بازی کھاتے ہوئے خالی خزانے کا رونا رویا شروع کر دیا کہ ہمیں ملک بہت ہی برے حالات میں ملا اور قرضہ اس قدر زیادہ ہے کہ ملک چلایا ہی نہیں جا سکتا وغیرہ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ!

کیا حکومت ملنے سے پہلے خان صاحب کو اس کا علم نہیں تھا؟ اگر نہیں تو یہ ان کی نا اہلی تھی۔ کیونکہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کے بدلے گروی رکھا ہوا ہے اور اگر علم تھا تو مشکل حالات میں ملک چلانے کے لئے پہلے سے روڈ میپ تیار کیوں نہ کیا گیا؟ اور اگر تیاری نہیں تھی تو پھر عوام کے ساتھ قرضہ نہ لینے کا وعدہ کیوں کیا گیا؟ کیا ان کی بائیس سال کی تگ و دو صرف سہانے خواب دکھانے کے لئے تھی یا معیشت کی کشتی کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لئے؟ لگ ایسے رہا ہے کہ خان صاحب نے ریاستِ مدینہ کا نہ اچھے طریقے سے مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی اس کے قیام کے لئے سنجیدہ ہے۔ ان کو چند دن پہلے برطانیہ میں بھی ریاستِ مدینہ کا ماڈل نظر آیا،

ان کا ریاستِ مدینہ کے بارے میں تصور صرف اقلیتوں کے حقوق تک محدود ہے۔

انہیں شاید صرف اس بات کا علم ہے (اور وہ بھی ناقص طور پر ) کہ ریاستِ مدینہ میں یہودی بھی رہتے تھے اور بس۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ریاستِ مدینہ کے والی اور باسیوں نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر دو دو پتھر تو باندھ رکھے تھے لیکن شدید غربت و افلاس کی حالت میں بھی سود کے ذریعہ اپنی بھوک کو مٹانے کا نہیں سوچا۔

خان صاحب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انہیں علماءِ کرام کی حمایت اسی نعرے (ریاستِ مدینہ) کی وجہ سے حاصل رہی ہے۔ اسلام پسند عوام نے انہیں ووٹ اسی نیت سے دیا ہے کہ ملکی معیشت وقتی طور پر کمزور سہی لیکن قرضوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ عوام بخوشی مشکل حالات جھیل لیتے اور مہنگائی کو برداشت کرلیتے اگر پہلے سے بڑھ کر سود پر قرضے نہ لئے جاتے اور ٹیکس پر ٹیکس سے ان کی زندگی مزید اجیرن نہ کردی جاتی۔ لیکن یہاں تو مختلف ممالک سے سود پر بھیک بھی پہلے سے زیادہ مانگی گئی۔ آئی ایم ایف کے پاس جا کر خالی جھولی بھی بھر دی گئی لیکن پھر بھی مہنگائی کا طوفان تھمنے کو ہے اور نہ ہی منہ کے بل گرتی معیشت کو کوئی سہارامل رہا ہے! گویا اب عوام کا حال یہ ہے کہ ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“

خان صاحب فرماتے ہیں کہ قانون سب کے لئے برابر ہے

لیکن ( 30 جولائی 2019 ) کی خبر ہے کہ پارلیمنٹ حملہ کیس میں شاہ محمود، جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کو حاضری سے استثناء مل گیا جبکہ

خود عالی مقام نے پہلے ہی حاضری سے مستقل استثناء لے رکھا ہے۔ کیا آنجناب اصل ریاستِ مدینہ میں کسی کے لئے قانون سے استثناء کی کوئی ایک مثال پیش فرمائیں گے؟

خان صاحب کے ہاں اپوزیشن کے وقت جو امور ناخوب تھے وہ آج انہیں ایک ایک کرکے خوب نظر آرہے ہیں۔ مودی کے ساتھ تعلق سخت موذی تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی کسی پریشان حال عاشق کی طرح فون پہ فون کرتے رہے لیکن بے وفا محبوبہ نے لفٹ تک ہی نہ دی۔ گویا مرحوم شاعر صدیق ضیاء نے خان جیسے حضرات ہی کے لئے کہا تھا کہ:

”تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی۔

اس کالم کی وساطت سے پی ٹی آئی کے سرکردہ کارکنوں اور اُن علماء کرام سے جو وزیراعظم صاحب سے ملاقات کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں گزارش ہے کہ آن محترم کو وقتاً فوقتاً اپنے وعدوں اور ریاستِ مدینہ قائم کرنے کی یاد دہانی کراتے رہیں، بے شک اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کریں لیکن ان کے غلط اقدامات کو درست ثابت کرنے کے لئے تاویلیں کرنے کی بجائے شائستہ انداز سے تنقید بھی کریں تب ہی ہم ریاستِ مدینہ کے قیام کے قریب جا سکیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).