یکساں نظام تعلیم


نظام تعلیم کی اصطلاح سے مراد یہ ہے کہ ایک قوم اپنی تہذیب و ثقافت مذہبی اقدار و روایات کے لحاظ سے اور مروجہ سائنسی و ٹیکنالوجیکل تجربات اور تحقیقات کو مد نظر رکھ کر مربوط ریاستی نظام تعلیم مرتب و متشکل کیا جاکر اپنا نظام تعلیم ترتیب کرتی ہے۔ اس طرح حکومتی سر پرستی میں عوام الناس کے لئے مرتب کردہ نظام تعلیم یکساں نظام تعلیم کہلاتی ہے۔ ہر ملک اپنے گردو پیش کا جائزہ لے کر اپنی ماضی و مستقبل کے آئینے کی مطابقت سے تعلیمی نظام بناتی ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ سکولز کالجز اور یونیورسٹیز اپنا جدا گانہ سلیبس اور اپنا تعلیمی پروگرام پیش کرتی ہیں۔ سادہ لفظوں میں نظام تعلیم وفاقی، صوبائی یا مقامی سطح پر پالیسی کے مطابق طالب علموں کے لئے مختلف مدارج کے مطابق نظام تعلیم پر مشتمل ہوتی ہیں۔

پاکستان کی ایک مشکل یہ ہیں کہ اس میں بھی دیگر ممالک کی طرح طبقاتی تعلیمی نظام ہیں۔ ایک طرف گورنمنٹ آف پاکستان کے سلیبس کیمطابق تعلیمی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں جبکہ دوسری طرف حکومتی بے توجہی اور نا اہلی کی وجہ سے کمرشل پرائیوئٹ ادارے اور یونیورسٹیوں کی بھر مار ہیں جو کہ باقاعدہ طور پر اب ایک صنعت کا درجہ رکھتی ہوئی تعلیم سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہیں۔ اس طرح دونوں اطراف مختلف قسم کی تعلیم ہائے دیتی آئی ہیں جسمیں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کے لئے پرائیویٹ سکولز سسٹمز، ایچی سن، ایڈورڈ کالج وغیرہ میں اولیول۔ اے لیول اور دیگر نظام ہائے پڑھائے جاتے ہیں جبکہ مدارس کی تعلیم اس کے علاوہ ہیں جس کی کئی قسم کی بورڈ بنائے گئے ہیں یعنی یہ مختلف قسم کے دینی اسباق مختلف مکاتب فکر کے رو سے پیش کرتے ہیں۔

تعلیم منظم طریق سے معلومات حاصل کرنے یا دینے کا عمل ہے۔ جس کے ذریعے معاشرہ اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اگلے نسلوں کو پہنچاتا ہے۔ تعلیم دیگر ذرائع کے علاوہ سکولوں اور مدرسوں میں فراہم کیجاتی ہیں۔

ہمارے وطن میں آزادی سے لے کر اب تک یکساں نظام تعلیم شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ہے۔ اگرچہ 2013 اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبوں کی ذمہ داری قرار پائی ہیں لیکن صوبے تا حال اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کس طرح یکساں نظام تعلیم کے اہداف سر کیے جاسکتے ہیں؟ جوابًا عرض ہیں جس طرح مذکورہ سطور میں ہم نے نظام تعلیم کا تذکرہ کرکے اس کا حل بھی کسی حد تک دیا ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے اہداف ہیں جو اگر حاصل کرلئے جائیں تو یکساں نظام تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ پہلے ہم دیکھتے ہے کہ یکساں نظام تعلیم ہم کس طرح بنا سکتے ہیں؟ جوکہ مندرجہ سطور میں اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔

1۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک سال سے لے کر سکول جانے کی عمر تک کے بچوں کی نگہداشت اوراعلی معیار کی ابتدائی تعلیم کے متعلق اپنے معاشرے کے اقدار و روایات کے مطابق کوالٹی ایجوکیشن کے لئے از سر نو پالیسی تشکیل دیا جائے۔ اس طرح سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے لئے یکساں نظام تعلیم کاسلیبس بنایا جائیں۔

2۔ پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کی سطح پر بچوں کے لئے سکولز میں توجہ، باہمی ربط، دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کی صلاحیت، تخلیقی سوچ کیمطابق ہنر کورسز میں شامل کیے جائیں۔

3۔ پڑھنے، لکھنے، بولنے و سننے، زبان کی قواعد، ذخیرہ الفاظ اور تخلیقی مہارت کی ہنر سکھانے کے لئے اساتذہ کو پیشہ وارانہ تربیت دی جاکر کورسز کروائے جائے اور بعد ازاں طالب العلم کے تعلیمی ضروریات کیمطابق جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے مدد سے اسے یاد کروائے جائے۔

4۔ پرائمری سے لے کر ہائر ایجوکیشن تک کئیریر کونسلنگ کا ادارہ عمل میں لایا جاکر بچوں کی مختلف النوع دلچسپیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے متعلقہ شعبہ ہائے میں داخلے دیے جائیں۔

5۔ یکساں نظام تعلیم کے لئے سکولوں اور یونیورسٹیز کی سطح پرسیمینار، کنونشن ورکشاپ کے اجلاس منعقد کیے جاکر طالب علموں کے تعلیمی ضروریات کیمطابق عملی جامہ پہنایا جائے۔

6۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ دوسری زبانوں کے ترجمعے کے لئے ایسے ادارے بنائے جہاں کہی بھی ممکن ہو دنیا میں سائنسی اور ٹیکنالوجی کی تحقیقات وتجربات کی کتابوں کا کم از کم اردو زبان میں اسان ترجمعے شائع کر دیے جائیں۔

7۔ صوبائی حکومت ابتدائی تعلیم میں لازمی مضمونوں کے علاوہ تمام مضامین کی تشکیل مادری زبا نوں میں کرتے ہوئے اسان فہم انداز میں اس کی ترتیب کریں۔

8۔ پرائیویٹ سکولوں کونیم حکومتی ( سیمی گورنمنٹ) کا درجہ دینے، جس طرح بھی قانون اس کی اجازت دیں حکومتی نظام تعلیم کو رائج کیا جائیں۔

8۔ اساتذہ کی صحیح تربیت کا نظام بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے ریگولر ٹریننگ سینٹر قائم کیے جائیں نیز پرائمری سکولز و کالجزکے لئے یونیورسٹی لیول کے اساتذہ کی بھرتی اور اس کے لئے ٹریننگ ورکشاپ کا انتظام کیا جائیں۔

9۔ بچوں پر کتابوں اور کاپیوں کا بوجھ کم کرکے معیاری فنی پریکٹکل تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کے مدد سے کیا جائے۔ کتابیں اور کاپیاں حکومتی سرپرستی میں فراہم کیے جائیں۔ اور فنی نظری، بصری مہارت کے کلاسیں تشکیل دیے جائیں تاکہ بچوں کو اعتماد حاصل ہو۔

10۔ قانون، صحت، زراعت کے تعلیم مادری زبان میں کمپیوٹر کے مدد سے یا جس طرح ممکن ہو دیے جائیں۔

11۔ روزانہ کی جسمانی ورزشیں، تقریری مقابلے، ڈرامے، قوالی، رقص، پیروڈی، تقریبات اور دیگر صحت افزا مقامات کے سیر ہائیکنگ، ٹریکنگ اور تقریب لازمی گردانے جائیں۔

12۔ ای ڈی اوز اور ڈی ڈی اوز کو روزانہ کی بنیاد پر سکولوں کا سروے کرنے کا پابند کیا جائے۔ اور سکول، کالج پرنسپلز سے روزانہ کی بنیاد پر پراگرس رپورٹ مانگا جائیں۔

13۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اخبارات سے لے کر چینلز پر تعلیم کے فروغ کے لئے اقدامات کیے جائیں۔

14۔ تہذیب ثقافت مذہب، تمدن اورکلچر کے متعلق اسباق تحریر کرکے پرائیمری سکولز سے کالجز و یونیورسٹیز کے حد پڑھائے جائیں۔

15۔ قران اور حدیث ترجمعے کے ساتھ اور ناظرہ کے کلاسز اور اسباق تیار کرکے بچوں کو پڑھائے جائیں۔

16۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے مضامین کو عالمی سطح کے مضامین کے ہم پلہ ترتیب دیے جائیں۔ اورہر قسم تعصبات سے پاک نظام تعلیم بنا یا جائے۔

17۔ انگلش اور عربی کو رابطہ مضامین کے طور پڑھایا جائے اور اس کے لئے سکول سلیبس سے ہٹ کر کلاسیں لئے جائیں۔

18۔ متوازن خوراک کے موضوعات کو تعلیمی نصاب میں شامل کر دیے جائیں۔ معاشرتی اخلاق کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے تاکہ بچوں کو شعوری اور اخلاقی تعلیم کا ادراک ہوسکیں۔

19۔ طالب علموں کو آنے والی نسلوں کے لیڈر بننے کے لئے تیار کیا جاکر اس کے لیے مختلف پروگرام و مقابلے کروائیں جائیں۔

20۔ نادار اور غریب بچوں کو الاونسز جاری کیے جائیں یا بصورت دیگر اس کے علاج معالجہ، خوراک، ہاسٹل اور دیگر مفت سہولتیں روپیوں کے شکل میں دیے جائیں۔

معزز قارئین کرام! میں کوئی ایجوکیشنسٹ نہیں ہو البتہ میری ناقص رائے کیمطابق مذکورہ نکات ایک بہتر معاشرے کے ترقی کے لئے از بس ضروری ہے۔ ایجوکیشن کے فیلڈ سے وابستہ افراد سے مفید آرا معلومات لئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کا آئین وقانو ن یہ کہتا ہے کہ پانچ سے سولہ سال کے عمر تک کے بچوں کی ”مفت اور لازمی“ قرار دی گئی ہے اس لیے اس کے لئے اقدامات اٹھائے جاکر تعلیمی بجٹ 15 سے 20 فیصد کیا جانا چاہیے۔ چونکہ پرائیویٹ سکولز جو کسی حد تک معیاری تعلیم دینے میں کامیاب ہیں اورحقیقت حال یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم اور سیکنڈری تعلیم بشمول ہائر ایجوکیشن او لیول اور اے لیول، پر صرف چند پرائیویٹ سکولوں و کالجز کا قبضہ ہو چکا ہے اس کو ریاستی تحویل میں لیا جاکر اسے نیم حکومتی ادارے گردانے جائیں اور تعلیم کے شعبے میں خاص کر کمرشلزم کی وباء کا قلع قمع کیا جائیں۔

کم از کم ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جائیں۔ اور آہستہ آہستہ دیگر علوم کو قومی زبان اردو میں پڑھائے جانے چاہئیں۔ تعلیم کا مقصد صرف فقط سندیں بانٹنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے معاشرے کے ترقی کے منازل طے کی جاتی ہیں اس لیے گھوسٹ سکولوں اور اساتذہ کو سسپنڈ کردیے جائیں۔ سرکاری بشمول پرائیویٹ سکولوں، کالجوں کے خستہ حالت کا جائز ہ لے کر از سر نو تعمیر کیے جائیں اور سکولوں میں لیٹرین، فرنشنگ، ڈسکس ٹیبل، پلے گراونڈ وغیرہ فراہم کیے جائیں اور اس طرح کھیلوں کو رواج دیا جائے۔

کمپوٹر کی تعلیم لازمی قرار دی جائیں اور اس سائنسی ترقی کے دور میں کمپوٹر کے ذریعے تعلیم دینے کا بندوبست کیا جائے اور اگر حکومتی بجٹ اجازت دے تو قابل طالب علموں کو بالخصوص اور دیگر طالب علموں کو با العموم کمپیوٹر دیے جائیں نیز ہر سکول اور کالج میں انٹر نیٹ کی سہولت بھی دی جائیں۔

دینی قرانی تعلیم گھر میں والدین کے ذمے قرار دیے جائیں اورگھر ٹیوشن کا رواج ختم کیا جائے۔ کیونکہ بچوں کا سارا ٹائم سکول کے کاموں گزر جاتا ہیں اور وہ اس کے کھیلنے کودنے جو کہ بھی صحت اور ذہنی صحت کے لئے ضروری ہیں کے لئے وقت نہیں ملتا اس لئے بعض اوقات بچوں کا ذہن تعلیم سے اکتا ہٹ محسوس کرنے لگتا ہیں اور اس طرح بچوں کے سکول کے سرگرمیوں وغیرہ میں دلچسپی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).