اعصاب کی جنگ: کشمیر


اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے نریندرا مودی جی پاکستانی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے بعد کچھ ایسے غصے میں آئے کہ آپے سے باہر ہی ہو گئے۔ یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے۔ کہ مودی جی نے ٹرمپ کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کردار ادا کرنے کا کہا۔ غصہ مزید اس لیے بڑھاکہ اپنی دانست میں جس پاکستان کو وہ معاشی بدحالی اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے باعث وہ دیوارسے لگا دیکھ رہے تھے۔

دورہ امریکہ میں ہونے والی پیش رفت کے باعث ایک تو کشمیر کی ٹھنڈی راکھ کو چنگاری نصیب ہوگئی۔ دوسرا افغانستان، امریکہ اور طالبان مسئلے میں پاکستان مرکزی کردار میں سامنے آ گیا۔

اب یہ اتنی زود ہضم بات تو ہے نہیں جسے اکھنڈ بھارت سوچ آسانی سے ہضم کر سکے۔

کچھ ذرائع یہ اطلاع بھی دے رہے ہیں کہ بھارت میں یہ پلاننگ بہت عرصے سے پائپ لائن میں تھی کہ لداخ، جموں اور کشمیر تین حصوں پر مشتمل نئی ریاستیں قائم کی جائیں۔ موجودہ مقبوضہ وادی کی ہئیت تبدیل کر دی جائے۔

قرائن بھی اسی سمت اشارہ کرتے ہیں۔ آرٹیکل 370 کو یک طرفہ طور پر آرڈیننس کے ذریعے ختم کر کے وادی پر بزور طاقت قبضہ کیاگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی قوانین کی عملی طور پر دھجیاں بکھیرنے کا یہ عمل کر کے خود کو دنیا کی سب سے بڑی سیکیولر جہموری ریاست کے دعویدار بھارتیوں نے اپنے ہی رخسار پر طمانچے مار کر اپنا ہی چہرہ لہو لہان کر لیا ہے۔

اور مزید شادیانے یہ سوچ کر دیش بھگت منا رہے ہیں کہ اب اسرائیل ماڈل اپنا کر کشمیر کی زمین ہتھیائی جائے۔ کشمیری قوم تو کبھی بھی ان کا مسئلہ تھی ہی نہیں۔ گویا ظلم وبربریت کی نئی تاریخ رقم کرنے کی پوری تیاری ہے۔

مگر چور کتنا ہی ہوشیار ہو، مجرم کتنا ہی شاطر ہو۔ کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ ہی جاتاہے۔ کشمیر کے کیس میں بھی بھارتی سورما یہ غلطی کر بیٹھے ہیں۔ ستر برس میں جن حریت پسندوں نے اپنے تشخص اور وابستگی پر سمجھوتا نہیں کیا۔ جبکہ وہ ایک آزاد ریاست تھے۔ اگرچہ بھارتی فوج کے مظالم کا شکار تھے۔ لیکن ان کی زمین کوئی غیر کشمیری نہیں خرید سکتا تھا۔ کوئی ان کے رسم ورواج پر ڈاکا نہیں ڈال سکتا تھا۔

تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی سر زمین سے انہیں بے دخل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے اور وہ خاموش تماشائی بن کر اس ظلم کو سہ جائیں۔ یقینا ایسا تو ممکن ہی نہیں۔

دراصل اس پوری سازش کا بھارتی مقصد صاف اور واضح ہے۔ کہ اول تو بھارت کشمیری زمین پر قبضے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا تھا۔ دوئم پاکستان کا خطے میں بڑھتا اثرورسوخ اس کے لیے نا قابل برداشت تھا۔

لہذا اس ایکسرسائز کو اس وقت آزمانے کے پیچھے ایک بڑی سازش یہ تھی۔ کہ پاکستان کے عوام اور فوج پر یہ خبر بجلی بن کر گرے گی۔ اور جواباً پاکستان کا ری ایکشن کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سامنے آنے گا۔ اور یوں پاکستان کے لیے بیک وقت کئی محاذ کھولے جائیں گے۔ پاکستان اس وقت سخت معاشی بحران کا شکار ہے۔ اور احتساب کے عمل کے باعث سیاسی بے چینی بھی موجود ہے۔

لیکن ریاست پاکستان نے یہاں انتہائی مہارت سے اس سازش کو ہینڈل کیا ہے۔

اگرچہ پاکستان پر ایک مخصوص سوچ رکھنے والا طبقہ اس معاملے میں بھی مسلسل فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ کوئی اسے مشرقی پاکستان سے تشبیہ دے رہا ہے۔ اور کچھ فتنہ پرور اسے امریکہ میں کسی نامعلوم سودے بازی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ ہم ذاتی طور پر اس سوچ سے صرف اظہار ہمدردی ہی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ نفرت ایک لاعلاج بیماری ہے۔

لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اس مسئلے پر کسی ابہام کا شکار نہیں اور اپنی فوج کی حربی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں۔ اور ان پر بھر پور اعتماد کرتے ہیں۔

ہمیں کشمیر کے اس نئے بحران کو بہت گہرائی سے جا نچنا ہوگا۔ بھارت نے شطرنج کی بساط بچھا تو دی ہے۔ لیکن پہلی چال کے بعد ہی سناٹے کی کیفیت میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال وادی میں چھائی گہری خاموشی ہے۔ میڈیا مکمل خاموش ہے۔ کرفیو نافذ ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز تک بند ہیں۔ فوجوں کی بھاری نفری تعینات ہے۔ اور کشمیر خاموش ہے۔

پاکستان کی طرف سے بھارت کو وہ اشتعال نہیں ملا جو اس کی سازش کا سب سے اہم حصہ تھا۔ اسی لیے پاکستان کی طرف سے عالمی سطح پر یہ پیغام جا رہا ہے کہ بھارت کوئی خودساختہ حملے جیسی منصوبہ بندی کر سکتا ہے۔ تاکہ پاکستان سے وہ مطلوبہ مقاصد حاصل کر سکے۔

مگر کب تک بھارتی بدھی مان منشں اگلی چال چلیں۔ کرفیو اٹھائیں، کشمیر کا رابطہ دنیا سے بحال کریں۔ پھر دیکھیں اندر حریت پسند کیا کرتے ہیں۔ آ پ بلوچستان، سندھ، آزاد کشمیر پر قبضے کے جو احمقانہ خواب اپنی جنتا کو دکھا رہے ہیں۔ دیکھیں کیسے ان خوابوں کی بھیانک تعبیر آپ کے سامنے آ ہے گی۔

آپ لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل بارڈر کا درجہ دینے کی خودساختہ کوشش کا بھرپور جواب بھی پائیں گے۔ اور قابض کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھانے پر پاکستانی فوج کا جواب بھی سنیں گے۔ اور دنیا میں انسانی حقوق کو پامال کرنے کے مجرم بھی مانے جائیں گے۔

لہذا دوستوں ہماری آ پ سے یہ گزارش ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے کام لیں۔ جنگییں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ لیکن اگر کوئی جنگ آپ پر مسلط کی جائے گی تو افواج پاکستان اپنے ملک کی حفاظت کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ اور دکھ کے اس موسم میں وہ کشمیر کے مسلمانوں کا ہراول دستہ ہوگی۔ یہ جنگ روایتی جنگ نہیں اعصاب کی جنگ ہے۔ جس کو حکمت اور دانش سے ہی جیتا جاسکتا ہے۔

اور بحیثیت پاکستانی ہمیں یقین ہے کہ الحمدللہ پاکستانی قوم سے زیادہ مضبوط اعصاب شاید ہی دنیا میں کسی اور قوم کے حصے میں آئے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).