ضمیر کی پاتال اور فلک کی نارسائی


زندگی ان دنوں ٹین کے ایک بوسیدہ صندوق جیسی ہوتی جارہی تھی۔ خوابوں کے کمروں میں جالے لگے تھے اور خواہشیں تو ایسی گل سڑ چکی تھیں، گویا ان سے پھپھوندیں پھوٹ رہی ہوں۔ یہ برسات ہونے سے پہلے کے دن تھے، امس ایسی کہ مساموں سے پسینہ اس طرح نکلتا تھا جس طرح کوڑھیوں کے دانوں سے پیپ بہہ رہا ہو۔ بار بار پانی کی طلب ہوتی کیونکہ گلا سوکھی ٹٹر زمین کی طرح کھردرا معلوم ہوتا۔ میں اپنے گھر کی خستہ چھت پر کم ہی جاتا تھا، مگر وہ راتیں، گھر میں بتانا مشکل تھیں، یا تو لائٹ غائب رہتی، یا پھرپنکھا ایسے جھولتا، جیسے اسے کوئی دربان، زبردستی نیند میں گھمارہا ہو۔

ایک رات کا ذکر ہے، میں چھت پر پڑی لکڑی کی چارپائی پر سورہا تھا، کسی کھٹاکے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی، دیکھا تو ہلکی چاندنی چٹک رہی تھی، بادل کے دو ٹکڑے آسمان میں گھٹنوں گھٹنوں سیر کرتے معلوم ہوتے تھے اور سامنے والی چھت پر ایک لڑکی دیوار سے ٹیک لگائے خلا میں گھور رہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ فلک ہے۔

فلک میرے گھر کے سامنے ہی رہا کرتی تھی، اس کی آنکھیں شیشے کی طرح چمکدار تھیں، گورا رنگ، ناک ستواں، زلفیں زیادہ لمبی نہ تھیں مگر جب شانوں پر پھیلتیں تو معلوم ہوتا جیسے کالی موجیں سنہری ریت پر بڑھ کر ہر طرف چھاگئی ہیں۔ اس کے رنگ میں شفافیت تھی، ایسا خالص اور بے داغ گورا رنگ کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، اس کی شادی کو آٹھ برس گزر چکے تھے، بدن میں ہلکا سا پھیلاؤ آیا تھا، مگر اس سے اس کے اندر کی عورت کا حسن اور نمایاں ہوگیا تھا۔

کمسنی میں شادی کا دکھ اس کی خالی آنکھوں سے پھوٹتا تھا، ایسی چمکتی ہوئی جگنو جیسی نظریں اکثر اوقات ایسی بجھی بجھی معلوم ہوتی تھیں، جیسے کسی نے ان کی لو کو مدھم کردیا ہو۔ رات کا قریب ایک سوا ایک بجا ہوگا، مجھے اس سے پہلے کبھی وہ چھت پر نظر نہیں آئی تھی، اس کا شوہر مذہبی قسم کا انسان تھا اور اس کی ہر بات پر شک کیا کرتا تھا۔

انسانی زندگی میں شک ایک ایسی بیماری ہے، جو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی اجیرن کردیتی ہے۔ کبھی کہیں نکلنا ہو تو دوپٹہ چہرے اور گردن پر لپیٹو، کسی سہیلی سے گھر پر بھی ملنا ہو تو پھوہڑ لڑکیوں کی طرح زور زور سے نہ ہنسو، ایسے بیٹھنا مناسب نہیں، کسی سے زیادہ گھلنا ملنا ٹھیک نہیں۔ لوگ چالاک ہیں، تم معصوم ہو۔ الغرض ایسی ہی باتوں نے فلک کے اندرون میں ایک باغی کو جنم دے دیا تھا، وہ بظاہر ایک شرمیلی اور فرمانبردار بیوی تھی، مگر جب کبھی اسے تنہائی اپنی بانہوں میں سمیٹتی وہ اپنا لباس اتار کر آئینے کے سامنے ایک کرسی رکھ کر بیٹھ جاتی۔ دونوں ٹانگیں چیر کر اپنی درمیانی انگلی کو رانوں کے درمیان سے سہلاتی ہوئی نامعلوم کس نقطہ ارتکاز تک لاتی، وہاں سطح پر کچھ چھیڑ چھاڑ کرکے اسے اپنی منہ میں ڈال کر بھگوتی، بال کرسی کے پیچھے جھولنے لگتے۔

دل تیزی سے دھڑکنے لگتا، سینے پر لٹکے ہوئے چکنے دائرے سخت ہوکر پھڑک اٹھتے، ان کے اوپر کی باریک کیلیں، میناروں کی طرح تن جاتیں اور ہاتھ بدن سے سرکتا ہوا نیچے کی طرف جاتا، اور انگلی کسی محتاط بلی کی طرح غار بدن میں داخل ہوجاتی۔ وہ پھڑکتی ہوئی کالے گلاب جیسے پتیوں کو چھیڑتی، آس پاس اگے ہوئے بالوں کے بیچ سے گہری لال اندرونی جلد کی تیزابی حرارت کو چھوتی اور پھر ایک جھونکے کی طرح اپنے پورے شریر کو ایک سے دو انگلیوں کی مدد سے تڑپانے لگتی، اس کی سانسیں اوپر نیچے ہونے لگتیں۔

عمل: انعام راجہ

وہ اس عمل کے درمیان میں کئی دفعہ آنکھیں کھول کر اپنے چہرے پر آئی ہوئی طوفانی لہروں کو آئینے میں دیکھ کر محظوظ ہوتی تھی۔ اس درمیان میں اس کادایاں ہاتھ کب اس کے سینے پر پہنچ کر اپنی مٹھی میں ایک گرم دائرے کو بھینچنے لگتا، اسے معلوم ہی نہ ہوپاتا۔ آخر وہ تھک کر کرسی پر جھول جاتی، اور تھوڑی دیر تک یونہی گاڑھی نیم خوابی کیفیت میں پڑی رہنے کے بعد اٹھ کر نہاتی، کپڑے پہنتی اور پھرسے وہی ظاہر داریوں سے سجی بنی فلک بن جاتی۔

میں اس جگہ تین سال پہلے آیا تھا۔ نیچے گھر میں میرا ہومیوپیتھی کا شفا خانہ تھا، جس میں اکثر بیمارعورتیں اپنے دکھ درد اور بندھی ٹکی ذہنی پریشانیوں کا علاج کرانے آیا کرتی تھیں۔ فلک جب پہلی بار آئی تو اسے دیکھ کر میں جامد و ساکت رہ گیا۔ اس کا قد بہت زیادہ نہیں تھا۔ مگر اس کے سینے کے ابھاروں پر ایک گندھی ہوئی مٹی رقص کرتی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی ہنسلیوں کے نیچے کچھ سرخ نشان تھے، جنہیں دیکھنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ نشانات بدن کے دوسرے حصوں پر بھی موجود ہوں گے ۔

پہلی نظر میں دیکھنے پر اندازہ ہوتا تھا کہ یہ لڑکی کسی انجانے دکھ کی مار کھاکر آئی ہے۔ اس کے ساتھ کسی قسم کی زبردستی کی گئی ہے۔ جب میں نے دوسری تیسری بار میں اس کی نجی زندگی کے متعلق کچھ سوالات کیے تو اس نے بتایا کہ وہ کسی زمانے میں ایک ہشاش بشاش نوجوان لڑکی تھی، جو شہر بھر میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ مختلف مقامات پر جایا کرتی، اپنی مرضی سے گھومتی پھرتی، اپنی پسند کے لباس پہنا کرتی، کتابیں پڑھتی اور مزے سے زندگی گزارتی تھی مگر ایک روز اچانک اس کے والد نے اعلان کیا کہ اس کے کسی کزن سے اس کی شادی فلاں فلاں موقعے پر طے کردی گئی ہے۔

شادی کا ذکر اکثر گھر میں ہوتا تھا مگر وہ ٹال دیتی تھی۔ اس باب میں کئی دفعہ اس کے دور کے دوبھائیوں کا ذکر آتا، جن سے اس کا رشتہ طے کرنے پر سوچ وچار ہوا کرتا، مگر وہ ان سب باتوں اور بحثوں میں بالکل حصہ نہ لیتی۔ اسے شادی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ ایک ہری بھری ڈنٹھل کی طرح فضا میں جھول کر پوری طرح موسم بہار کا لطف اٹھارہی تھی۔ اور اب دیکھو تو معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے اس پر بجلی گرادی ہو۔

اکثر اس کے ساتھ ایک چھوٹی بچی، جو اس وقت دو سال کی تھی، میرے شفا خانے میں آیا کرتی۔ بہت معصوم اور خوبصورت بچی تھی، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ فلک کا ناک نقشہ اس نے بہت حد تک اپنایا ہے۔ اس کے شوہر کو میں نے ایک دو دفعہ سامنے والے گھر میں ٹہلتے اور کام پر جاتے وقت سڑک وغیرہ پر دیکھا تھا، مگر اس سے میری علیک سلیک کم تھی۔ وہ عام طور پر اپنے کچھ مخصوص دوستوں کے سوا کسی کو منہ نہ لگاتا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا کہ ہمارے سماجوں میں خوبصورت لڑکیوں کا شوہر ہوجانا کیا اتنی زبردست ڈیوٹی بن سکتا ہے کہ انسان ہر وقت ایک سخت چمڑے کا لباس پہن کر ہاتھ میں کوڑا لیے، نگرانی کرنے والا ایک چوکیدار بن کر رہ جائے۔

چاہے کتنا ہی حبس کیوں نہ ہو، کیسی ہی گرمی کیوں نہ پڑرہی ہو، باہر موسم گل آیا ہو، برساتیں ہورہی ہوں، مور ناچ رہے ہوں۔ مگر ایسے شوہر حضرات اپنی بیوی کی پیٹھ پر سے نظریں نہیں ہٹا سکتے۔ نہ خود نئے دوست بنا سکتے ہیں، نئے موسموں سے مل سکتے ہیں، نہ اپنی بیویوں کو ملنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ پھر اس پر روایت کی طرح طرح کی ہدایتیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3