جسے لگتا ہے کہ وہ آزاد ہے اسے آزادی مبارک


” 12 بجتے ہی میں نے جشن آزادی مبارک کا اسٹیٹس اپلوڈ کر دیا۔

آزادی کے دن کے لیے نیا سفید سوٹ سلوایا، ویسکوٹ لی اور میرے بھائی نے تو نہ جانے کیا کیا خریداری بھی کی ہے۔ آج تو بہت ہی زیادہ مزہ آئے گا۔ ”انعم بڑی خوشی سے ردا کو ساری باتیں بتا رہی تھی۔

تمہیں پتا ہے میری پوسٹ پہ 100 لائکس آئے۔ سب اتنے خوش ہیں نا آزادی پہ۔ آج ہم ورنہ ہندوؤں کے غلام ہوتے۔ اتنے میں نوکرانی پانی کا گلاس لے کر آتی ہے اور انعم چلا چلا کر پورا گھر سرپر اٹھا لیتی ہے۔ امی کہاں ہیں؟ امی کو بلاؤ۔ امی بھاگتے بھاگتے آئیں تو اانعم کچھ یوں بولی: ”امی آپ کو کتنی دفعہ کہا ہے کہ اس سے میرے کام نہ کرایا کریں۔ کوئی اور کام والی رکھیں یا اس کو کہیں میرے سامان سے دور رہا کرے۔ مجھے نہیں پسند ان کافروں کے ہاتھوں کھانا یا پانی لینا“

رکو ذرا تمہیں ایک ویڈیو دکھاتی ہوں۔ انکل بتا رہے تھے ہم نے اتنی جنگیں لڑیں اور نہ جانے کتنے لوگ آزادی کی جد وجہد میں شہید ہوئے۔ ان کا لہو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتی اسی لیے تو مجھے آرمی ڈاکٹر بننا ہے۔ تاکہ اپنے ملک کی خدمت کر سکوں۔

پر انعم خدمت تو تم کچھ اور بن کر بھی کر سکتی ہو۔

آرمی ڈاکٹر ہی کیوں؟ ردا نے اس کی بات کاٹی۔

یار دیکھو، ملک کی حفاظت تو صرف بندوق کی نوک پہ ہی بہتر کی جا سکتی ہے۔ آخر آزادی میں بھی تو اتنی جانیں گئیں۔

”لیکن انعم تب جو جانیں گئیں وہ تو علم کا پرچم اٹھانے پہ گئی تھیں۔ سرسید، علامہ اقبال۔ ان سب سے انگریز اور ہندو اس لیے تو نفرت کرتے تھے کیونکہ یہ علم پہ مبنی بات کرتے تھے۔ آخر میں قائد اعظم نے بھی تو اپنی دلیلوں سے ہی انگریزوں کو قائل کیا۔ آج بھی پاکستان میں ہمیں ہتھیاروں سے زیادہ علمی تبصروں اور بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔ “ انعم بولی

یار ردا اچھا چھوڑو نہ ان فضول باتوں کو۔ دیکھو میرا سوٹ کتنا پیارا ہے نا۔ آج تم بھی چلنا ہمارے ساتھ شام میں۔ ہم مل کر پارک جائیں گے اور خوب مزے کریں گے۔

ردا: ”ارے نہیں یار۔ مجھے نہیں پسند یہ سب“

مرضی ہے تمہاری۔ اپنی وہ بور سی کتابیں ہی پڑھتی رہا کرو تم بس سارا دن۔

۔ ۔

شام میں انعم اور انعم کے چھوٹے دو بھائی آزادی کا جشن منانے پارک کا رخ کرتے ہیں۔ آزادی کی تقریب میں ملی نغمے سنتے ہی ان میں وطن کی محبت جاگ اٹھتی ہے اور وہ سب عہد کرتے ہیں کہ ملک کا خیال رکھیں گے۔ اسود کھانے کے لیے لیز اور بوتلیں لاتا ہے۔ وہ سب گھاس پہ بیٹھے باتیں کرتے بڑے مزے سے لیز کھاتے ہیں اور کاغذ اور خالی بوتلیں وہیں پھینک کر واپس گھر کو چل دیتے ہیں۔

اگلے روز ٹی وی پر خبر آتی ہے کہ شہر میں گندگی کے ڈھیر میں ہزاروں جراثیم جنم پاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

انعم غصے میں بڑبڑاتی ہے ”بڑا لیکچر دے رہی تھی کل ردا مجھے کہ آرمی ڈاکٹر ہی کیوں۔ یہ کرتے ہیں سیاسی لوگ؟ ایک شہر تو ان سے صاف نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں تو یورپ کے نقش قدم پہ چل رہی ہیں، عورتوں کی تنظیمیں ہیں تو بے حیائی کو فروغ دے رہی ہیں۔ پروفیسرز بس کتابوں کے رٹے لگاکر نہ جانے کیا بک بک کرتے رہتے ہیں۔ توبہ توبہ ان یہودیوں نے تو سازشیں کر کر کے پاکستان کو کھا جانا تھا۔ اور صرف ایک میرے جیسے لوگ ہی تو ہیں جنہیں احساس ہے اس ملک کا۔ ارے ارے۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ تو اپلوڈ کیا ہی نہیں۔ “

کتنا عجیب ردعمل تھا عمل کے بعد
کہ احساس کمتری کے لیے برتری بھی کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).