سری لنکا۔ چائے کی سرزمین۔ قسط نمبر 6


کینڈی کے قدیم بادشاہی محلات

یورپ۔ روس اور انگلینڈ کے شاہی محلات کو ان ممالک نے اپنی اصلی حالت میں محفوظ کر لیا ہے اوراب ان پر ٹکٹ لگا کر سیاحوں کے لئے کھول دیے ہیں۔ برصغیر میں بھی بادشاہوں نے بہت بڑے بڑے اور بہت خوبصورت محل تعمیر کروائے تھے۔ لیکن بیرونی حملہ آوروں نے حملوں کے دوران ان کو تباہ بھی کیا اور بہت سارا سامان لوٹ لیا۔ رہتی کسر برطانیہ نے اپنے راج کے دوران نکال دی۔ جس محل سے جو چیز اچھی لگی وہ یہاں سے اکھاڑ کر لے گئے۔

سری لنکا میں بھی مختلف بادشاہتوں کے دوران بہت سے محلات تعمیر ہوئے ان میں کینڈی کا شاہی محل بھی شامل ہے۔ ہم اپنے گائیڈ کے ساتھ کینڈی کا شاہی محل اور اس میں واقع مہا تمہ بدھ کے مقدس دانت کے مندر اور دوسری یاد گاریں دیکھنے کے لئے شاہی محل کے گیٹ پر پہنچے۔ ٹکٹوں کا انتظام پہلے ہی ہو چکا تھا اس لئے گیٹ پر زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ایک ٹورسٹ کے لئے ٹکٹ سری لنکن ایک ہزار روپے کا تھا۔ لیکن شاید بڑے گروپوں کے لئے کچھ رعایت ہو گی۔

سب سے پہلے ہم نے مقدس دانت والے مندر دیکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ چونکہ بدھ مت کی ایک مقدس ترین جگہ ہے ا س لئے گائیڈ کی طرف سے سب کے لئے یہ خصوصی ہدایات تھیں کہ بہت ادب اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔ میں اور اسجد اکٹھے مندر کے دروازے سے اند ر داخل ہوئے۔ ہم چونکہ ہم عمر بھی تھے اور کچھ مزاج بھی آپس میں ملتا تھا اس لئے مندر کی طرز تعمیر پر ہماری سیر حاصل گفتگو ہوئی تھی۔ ہندوؤں کے مندروں کے برعکس یہ کافی بڑا مندر ہے۔

مندر کے اندر زیادہ تر صندل کی لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ہاتھی دانتوں سے مزین۔ لکڑی پر بہترین اور خوبصورت پچیکاری۔ مہاتما بدھ کا سونے کا مجسمہ اس مندر کا خاصہ ہے اور اس کے اندر مہاتما بدھ نے دانت نے اسے مقدس ترین بنا دیا ہے۔ ہم گروپ کے دوسرے لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے مقدس دانت کی جگہ پر پہنچے۔ مقدس دانت سونے سے بنے ہوئے ایک برتن میں رکھا گیا ہے۔ ہاتھی دانت اور سونے سے مزین یہ جگہ مہاتما بدھ کے دانت کی وجہ سے مقدس ترین ہو گئی ہے۔

بدھ بھکشؤں کی ایک بڑی تعداد اندر موجود تھی۔ بدھ مت کے ماننے والے زائرین کی ایک بڑی تعداد بھی تھی جو منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہے تھے۔ ان کے لئے یہ ایک مقذس ترین جگہ ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا سے بدھ مت کے ماننے والے یہاں پر آتے ہیں۔ میں نے مندر میں داخل ہونے سے پہلے باہر سے کچھ پھول خریدے تھے جو میں اندر لے کر آیا تھا اور انھیں ایک ان کے لئے مخصوص جگہ پر رکھ دیا۔ مندر کے اندر سرخ اور سنہرے رنگوں کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے۔ اندر سب لوگ خاموشی سے آگے آگے چلتے جا رہے تھے۔ احتراماً بہت سارے لوگوں نے فوٹوگرافی سے اجتناب ہی کیا

۔ یہاں سے نکل کر ہم مندر سے نکل کر ہم ایک بڑے ہال میں پہنچے۔ یہ تقریباً اسی نوے فٹ لمبا اور تیس پینتیس فٹ چوڑا ہال ہے۔ اس ہال کا نام ماگول مدہوا ہے۔ اس ہال میں کینڈن بادشاہ اپنی عدالت لگایا کرتے تھے۔ اس ہال کی تعمیر میں صندل اور دوسری قیمتی لکڑی کا استعمال ہوا ہے۔ لکڑی کی چھت کو سنبھالا اور سہارا دینے کے لئے لکڑی کے ستون ہیں جن پر نقاشی اور اور کندہ کاری اس دورکی ثقافت کی آئینہ دار ہے۔ بہترین نقش نگاری سے مزین یہ ستون اس دور کے بادشاہوں کے زوق کا پتہ دیتے ہیں۔

سری وی سنہا راجہ نے اسے 1783 ء میں اسے تعمیر کروایا اور یہ سری وکرمہ راجہ سنہا کے دور میں مکمل ہوا۔ بعد میں 1872 ء میں یہ ہال میں البرٹ ایڈورڈ پرنس آف ویلز کی آمد پر سجایا گیا۔ اس ہال میں برٹش راج میں کانفرنسیں اور اجتما عات میں قراردادیں پڑھ کر سنائی جاتی تھیں۔ جہلم سے ہمارے ایک ساتھی اسجد بڑے غور سے ہال کے چھت میں لگے شہتیروں اور ان کے نیچے نصب ستونوں کو دیکھ رہے تھے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر بولے۔

میں حیران ہوں کہ کہاں کہاں سے اور کتنی دور سے کتنے بڑے بڑے قیمتی درخت کاٹ کر انھیں یہاں لایا گیا اور پھر انھیں تراش خراش کر یہاں نصب کیا گیا۔ کتنے مستری اور مزدور اس دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے۔ بادشاہوں کوصرف اپنے شوق پورے کرنے ہوتے تھے جس کے لئے وہ کچھ بھی کر گزرتے تھے، میں نے جواب دیا۔ اس ہال کے سامنے ایک کھلا میدان ہے جہاں سالانہ میلہ ایسالہ پرہارہ لگتا ہے، اس میلے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔

اس میدان میں نصب ہمیں چند مجسمے بھی نظر آئے۔ مجھے ایسی چیزوں میں ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ اس کے لئے میں نے ایک چھوٹی سی نوٹ بک جیب میں رکھی ہوتی ہے۔ میں نے نوٹس لینے شروع کر دیے۔ ہمارا گائیڈ بھی ہمیں بتاتا جا رہا تھا۔ ایک مجسمہ ایک سات آٹھ سال کے بچے کا تھا۔ مجسمے کے نیچے ایک تعارف انگریزی میں لکھا تھا۔ ہمت اور بہادری کا ایک نشان آٹھ سال کا بچہ ماڈوما بنڈارہ۔ اس کا باپ ایلی پولا ڈسواہ بادشاہ کا ایک اچھا درباری اور ایک اچھے عہدے پر فائز تھا۔

لیکن جب پتہ چلا کہ وہ انگریز کے خلاف ہے اور آزادی پسند تحریک کا حامی اور سپورٹر ہے تو بادشاہ نے اسے قتل کرا نے کے ساتھ ساتھ اس کے تمام خاندان کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم دیا۔ یہ بچہ بادشاہ کی فوج نے گرفتار کیا اور بادشاہ نے اس بچے کا سر کاٹنے کا حکم دیا۔ مقتل میں بچے نے بہادری سے جلاد سے کہا کہ میرا سرایک ہی وار سے کاٹ دیا جائے۔ 17 مئی 1814 ء کو اسی میدان میں اس کا سر قلم کیا گیا۔ اس کی ماں اور بہنوں کو دریا میں ڈبو کر ہلاک کیا گیا۔

بر صغیر کی آزادی میں اس علاقہ کے بہت سے لوگوں نے حصہ لیا اور ملک کی آزادی کے لئے موت کو ہنس کر گلے لگایا۔ قومیں آزادی کے لئے جانیں قربان کرنے والے اپنے بہادروں کو کبھی نہیں بھولتیں اسی لئے اس بہادر بچے کی بہادری کی یاد میں اس کا مجسمہ یہا ں نصب کیا گیا ہے۔ سری لنکا کی آزادی کے ایک اور ہیرو کیپیٹیپولا ڈسوا کا مجسمہ بھی ہمیں یہاں نظر آیا۔ جس کے ہاتھ میں تلوار ہے۔ یہ سری لنکا کی آزادی کا ہیرو ہے۔

یہ آخری بادشاہ سری وکرمہ سنگھا کے عہد میں ایک اعلے عہدے پر فائز تھا۔ بعد میں برٹش راج کے خلاف بغاوت کے جرم میں اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ 1818 میں اس نے اپنی موت سے قبل کہا کہ اسے سب کے سامنے موت کی سزا دی جائے اور اس کا سر ایک ہی وار سے کاٹا جائے۔ لیکن جلاد تلوار کے ایک وار سے اس کا سر نہ کاٹ سکا اور دو وار اور کیے یوں اس ہیرو نے بہادری سے موت کو گلے لگایا۔ اسے قتل کر کے اس کا سر ایڈن برگ انگلستان لے جایا گیا۔ جہاں سے سری لنکا کی آزادی کے بعد اس کی کھوپڑی کو 1948 ء میں واپس لا کر یہاں دفن کیا گیا اور یہا ں پر اس کا مجسمہ بنا کر لگایا گیا۔ اسی میدان میں بدھا کے مقدس دانت کو سری لنکا لے کر آنے والی قدیم شہزادی ہہیماما لی اور اس کے خاوند شہزادہ دھا نتہا کے مجسمے بھی نصب ہیں۔

کینڈی کے بادشاہ وملا دھرما سوریہ اول نے کینڈی میں سب سے پہلے شاہی محل تعمیر کروایا۔ محل مندر کے شمال میں واقع ہے۔ بعد میں وکرما باوو نے تیرویں صدی اور سیتا سما وکرما باوو نے بھی یہیں محل تعمیر کروائے۔ شاہی رہائش گاہ کو سنہالی میں ماہا وسالہ کہتے ہیں۔ محل کے اردگرد آٹھ فٹ اونچی دیوار ہے۔ محل میں ناتھہ دیوالی والا حصہ قدیم ترین گردانا جاتا ہے۔ برٹش راج میں کینڈی کے پہلے گورنر سرجان ڈی اوپی کا قیام اس محل میں رہا اور ان کے پیشرو نے بھی اسے اپنی سرکاری رہائش کے طور پر استعمال کیا۔ اب اس محل کر آثار قدیمہ نے اپنی سپردگی میں لے لیا ہے۔ ملکہ کا شاہی محل بھی اسی کے ساتھ واقع ہے۔ ہمیں یہ ساری معلومات ہمارے گائیڈ نے فراہم کیں۔ عموما گائیڈ ز باتیں زیادہ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس معلومات کم ہوتی ہیں۔ ہمارہ گائیڈ گو کہ نوجوان تھا لیکن سری لنکا کی تاریخ اور جغرافیہ کافی جانتا تھا۔

شاہی محل بہت بڑا ہے جس کو صیح طور پر دیکھنے میں کافی وقت درکار تھا اس لئے ہم نے محل کو دیکھنا موقوف کیا۔ اپنے گائیڈ سے میں نے پوچھا کہ اب ہم نے کہاں جانا ہے تو اس نے بتایا کہ ہماری اگلی منزل بادشاہی نباتاتی باغ ہے۔ میں نے عابد سلطان اور ایک اور ساتھی سے پوچھا کہ کیا وہ بڑا بدھا دیکھنا چاہتے ہیں، ان کے حامی بھرنے پر میں نے فورا اپنے طور پر یہ پروگرام ترتیب دیا کہ ہم یہا ں سے ٹیکسی پر بدھا دیکھنے چلتے ہیں اورجب تک باقی لوگ محل دیکھتے ہیں ہم بدھا قریب سے دیکھ کر اپنے گروپ سے بادشاہی نباتاتی باغ میں آ کر مل جائیں گے۔ چونکہ بڑے بدھا کی سیر گروپ کے پروگرام میں نہیں تھا اور میں اس کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ سری لنکا کا سفر نامہ جاری ہے باقی اگلی قسط میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).