کیا دعا کو عرش تک پہنچنے کے لیے عسکری اجازت درکار ہے؟


آج کچھ کہنے کو خاص نہیں۔ بس کچھ نظمیں سن لیجیِے۔ یہ نظمیں مزاحمت کے سالار فلسطینی شعرا کی ہیں۔ مگر ان نظموں کا موضوع ہر وہ خطہ اور قوم ہے جو ایک ہی طرح کی ابتلا میں مبتلا ہے۔

’تم نے میرے جدی باغات چرا لیے

وہ زمین چرالی جس پر میں اور میرے بچے ہل چلاتے تھے

تم نے میری نسلوں کے لیے سوائے پتھروں کے کچھ نہ چھوڑا

سنا ہے تم یہ پتھر بھی چرانا چاہتے ہو

میں نہ تو نفرت کرتا ہوں اور نہ ہی چوری

مگر بھوک میں تمھاری ہڈیاں ضرور چبا سکتا ہوں

ڈرو میری بھوک سے اور پھر میرے غصے سے‘

(محمود درویش)

’تم بھلے میری زمین کا آخری ٹکڑا تک چرا لو

میری جوانی کو جیل میں سڑا دو

میرے اجداد کی سب نشانیاں، بشمول فرنیچر، قالین اور برتن ہتھیا لو

میری نظمیں اور کتابیں جلا دو

اور مجھے کتوں کے آگے ڈال دو

میرے گاؤں کے سر پے دھشت کی چادر کس دو

پر روشنی کے قاتل میں تم سے کبھی سودے بازی نہیں کروں گا‘

(سمیع القاسم)

’ان کی آمد سے پہلے میری کھڑکی کی چوکھٹ پر پھول کھلتے تھے

سیڑھی در سیڑھی باغوں سے انگوروں کی بیلیں لپٹی پڑتی تھیں

میرا گھر سورج کی شعاعوں میں نہاتے نہاتے جھوم جاتا تھا

اور مجھے خواب دیکھنے سے ہی فرصت نہ تھی

پر یہ خون آلود ٹینکوں پر سوار ان کے گھس آنے سے پہلے کا قصہ ہے‘

(توفیق زیاد)

’ہم یہیں موجود ہیں

تمھارے سینے پے دھرے پتھر بن کے

تمھارے حلق میں موجود کڑواہٹ کی شکل میں

تمھیں کسک دینے والے کانچ کے نوکیلے ٹکڑے کی طرح

تمھاری آنکھوں میں مسلسل چبھنے والے کانٹوں جیسے

ہم یہیں موجود ہیں

ایک بگولے کی طرح

ہم یہیں موجود ہیں اپنے گیت بکھیرنے کے لیے

غصیلی گلیوں میں چلنے کے لیے

باوقار انداز میں جیلیں بھرنے کے لیے

زیتون و انجیر کے سایوں کی نگہبانی کے لیے

اپنے بچوں کے سینوں کو بغاوت کے خمیر سے گوندھنے کے لیے

ہم یہیں موجود ہیں‘

(توفیق زیاد)

’کیا دعا کو بھی عرش تک پہنچنے کے لیے عسکری اجازت درکار ہے؟

کیا لگن کو بھی سمندر پار کرنے کے لیے خصوصی پرمٹ چاہیے؟

کیا نفرت کو بھی آنکھوں سے باہر آنے کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت ہے؟

کیا نعرۂ بغاوت کی آماجگاہ دل پر بھی بلڈوزر چل سکتا ہے؟

ایک میں ہی تو قید نہیں

تم بھی تو میرے قیدی ہو

میں اندر قید ہوں اور تم میرا پہرہ دیتے ہوئے باہر قید‘

(سما صباوی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).