معصوم تبدیلی کا خط تھانیدار کے نام!


محترم تھانیدار صاحب! میرا نام تبدیلی ہے۔ کچھ لوگ مجھے ”تب (then/when) ، دی (gave) ، لی (took) “ بھی کہتے ہیں۔  لیکن میں ”تب، دی، لی“ والی تبدیلی نہیں ہوں بلکہ تبدیلی والی تبدیلی ہی ہوں اورآپ کی ”بارگاہ جرم پناہ“ میں ایک ایف آئی آر درج کرانا چاہتی ہوں۔ آپ مقدمہ درج کریں۔ ارے! آپ پریشان نہ ہوں کہ میں تبدیلی ہوں اور تھوڑی دیر بعد کہیں خوداپنی درخواست ہی تبدیل نہ کرلوں۔ ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ یوٹرن لینا اگرچہ بڑے لوگوں کی نشانی ہوتی ہے لیکن ہم چھوٹے لوگ ہیں اس لیے کوئی یوٹرن نہیں لیں گے۔ آپ بالکل بے فکر رہیں تبدیلی کی یہ درخواست ہرگزتبدیل نہیں ہوگی۔

جناب عالی! میں ان دنوں بڑی پریشان ہوں۔ ہر کوئی میرا نام لے لے کر مجھے بدنام کررہا ہے۔ کوئی مجھے ”روکنا“ چاہتا ہے اور کوئی مجھے ”لانا“ چاہتا ہے۔ اس صورتحال سے میں بہت فکرمند ہوں بلکہ میرا کردار، میری ساکھ، میرا ماضی بلکہ میرا سب کچھ ”داؤ“ پر لگا ہے۔ اب آپ سے ہی درخواست ہے کہ اپنا کوئی ”داؤ“ آزمائیں تا کہ مجھے اس ”داؤ“ سے نجات ملے۔

تھانیدار صاحب! میری الجھن کا اندازہ اسی بات سے لگالیں کہ پچھلے دنوں ساری فیملی اکٹھی تھی۔ ابو بھی کام سے جلدی واپس آگئے۔ کھاناکھانے کے بعد سارا خاندان ٹی وی دیکھنے لگا۔ ”پاکستانی ڈراموں“ سے بیزار ابوجی نے چینل بدلا تو وہاں کوئی جلسہ ہورہا تھا۔ کوئی صاحب ہاتھ لہرا لہرا کر تقریر کر رہے تھے۔ میوزک کا شور تھما تو انہوں نے کہا ”تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔“ ابو نے یہ سن کر اچانک ٹی وی سے نظریں ہٹاکر غیر محسوس انداز میں کمرے کا جائزہ لیا۔

جیسے دیکھنا چاہتے ہوں کہ واقعی یہیں ہوں۔ میں شرمندہ توہوئی لیکن کیا کرسکتی تھی؟ پس اپنا سر جھکایا اورناخن کترنے لگی۔ ایک اور دن کا واقعہ بھی آپ کو سناتی ہوں۔ یہ عید سے تین دن پہلے کی بات ہے۔ ہر کسی کے سر پر شاپنگ کا بھوت سوار تھا۔ میں نے بھی ابو کے ساتھ بازار جاکرجوتے خریدنے کا پروگرام بنایا۔ ہم جونہی گھر سے نکل کر بڑی گلی میں داخل ہوئے تو ایک من چلے نے آوازلگائی ”تبدیلی آرہی ہے۔“ میں شرم سے پانی پانی ہو گئی۔

ابونے غصے سے اس کو من چلے کو دیکھا اور پھر مجھے کچھ اس طرح گھوراجیسے میں ان کے واقعی بوجھ بن گئی ہوں۔ ناچار مجھے راستے سے ہی واپس گھر آنا پڑا۔ ابّوجان شاپنگ کر کے واپس آئے تو مجھے بلایا تا کہ میں جوتے چیک کرلوں کہ پورے آتے ہیں یا نہیں؟ جوتے تنگ دیکھ کر امّی نے ابو کو دیکھا اور کہنے لگیں ”دیکھا؟ میں نے کہا تھاناں کہ“ تبدیلی ”کو ساتھ لے جانا۔ ارے! اب آپ کی“ تبدیلی ”بڑی ہوگئی ہے اوراس کے قد کاٹھ میں بھی تبدیلی آگئی ہے۔ آپ وہی ایک سال پہلے کا ناپ اٹھا کر لے آئے۔“ یہ سن کر ابو کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ انہوں نے پہلی بار مجھے ناقدانہ نظروں سے دیکھا اور پھرخودہی شرمندہ ہو کرماتھے سے پسینہ صاف کرنے لگے۔

تھانیدار صاحب! میرا نام ایک گالی بن کر رہ گیا۔ میں تو سمجھی تھی کہ ایک محلے کی بات ہے لیکن پچھلے ہفتے ذرا جم کر ”بے خبرنامہ“ سنا تو انداز ہوا کہ بات محلے سے نکل کر پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ ہر بندے کی زبان پر میرا ہی نام ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے ”ہم تبدیلی لا کر رہیں گے“کوئی چیخ رہا ہے ”تبدیلی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا“ حالانکہ ابھی کل ہی بات ہے ایک لوفر سے بابے نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔

کل ایک صاحب سگارکا دھواں اڑاتے ہوئے بولے ”تبدیلی تو آکر ہی رہے گی۔“ اب انہیں کوئی کیسے بتائے کہ میں تو کب کی آچکی ہوں۔ مجھے آئے ہوئے پچیس سال ہوگئے ہیں اوراب تو رشتے والی آنٹی نے بھی ہمارے گھر کے چکرلگاناشروع کر دیے ہیں۔ تھانیدار جی! نہ ہی مجھے کہیں جانا اور نہ ہی کہیں آنا ہے۔ بس مجھے اس بدنامی سے جان چھڑاناہے۔ ایک گروہ مجھے ”لانا“ چاہتا ہے تو دوسرا گروہ مجھے ”روکنا“ چاہتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک صاحب نے اپنے ”علاقے“ میں کھڑے ہو کر کہا ”کسی نے تبدیلی دیکھنی ہے تو یہاں آئے اور دیکھے۔“ کچھ دن بعد ان کے مخاطب وہاں پہنچے اور کہنے لگے ”کہاں ہے تبدیلی؟ کیا اسے کہتے ہیں تبدیلی؟ ارے! تبدیلی ایسے نہیں آتی۔ کسی نے حقیقی تبدیلی دیکھنی ہے تومیرے علاقے میں آئے۔“

تھانیدار جی! میں ایک مذاق بن کر رہ گئی ہوں۔ سیاست سے ہٹ کر میں معاشرے میں بھی نفرت کا نشانہ بن رہی ہوں۔ بیٹا کہتا ہے کہ باپ میں ”تبدیلی“ آگئی ہے۔ بیٹے کی شادی ہو جائے تو ماں شکوہ کرتی ہے کہ دلہن نے بیٹے میں ”تبدیلی“ پیداکر ڈالی ہے۔ چند دن گزریں تو بہوکہنے لگتی ہے کہ اب تو ساس کے رویے میں ”تبدیلی“ آگئی ہے۔ استاد شاکی ہیں کہ شاگرد ”تبدیلی“ کا شکار ہو گئے ہیں اور شاگرد ماتم کناں ہیں کہ استاذ ”تبدیلی“ لانا ہی نہیں چاہتے۔

کل ہوٹل میں کھاناکھاتے ہوئے ایک محبوب اپنی محبوبہ سے کہہ رہا تھا ”جان! اب تم میں“ تبدیلی ”آگئی ہے“۔ ایک فیکٹری میں باس اپنے ملازم کو ڈانٹ رہاتھا ”شیدے! تمہاری عادتیں اب“ تبدیل ”ہو رہی ہیں۔ میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں۔ خود ٹھیک ہو جاؤ تو بہتر ہے ورنہ میرے پاس“ تبدیلی ”نکالنے کا ایک سو ایک طریقہ ہے“۔ آج کل تو ایک عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ اب تو مجھے کسی ملک کے وزیراعظم کے ساتھ جوڑا جارہا ہے کہ وہ ”تبدیلی“ نہیں لا سکے۔

میرے لیے یہ بڑی فکرمندی کی بات ہے کیونکہ عورتوں کے معاملے میں ان کا ریکارڈ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ میرا تعلق ان سے نہ ہی جوڑا جائے تو بہتر ہے کیونکہ میں کسی کی تبدیلی نہیں بلکہ اپنے ماں باپ کی تبدیلی ہوں۔ ہر جگہ ایک ہی بحث ہے اور لوگ ایک ہی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پورے سسٹم میں ”تبدیلی“ کی ضرورت ہے۔ اب میں انہیں کیسے بتاؤں کی سسٹم تو بہت دورکی بات ہے، میری ”ضرورت“ تو اب گھر میں بھی نہیں ہے۔ ابھی کل ہی بات پکی ہوئی اور دس دن بعد رخصتی بھی طے ہے۔

تھانیدار صاحب! اب آپ کے علاوہ میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ آپ توقانون کی ”رکھوالی“ کرتے ہیں۔ مجھے اس عذاب سے نجات دلایئے۔ ہر کسی کی زبان پر میرا نام ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو میرا ہونے والا ”شوہر“ بھی مجھ سے بدظن ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہر کوئی مجھ پر انگلیاں اٹھائے گا۔ میں ایک گالی بن کر رہ گئی ہوں۔ اب نام بھی تبدیل نہیں کرا سکتی کیونکہ شناختی کارڈ اور ”کچی“ جماعت سے کر ”سولہویں“ تک کی ہر سند پر میرا یہی نام لکھاہے۔ اگر نام تبدیل کرنے نکل پڑی تو بات اخبار کے اشتہار سے ہوتی ہوئی سندوں تک جائے گی اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں سندوں والا ”کٹّا“ ہی نہ کھل جائے۔ اے قانون کے رکھوالے! تبدیلی کی رکھوالی اب آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔ فقط ؛آپ کی اپنی ”تبدیلی“!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).