گورنر پنجاب چوہدری سرور کے ساتھ ایک نشست !


ریاست پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت بہت سارے ملکی اور بین الا اقوامی چیلنجر کا سامنا ہے۔ ملکی سطح پہ بات کی جائے، تو سب سے بڑا عذاب مہنگائی کا ہے۔ سیاسی معاملات کی بات جائے، تو اس وقت ملکی قانون بھی اپوزیشن جماعتوں کے لئے سونامی بنا ہوا ہے۔ اور بین الاقوامی لیول پہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے کمزور سفارتی تعلقات کے حوالے سے بہت سارے سوالات کے جوابات حاصل کرنے تھے۔ اس سلسلے میں کافی سوچ و بچار کے بعد کوشش تھی کہ کسی حکومتی جماعت کے فیصلہ ساز سے ملاقات کی جائے اور ان سے سنگین حالات و واقعات کے بارے میں معلومات ملی جائیں۔ با اثر سیاست دان اور موجودہ گورنر پنجاب چودھری سرور سے ملاقات کا وقت طے پا گیا۔

تھوڑا شیڈول تبدیل کیا اور گورنر صاحب کے پبلک ریلیشن افسر پون سنگھ اروڑا کی مشاورت سے کچھ دیگر مختلف چینلز کے نیوز اینکرز کو بھی ملاقات کا حصہ بنایا۔ جن میں ذیشان بشیر، عمر دراز، عمیر بشیر، وجاہت خان، عزیر ملک اور غوث گوندل کو بھی مدعو کیا گیا۔

گورنر ہاؤس کی مسجد میں سب سے پہلے نماز جمعہ ادا کی۔ وہاں گورنر صاحب کے کافی قریب سمجھے جانے والے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کی زیارت ہوئی۔ گورنر ہاؤس کا سربز و شاداب اور وسیع رقبہ پہ پھیلا لان (صحن) کا نظارہ بہت خوبصورت تھا اور اوپر سیاہ بادل تاک جھانک کررہے تھے اور ساتھ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ایک ساتھی اینکر یہ حسین امتزاج دیکھ کے کہنے لگا کہ اس طرح کے مناظر ہی ان سیاست دانوں کو وفاداریاں بدلنے پہ مجبور کرتے ہیں۔

جہاں ہر وقت بادشاہ جیسا رہن سہن ملے۔ اسی دوران گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھولنے کا خیال بھی آیا، پھر ایک دوست بولا ”چھڈو جی مٹی پاؤ“ اسی دوران سندیسہ آگیا اور ہم گورنر صاحب کے میٹنگ روم میں چلے گئے۔ کچھ دیر میں گورنر صاحب تشریف لے آئے اور گورنر صاحب نے بڑی خوشی سے سب سے مصافحہ کیا اور پنجابی زبان میں دو چار باتیں کیں۔ سب مہمانوں کا حال چال پوچھا۔ پھر سب مہمانوں نے اپنا اپنا تعارف کروایا۔

چودھری سرور صاحب سے ان کی مصروفیات کے بارے پوچھا تو کہنے لگے! بہت محنت سے کام کررہا ہوں۔ صبح نو بجے سے لے کر رات گیارہ، بارہ بجے تک دفتری امور سرانجام دیتا ہوں۔ یہاں گپ شپ کے بعد چودھری سرور نے سب کو کہا ”چلو اٹھو ہن ذرا لنگر کھا لیے“ پھر سب کے سامنے کھانے کی میز پہ مختلف انواع و اقسام کے کھانے لائے گئے۔ جس میں مٹن، بریانی، کڑھی اور میٹھے میں بہت ہی لذیذ کھیر کھلائی گئی۔ ان سب میں کڑھی گورنر صاحب کی فیورٹ تھی۔ اسی دوران باقاعدہ سوالات کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

1۔ کیا کشمیرایشو پہ ہمیں انٹیلجنس اور سفارتی محاذ پہ ناکامی ہوئی؟

سوال کے انٹیلجنس والے حصے پہ گورنر صاحب نے کھل کے جواب نہ دیا اور بات گول ہوگئی۔ باقی انہوں نے سفارتی محاذ پہ کمزوری کا ماضی کی حکومتوں پہ ملبہ ڈال دیا کہ ماضی میں یہاں سے پارلیمنٹیرین، وزرا باہر گھوم پھر کے آجاتے تھے بلکہ ان کو چاہیے تھا کہ وہاں پارلیمنٹیرین سے اپنا ذاتی تعلق بناتے، ان سے دوستی کرتے جو آج پاکستان کے کام آتی۔ انہوں نے کہا موجودہ کشمیر ایشو پہ ان کے کہنے پہ پچاس سے زائد برطانوی ایم پی ایز نے اقوام متحدہ کو خط لکھا۔ باقی وہ بھی عام عوام کی طرح تھوڑے پریشان تھے کہ اب کیا ہوگا !

قانون اور گرفتاریاں صرف اپوزیشن ہی کے لیے کیوں؟

گورنر صاحب جھٹ سے بولے کہ ایسی بات نہیں علیم خان اور سبطین خان کا نام لیا۔ اور کہا ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں حکومتی جماعت کے لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہو۔

انہوں نے یہ بھی یاد دہانی کروائی کہ یہ سارے کیسز ہمارے دور حکومت کے نہیں۔اگر یہ پکڑے جانیوالے لوگ بے گناہ ہیں تو یہ اپنی بے گناہی ثابت کریں۔ مریم نواز کی گرفتاری پہ کہا کہ نیب آزاد ادارہ ہے ہم کچھ نہیں کررہے۔ ایک ساتھی دوست نے کہا کہ اس وقت ملک میں یہی تاثر ہے کہ حکومت انتقامی کارروائی کر رہی ہے کیا یہ آپ کے انصاف اور میرٹ کے نعرے کے خلاف نہیں؟ چودھری سرور بولے ایسی کوئی بات نہیں سب میرٹ پہ ہیں۔ مزید کہا نواز شریف ہو یا آصف زرداری جن پہ کیسز ہیں ان کو بھگتنا پڑے گا۔

کیا عمران خان تھوڑے انا پرست نہیں؟

گورنر صاحب نے کہا ایسا نہیں، ان کا اپنا ایک سٹائل ہے اور بہت ایماندار آدمی ہیں۔

کیا اب سینئر پارٹی قیادت سے آپ کی معاملات ٹھیک ہیں؟

یہ سوال سنتے ہی کھل کھلا کے ہنس پڑے اور کہا ملک کے لیے بہت کچھ نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑتا ہے۔ باقی فیصلہ مستقبل کرے گا۔

پنجاب آپ چلا رہے ہیں، جہانگیر ترین یا بزدار صاحب؟

گورنر صاحب بولے ہر کوئی یہی کہتا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے بزدار صاحب عقل مند ہیں وہ غلط فیصلے نہیں کرتے۔ اچھے طریقے سے سسٹم چلا رہے ہیں۔

گورنرشپ قبول کرتے وقت عمران خان سے کیا ڈیمانڈ کی تھی؟

گورنر صاحب نے کہا کہ جب مجھے بتایا گیا کہ میں گورنر بنایا جارہا ہوں تو میں نے خان صاحب سے کہا کہ تعلیم، صحت، پانی کے نظام کو میں دیکھوں گا اور آئی جی پنجاب میری مرضی کا ہوگا۔ تاکہ لوگوں کی بنیادی مسائل حل ہوسکیں۔

چیرمین سینیٹ کی کیا گیم ہے؟

گورنر صاحب نے خوشی سے جواب دیا کہ سنجرانی صاحب جیسے پہلے کامیاب ہوئے۔ ویسے ہی اب بھی جیتے۔ باقی حکومتی جماعت کو ہمیشہ ایج ہوتا ہے۔

شریف بردران سے جدائی کیوں ہوئی؟

چودھری سرور نے کہا کہ جتنی عزت مجھے میاں برادران نے دی وہ کسی اور سیاستدان نے کم ہی دی۔ انہوں نے کہا ایک دفعہ سابق دور حکومت میں عید الفطر کے موقع پہ میاں نواز شریف خود ان سے عید ملنے آئے، حتی کہ وہ تب وزیراعظم تھے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا میاں نواز شریف بڑے کنفیوز اور شکی ہیں جلدی اعتبار نہیں کرتے اور میاں شہباز شریف بڑے کمپیٹینٹ بندے ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ہر کام میں ٹانگ اٹکاتے تھے۔ اس لئے چھوٹی چھوٹی باتیں دوری کی وجہ بن گئی۔

اور ملاقات کے اختتام پر کہا کہ حکومت کی کامیابی کے لیے دعا کیجیے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).