قیام پاکستان میں مسیحیوں کا کردار


پاکستان بننے سے پہلے مسیحیوں نے قیام پاکستان کی حمایت اس لیے کی تھی کیونکہ یہ ان کا وطن ہے اور یہ بھی دیگر مسلم شہریوں کی طرح مساوی حقوق کی بات کرتے تھے۔ مسیحیوں کا تعلق قائداعظم کے ساتھ ہمیشہ سے ہی بہتر تھا کیونکہ وہ ایک سیکولر سوچ رکھتے تھے اور پاکستان کو ایک سیکولر اور تمام مذاہب کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔

پہلی بار 1931 ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے سکھوں کے علاوہ ہندوستان کی مسیحی کمیونٹی نے سر آغا خان کی قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ پاک و ہند میں ”اقلیتوں کا معاہدہ“ کہلاتا ہے۔ اس معاہدے میں مسیحیوں کی طرف سے یورپی مسیحی سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 22 دسمبر 1939 میں جب اونچی ذات کے ہندو پالیسیوں کے احتجاج میں، قائداعظم کی کال پر، کانگریسی وزارتوں میں مسلمان نمایندوں کے مستعفی ہونے پر ”یوم نجات“ منایا گیا تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ ”یوم نجات“ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی، مسیحیوں اور لاکھوں کی تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئیں۔ 23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے مسلم لیگ سالانہ اجلاس لاہور میں تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش کی تو اس اجلاس میں الفریڈ پرشاد، آر اے گومز اور ایس ایس البرٹ بھی شامل تھے۔

ان کے علاوہ دیگر کئی مسیحی رہنما بطور مبصر مدعو تھے۔ مسیحیوں نے ہر قدم پر قائد اعظم کا ساتھ اس لیے دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے گا جب کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا تعلق مسیحی برادری سے تھا، جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد کے حق میں اپنا اضافی ووٹ ڈال کر قیام پاکستان کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور پھر تقسیم کے وقت مسیحی قیادت نے باؤنڈری کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔

یہ کوئی اچانک پیدا شدہ رویہ نہیں تھا۔ اس جدوجہد میں ہندو، سکھ اور انگریز ایک طرف تھے۔ جبکہ دوسری اقلیتوں کے لوگ نظریاتی تقسیم کا شکار تھے۔ خود مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت قیام پاکستان کی مخالفت میں ہندو جماعت کانگریس کا ساتھ دے رہی تھی۔ لیکن ہندوستانی مسیحی اقلیت واحد اقلیت تھی جو تمام کی تمام قائداعظم کا ساتھ دے رہی تھی اور ان کے شانہ بہ شانہ آزادی کی جدوجہد میں شامل تھی۔ 23 مارچ 1940 ء کوجب منٹو پارک لاہور میں تاریخی قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تو اس جلسے میں پورے ہندوستان سے ہزاروں مسیحی شریک ہوئے۔

تحریک پاکستان میں مسیحی رہنماؤں دیوان بہادر، ایس ایس رابرٹ اور ریاست کپور تھلہ کے مسیحی راجہ کی بیٹی نے بھرپور کردار ادا کیا۔ مسیحی برادری اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ قائداعظم سچ کے علمبردار ہیں۔ مسیحی رہنماؤں نے لاریب ہوٹل لاہور میں قائداعظم کو استقبالیہ دیا اور انہیں مسیحی برادری کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔

اور اسی طرح 1946 ء میں جب جسٹس دین محمد کی سربراہی میں باؤنڈری کمیشن بنایا گیا تو مسیحی برادری کے رہنماؤں دیوان بہادر، ایس پی سنگھا اور ماسٹر فضل وغیرہ نے باؤنڈری کمیشن سے کہا کہ مسیحیوں کی گنتی مسلمانوں کے ساتھ کی جائے۔ یہ مطالبہ مسیحی رہنما چندر لعل نے پورے زور شور اور مضبوط دلائل کے ساتھ کمیشن کے سامنے پیش کیا۔ مسیحیوں نے آج تک اپنی الگ ریاست یا صوبے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا کیونکہ ہم مسلمانوں کی طرح توحید پرست ہیں۔

اس مطالبے کے بعد نہرو اور پٹیل نے مسیحیوں کو قائل کرنے کے لئے پورا زور لگایا اور یہ لالچ بھی دیا کہ اگر آپ پاکستان کے بجائے بھارت کے حق میں ووٹ دیں تو مسیحیوں کے لئے کچھ اہم وزارتیں ہمیشہ کے لئے مخصوص کردی جائینگی لیکن مسیحی رہنماؤں نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ ہندو اور سکھوں کا باہم ایکا تھا۔ سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر با آواز بلند کہا:

”جو بنائے گا پاکستان۔ وہ کھائے کا کرپان“

تو مسیحی لیڈر ایس پی سنگھا نے با آواز بلند جواب دیا:

”سینے پہ گولی کھائیں گے۔ پاکستان بنائیں گے“

قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنے والے بے سرو سامان مہاجرین کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی مسیحیوں نے مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ سرانجام دیا۔ کیونکہ مسیحی یہاں پر پہلے سے آباد تھے اور مسلمان ہجرت کر کے آئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مسیحی کمیونٹی نے پاکستان بننے اور اس کو سنبھالنے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا۔ پاکستان بنے کے بعد پاکستان کے حصے میں بہت کم ادارے آئے تھے تو سب سے زیادہ مشنری سکول و ہسپتال اور کیتھولک سکول نے پاکستان میں اپنے مسیحی ادارے کے ذریعے ملک کو پروان چڑھایا۔ پاکستان بننے کے بعد کئی دہائیوں تک پاکستان کے تمام سیاسی اور سرکاری اداروں میں تمام لوگ مسیحی اداروں سے تعلیم حاصل کر کے ہی سرکاری اداروں میں آئے۔

لاہور شہر کے اچھوت ہندوؤں نے بھارت جانے کی بجائے مسیحیت قبول کر لی اور پاکستانی قرار پائے۔ قائداعظم نے ہر بے زمین مسیحی کو ساڑھے بارہ ایکڑ زرعی اراضی دینے کا اعلان کیا۔ پاکستانی فوج کا پہلا سربراہ بھی مسیحی تھا۔ قائداعظم نے برسر اقتدار آکر چھ وزیر مقرر کیے۔ پہلے ڈپٹی سپیکر بھی مسیحی تھے۔ پاکستانی پرچم کا سفید رنگ اقلیتوں کی پہچان ہے۔ یہ رنگ گاڑھا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے گاڑھے پن سے اقلیتوں کے ساتھ وہ انصاف ہوسکے گا جس کا وعدہ بانی پاکستان نے اقلیتوں کے ساتھ کیا تھا۔

پاکستان میں مسیحی کمیونٹی کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ مل کر بھی ایک نشست مقابلہ کرکے نکال سکیں، اس لیے دیگر غیر مسلم کمیونٹیز کی طرح ان کے لیے بھی مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں۔

پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت تھا جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ اسلام کا اہم نقطہ رہا تھا مگر افسوس کے مذہبی پراپگینڈے میں آ کر مسیحیوں کے کردار اور ان کو دی جانے والی سہولیات وقت کے ساتھ ساتھ کم کر دی گئیں۔

آج بھی ملک میں تمام سرکاری اداروں بشمول آرمی فورسسز، پولیس، ریلوے اور سب سے زیادہ میڈیکل میں مسیحیوں کی کثیر تعداد کام کر کے ملکی ترقی کا حصہ بن رہی ہے۔

اقلیتوں کے مسائل کا حل صرف ان کے نمائندوں کے پاس ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ پاکستان میں مسیحیوں کے سماجی مسائل کے حل کے لیے ان سے تجاویز لے کر آئین کا حصہ بنائے تاکہ پاکستانی مسیحی بہ حفاظت اور ملک کی دوڑ میں برابر کے شریک ہوں۔

خدا کرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لئے
حیات جُرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو​

خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).