کشمیر کے حالیہ بحران کے تین ذمہ داران


بی جے پی سے برائی کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ جس سیاسی جماعت کا جوہر مذہبی انتہاپسندی اور جبر کو جائز قرار دینے پر ہو، اس کے لئے اخلاقیات، جمہوری طرز عمل، معتدل پالیسی سازی کے کیا معنی ہوں گے۔ اس سیاسی غنڈوں کے طرز عمل پر بات کرنا ہی وقت کا ضیاع ہے۔ یہاں شکوہ بی جے پی سے نہیں، ان ذمہ داران سے ہے جنھوں نے ان وحشیوں کو موقع دیا کہ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ ملک پر مسلط ہو کر پورے خطے کو جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کریں۔

بی جے پی کو شہہ دینے کے اولین ذمہ دار تو بھارتی مسلمان ہی ہیں جنھوں نے سیکیولرازم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا۔ یہ بھارتی سیکولرازم ہی تو تھا جس نے اقلیتی مسلمانوں کو اکثریتی ہندوؤں کے مقابل کم از کم آئینی اعتبار سے ریاستی ضمانت پر تحفظ، توازن، رواداری اور اعتماد دیا ہوا تھا۔ اسی سیکولرازم کی بنیاد پر بھارتی مسلمان اکثرو پیشتر پاکستانی مسلمانوں پر فخر تک کرتے تھے۔ اور اسلامی جمہوریہ کے باسیوں پر ترس کھاتے تھے۔

لیکن پھر ایک مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک ابھرتا ہے جو اپنی قائل کرنے کی بجائے لاجواب کرنے والے دلائل سے اسلام پھیلانے کا بیڑا اٹھاتا ہے۔ اتنے تک تو ہندو سماج نے ان کو قبول کیا لیکن جب وہ غیر ضروری طور پر اپنے ہر شو میں تواتر کے ساتھ ہزاروں ہندو مردوں اور عورتوں کو مسلمان کرتا ہوا دکھانا شروع کردیتے ہیں تو ہندو سماج میں بے چینی کا پھیلنا قدرتی امر تھا۔ مسلم طبقے کی برتری کا خوف اور اپنی شناخت کے عدم تحفظ کے احساس نے وہاں کی ہندو اکثریت کو انتہا پسند ہندو تنظیموں کی طرف جھکنے پر مجبور کردیا۔

جنہوں نے اس رجحان سے طاقت پکڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلم مخالف بیانیے نے سیاسی نعرے سے عوامی قبولیت تک کا راستہ طے کرلیا۔ جس سیاسی جماعت کو بابری مسجد اور گجرات فسادات جیسے سانحات تن تنہا حکومت بنانے کے قابل نہ بناسکے اسے مسلمانوں کے اس غیر ذمہ دارانہ طرزعمل نے تاریخی طور پر بھاری اکثریت سے نواز دیا۔ اب وہاں کے مسلمانوں کی زندگی کا تحفظ تو داؤ پر لگا ہوا ہے ہی، سیکولرازم کی نظریاتی اساس بھی بی جے پی کے رحم و کرم پہ آن پڑی ہے۔

حالیہ کشمیر سانحے کے دوسرے ذمہ داران خود کشمیری عوام ہیں۔ گزشتہ ستر سال سے جموں کشمیر طوعاً و کرہاً بھارتی جمہوری نظام کا حصہ ہے اور یہ عمل بلا رکاوٹ جاری رہا ہے۔ اس طویل عرصے میں کشمیری عوام اپنے آپ کو شیخ عبداللہ فیملی سے چھٹکارا حاصل نہیں دلا سکی۔ یہ بات باعث حیرت ہے کہ عبداللہ فیملی کی پے درپے منافقانہ اور موقع پرستی پر مبنی سیاست کو کشمیریوں نے قبول کیے رکھا۔ کیا یہ بدقسمتی نہیں کہ کشمیری عوام اس پورے دور میں ایک بھی ایسی سیاسی شخصیت پیدا نہیں کر سکے جو کشمیر کی آزادی نہ سہی کم از کم اس کے آزادانہ تشخص پر واضح اور دو ٹوک نکتہ نظر رکھتی ہو۔

مسلم کانفرنس، کانگریس ہو یا پی ڈی پی، کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات کشمیریوں کے حقوق کی بجائے دہلی کی خوشنودی حاصل کرنا رہی ہیں۔ اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ آرٹیکل 370 کی غیر فعالیت کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اگلا پلان ہی نہیں اور نہ ہی کسی میں اتنی جرات ہے کہ میدان سنبھالے اور کشمیری عوام کی رہنمائی کرے۔ تمام سیاسی قائدین محض اپنی سیاسی زندگی بچانے کی خاطر بیان بازی پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ تاریخ کے ایسے نازک موڑ پر رہنما سے محرومی کشمیریوں کے لئے ایک المیہ ہے۔ شاید اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی حکومت کی اتنی ہمت ہو سکی کہ اس نے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے کسی کشمیری کو اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا۔

اس سارے منظر نامے کے تیسرے ذمہ دار پاکستانی ہیں۔ پہلے پہل تو ایک آمر حکمران نے بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد جیسے اصولی موقف کو بالائے طاق رکھ دیا۔ پھر خود ساختہ فارمولے پیش کیے اور ان پر عملدرآمد کے لئے اس درجے اصرار کیا کہ بھارت کو یقین ہونے لگ گیا کہ پاکستان کے مقتدر حلقے کشمیر پر اپنی گرفت کمزور کر بیٹھے ہیں۔ بعدازاں مذاکراتی سرکس میں بھارت نے اس احساس پر کامل یقین پا لیا۔

اس موقع کی مناسبت سے ہی جس بی جے پی نے آرٹیکل 370 کو 1984 سے محض ایک سیاسی نعرہ بنا رکھا تھا، 2009 کے الیکشن سے اسے باقاعدہ اپنی ترجیحات میں شامل کردیا اور کانگریس نے بھی اس بارے پراسرار خاموشی اختیار کرلی۔ اس جبر کو نافذ کرنے کے لئے انہیں بس ایک مناسب وقت کا انتظار تھا۔ تاہم اس مناسب وقت کو روکنا ممکن تھا۔ اس کے لئے کشمیر کے متنازعہ اسٹیٹس کو کو ہر حال میں بحال رکھا جانا ضروری تھا جس کا سب سے بڑا اظہار بھارت کو مذاکرات پر مجبور کیے جانا تھا۔

لیکن ہم نے مجرمانہ طور پہ اس موقع کو بھی گنوادیا۔ نواز مودی ملاقاتوں کو غداری اور پاکستان دشمنی کا نام دیا، کلبھوشن کیس پر حد درجہ سیاست بازی کر کے سفارتی دباؤ کا موقع ضائع کیا اور اعتماد سازی کے تمام راستوں کو اپنی سطحی، کم علمی اور تھرڈ کلاس سازشی تھیوریوں کی نذر کردیا۔ اب جب کہ نریندر مودی قومی اور عالمی سطح پر اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھ چکا ہے تو چاہے انہیں خط لکھے جائیں، فون کیے جائیں، کرتار پور راہداری کھولی جائے، پائلٹ واپس کیا جائے یا کسی ملک کی ثالثی کی پیشکش کروائی جائے، خیر سگالی کا جذبہ کسی صورت ابھرنے والا نہیں۔

جس کا اظہار بجا طور پر حالیہ فیصلے میں نظر آیا۔ لیکن پانی ابھی بھی سر تک نہیں پہنچا۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان اب بھی بہترین سفارتی پوزیشن میں ہے۔ تکنیکی طور پر خطہ کشمیر پر بھارت نے آرٹیکل 370 کو غیر فعال کر کے اپنے غاصبانہ قبضے کو خود بخود ثابت کردیا ہے۔ جب کہ پاکستان نے کشمیر کے کسی خطے پر ایسا کوئی قبضہ نہیں کیا بلکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان نے ازخود پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ یعنی کہ پاکستان کا خطہ کشمیر کے ساتھ رویہ ابھی تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔

اس نکتہ کی بنیاد پر پاکستان بھارت کے غاصبانہ عزائم کو بھرپور طور پر بے نقاب کر سکتا ہے اور کشمیر کیس کو زبردست طریقے سے دنیا بھر میں اجاگر کر کے بھارت کو مزید کسی قدم لینے سے روک سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ میں بھرپور تیاری کے ساتھ اس کیس کو اس طرح لڑے کہ وہ اپنے آپ کو مسئلہ کشمیر پر 1948 والی پوزیشن پر پائے۔ تبھی بھارتی درندے کو پنجرے کی طرف ہانکا جا سکتا ہے۔ یہ کیس پاکستان کی سفارتی طاقت کا بھرپور امتحان ہے کیونکہ تاریخ اس میں کس بھی قسم کی غفلت کو 1971 کے بعد بدترین ناکامی تصور کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).