کشمیر اور فلسطین: یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا


 کشمیر کے بدن پر زخم لگانے والے لوگ پہلے تو خود کشمیریوں کے سرکردہ لوگ ہیں۔ اسی طرح جیسے فلسطین کو بیچنے والے پہلے لوگ خود اس کے اپنے کھاتے پیتے فلسطینی تھے۔ جو صہیونیوں کے اِس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے تھے کہ یہ بنجر بے آباد زمین بھلا کس کام کی؟ ان زمینیوں کے مالک فلسطینیوں نے پل بھر کے لیے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ آخر یہ صہیونی ایسی زمینیں اتنے مہنگے داموں اُن سے کیوں خرید رہے ہیں۔ بیروت، قاہرہ میں ان پیسوں سے جگہیں خرید اور کوٹھیاں بنوا کر یہ فلسطینی کتنے خوش تھے کہ انہوں نے تو ہن لوٹ لیا ہے۔ کم و بیش 1920 سے قبل تب کے فلسطین آج کے اسرائیل کی بیشتر زمینیں سب قانونی قاعدے کلیوں کے مطابق خریدی گئی تھیں۔ زور زبردستی اور لوٹ مار کے سلسلے بعد میں شروع ہوئے۔

یہی کچھ کشمیریوں کے ساتھ ہوا۔ شیخ محمد عبداللہ کے نسل در نسل خاندان جس کا اندر خانے نہرو خاندان کے ساتھ 370 اور 35اے کی آڑ میں گٹھ جوڑ کا جو سلسلہ وابستہ تھااس کی جڑت دراصل ان کے خاندانی اقتدار کی ہوس سے تھی۔

کیا انہوں نے قائد اعظم کی اس بات کو کچھ اہمیت دی جب وہ سری نگر میں اُن سے ملے تھے اور انہوں نے تنبیہ کی تھی۔ عبداللہ میری سیاسی بصیرت مجھے بتا رہی ہے کہ تم نے دھوکا کھا جانا ہے۔ دیکھو اب بھی سنبھل جاﺅ۔ اس پر شیخ عبداللہ کا ردّعمل کتنا شدید اور منفی تھا۔ تاریخ کے صفحات اس کے گواہ ہیں۔ (محترمہ سلمٰی اعوان تاریخ کی شناور ہیں۔ اس طالب علم کی رائے میں قائد اعظم اور شیخ عبداللہ میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ سردار شوکت حیات البتہ جولائی 1947 میں قائد اعظم کے ایلچی کے طور پر سری نگر گئے تھے۔ اگر کسی اور دوست کے پاس معلومات ہوں تو رہنمائی فرمائیں۔ مدیر)

اور کچھ ایسا ہی کردار وہ ہاشمی النسل پاسبان حرم ادا کررہا تھا۔ جس نے کہا تھا اسرائیلیوں کو میرا ممنون ہونا چاہیے کہ میں نے یہ سودا انہیں بہت رعایت میں دیا ہے۔ بیٹوں کو بادشاہ بنوانے کا صلہ، چاندی اور سونے کے سلسلے۔ یہ سودا کتنا سستا تھا۔ اور یہاں بھی عبداللہ سے لے کر فاروق اور عمر تک کے سلسلے ایسے ہی سودوں کے گواہ ہیں۔

افسوس کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ اب اِن محلاتی سازشوں میں ہر دو کے عام لوگوں پر کیا بیتی وہ تو کوئی راز نہیں۔ دکھ، لاشیں، خون، خوف نسل در نسل پتھر، چھریوں، بندوقوں سے مرتے مارتے، جیلوں میں گلتے سڑتے، تذلیل اور ذلت کے نئے نئے انداز اور رنگوں کا سامنا کرتے کتنے سال اور دہائیاں اپنے اوپر سے گزار بیٹھے ہیں۔

 اب اس نئی افتاد کا کیا جائے۔ یوں یہ نئی تو نہیں بڑی سوچی سمجھی اور Well Planned تھی۔ اب ہمارے اپنے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہوں تو اس میں قصور کن کا۔ یہاں تو امریکی دورے کا خمار ٹوٹنے میں نہیں آرہا تھا۔ داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے تھے۔ سینٹ کا الیکشن ہیرا پھیریوں سے جیتنے کی سرشاریاں تھیں کہ اگلوں نے بجلی گرا دی۔

 لو اب آواز دو اپنے اس ثالث کو۔ ہمارا اناڑی کھلاڑی کچھ نہ سمجھیں تو قصور ان کا تو نہیں۔ وہ تو شاطر بنئیے ہیں۔ ریاستوں کو ہڑپ کرنا اور انہیں ڈکار لیے بغیر ہضم کرلینا اُن کے لیے عام سی بات ہے۔

 ہمارے سربراہان موجودہ کیا؟ ماضی کے کیا؟ کیسے احمق تھے۔ ہندو ذہنیت کو سمجھتے ہی نہیں۔ آپ مودی حکومت سے کس خیر کی توقع لیے بیٹھے تھے۔ کیا یہ انہونی ہے جو انہوں نے کی۔ کیا آپ کو اس کی توقع نہیں تھی۔ تھی۔ ہمارے جو رویے اور ہمارے جو انداز وہ بھی سب پر عیاں ہے۔ سعودی عرب، ایران، متحدہ امارات، مشرقی وسطیٰ۔ کوئی بولا۔ کسی نے کچھ کیا۔ سی پیک کے مسئلے پر چین بھی ہم سے کچھ کھنچا ہوا ہے۔ تاہم اس نے پھر بھی تھوڑی سی شرم کی۔ زبان ہلائی۔ گو اس کے لیے لداخ اہم ہے۔ ترکی اور ملائشیا کی شکر گزاری کہ وہ بولے ہیں۔ سوال ہے کہ اب ہم بھیک منگوں کے لیے کون پنگا لے۔ کون اپنے مفادات کو داﺅ پر لگائے۔ بڑا ملک، بڑی منڈی، اوپر سے سفارت کاری میں انتہا درجے کے مستعد۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اِن رنگیلے مسلمان شہزادوں میں سے بیشتر کی تیسری چوتھی بیویاں ہندوستانی ہیں۔ اپنے ملک کے کچھ نیک نام سفارت کاروں سے پوچھئیے جو آپ کو بتائیں گے کہ یوم فلسطین پر پاکستانی سفارتی عملہ حاضر ہونا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے جب کہ ہمارے کشمیر ڈے پر ہمارے سفارت کاروں کے پیہم اصرار کے باوجود وہ آنا پسند نہیں کرتے۔

 اب پورے بھارت میں ایک سرشاری کی سی کیفیت ہے۔ ہندوستان کی وزیر خارجہ ششما سوراج ہارٹ اٹیک سے چل بسی ہیں۔ سوشل میڈیا اور ٹوئیٹر پر اس کی انسان دوستی کے بڑے قصّے ہیں۔ درست ہیں۔ تاہم یہ بات بھی یاد رکھیں کہ وہ ایک کٹر ہندو ذہنیت کی حامل خاتون تھیں۔ اس وقت جب وہ دل کے دورے میں موت اور زندگی کی کشمکش میں سفر کررہی تھی اُس کا آخری ٹوئٹ جو اس کا نریندر مودی کے لیے تھا میں اس نے کہا کہ میں آپ کی شکرگزار ہوں۔ یہی وہ دن تھا جسے دیکھنے کی میں زندگی بھر منتظر رہی۔ تو یہ ہارٹ اٹیک یقینا اسی خوشی کے نتیجے میں ہی ہوا ہوگا۔

 پیچھے ماضی میں پلٹ کر جائیے تو ایسا ہی ایک اور واقعہ معاہدہ تاشقند یادوں میں ابھرتا ہے۔ زمانہ 1965 کا اور لڑائی کی وجہ بھی یہی مسئلہ کشمیر۔ جنگ بندی اور کشیدگی کی صورت خوفناک تھی۔ دو قدم پر ے رہنے والے روسی رہنماﺅں کو خیال آیا تھا کہ بیچ میں پڑے بغیر تعلقات بحال نہیں ہوں گے۔ بس تو میلہ کوسیجن حکومت نے سجا لیا تھا۔ وہ چھ فٹ سے نکلتی قامت والا وجیہہ جرنیل ایوب خان، وہ منّی سی قامت والا زیرک سیاست دان ہمسائے ملک کا وزیر اعظم لال بہادر شاستری، میرے ملک کا بے حد ہر دل عزیز مگر بدنصیب سیاست دان اور حکمران ذوالفقار علی بھٹو سب یہاں اکٹھے ہوئے تھے۔

 اب مذاکرات پر مذاکرات۔ معاہدے کا اونٹ کِسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا تھا۔ میزبان بھی پریشان ایسے میں ہندوستانی لیڈر نے تنہائی میں ایوب خان سے خوشامد کرتے ہوئے وہ منوا لیا تھا جو وہ منوانا چاہتا تھا۔

 مہاراج آپ تو بادشاہ ہیں۔ فیلڈ مارشل ہیں۔ کسی کو جواب دہ نہیں۔ میری قوم نے تو میری تکہ بوٹی کردینی ہے۔ اور شاطر کھلاڑی تاریخ ساز شاہ مات دینے کے عین دس گھنٹے بعد جان کی بازی ہار گیا۔ ناگہانی موت پر ایک تبصرہ یہ بھی تھا کہ اتنی بڑی خوشی نہ سہار سکا۔

ایک تو پڑھے لکھے ملکی اور دنیا کے حالات کو تھوڑا بہت سمجھنے والے بیچارے بے بس سے مڈل کلاسیے لوگ ایک صدمے کی سی کیفیت میں ہیں۔ اوپر سے اِن بڑے لوگوں کی بڑھکیں اُن کا خون جلائے دیتی ہیں۔ یہ کیسے سیاست دان ہیں جو بدلتے حالات کے تناظر میں ہمسایہ ملکوں کے سرکردہ لوگوں کے رویوں پر غوروخوض نہیں کرتے۔ ملک کے خارجہ پالیسی کے ماہرین سے ڈائیلاگ نہیں کرتے۔ اندرونی محاذ آرائی سے نمٹنے کا کوئی راستہ نکالنے کی بجائے اُسے طول دینے اور مخالفوں کے ساتھ پنگے لینے کے گھٹیا طریقوں میں اُلجھتے ہوئے حقیقی مسائل کی طرف دھیان نہیں دیتے۔

جی چاہتا ہے چیخ چیخ کر کہیں خدا کے لیے رُک جائیں۔ وقت قیامت کی چال چل گیا ہے اور آپ ہیں کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ فضول کی الزام تراشیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ خدا کے لیے یہ گرفتاریوں کے سلسلے بند کریں۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہوں۔ اپنے دشمن کو واضح پیغام دیں کہ ہم متحد ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).