آؤ نہ مارے دیس تھر


آنکھوں نے انگڑائی لے کر، کانوں پر گرجتی ”َٹپ ٹپِ“ کی آواز کا سہارا لے کے من کے بھیتر برسوں سے ساون کی آمد کے لئے بے چین مسافر کو تھپکی دی۔ بادل ٹوٹ کے برسے ہیں، ریت کے ٹیلے شرارتی بچوں کی طرح چہل مچل کر رہے ہیں۔ موسم تو بس محبوب کی نظر بن گیا ہے، نظر جو اٹھے تو ادا ہے، جھکے تو حیا ہے۔ دیکھے تو بلا ہے، چلے تو صبا ہے اور ملے تو بس جیسے خدا ہے۔

بال ہاتھوں سے سنوارتے کھڑکی سے جھانکا، ”کتنا سندر ہے میرا تھر“ جل تھل، سندرتا میراں کے گھنگھرو باندھ کر رقص کر رہی ہے۔ ہلکے، مدھر، پرسوز، اور جوانی سے بھرپور کئی آواز جیسے فضاؤں میں سرگوشیاں لے رہے تھے اور کل کائنات کی حسیں وادیوں میں بسنے والی اہنی اپنی اپسراؤں کو بلا رہے تھے، اب آؤ نہ مارے دیس۔

آئینے سے خود کو جوڑا، آنکھیں مسکرانے لگیں، تم سے لے کر تم تک کئی حجابی والے باب حجاب توڑ بیٹھے تھے۔ ایسے موسم سے میرے اندر کا گہرا تعلق تم سے ملاقات کے بعد ہی بنا تھا، پہلی مرتبہ خود کو بولتے ہوئے سنا اور گاتے ہوئے دیکھا۔ محبت خود کے وجود کے احساس کی اہمیت کو سمجھنے کا نام ہے، یے ہمیں تم نے سمجھایا اور ہم تمام عمر تیرے قرض دار بن گئے۔

آخری ہچکی تیرے شانوں پر آئے
موت بھی شاعرانہ چاھتا ہوں

من کا رمتا جوگی حسین لمحوں میں اتنا مگن ہوگیا کہ گھر کے باہر کے دروازے کو اندر سے دستک دی اور گاٰؤں کے لئے نکل پڑا۔ درختوں نے اتنی مئے آب نوش کی کہ دیوداس بن گئے اور دم بہ دم جھوم رہے تھے۔ ہوائیں تنبورے کی دھارائیں بن گئی اور سر سارنگ چھیڑ بیٹھیں۔ یوں تو ٹیکنالوجی کے سہارے، خوبصورت منظروں کو قید کیا پر باربار احساس ہوتا رہا کہ ٹیکنالوجی نے خوبصورتی کو کتنا بدصورت کیا ہے۔ خوبصورتی احساس کا نام ہے جو مشینوں کے بس کی بات نہیں۔

تھرپارکر کے دلکش پرندے موروں نے بادلوں کے ساتھ رقص پہ تھاپ دی۔ موروں نے اپنے ٹہوکوں سے ہر کسی کو آمد کیا۔ موروں کی آواز میں کئی گہرے درد تھے، میں نے ان کے کلام سے ہم کلام ہوکے درد کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آنکھیں ایک دوسرے سے روٹھ کر بہنے لگیں۔ موروں کی صدائیں گونج رہی تھی:

”تم لوگ بھی موقع پرست بن گئے ہو، شہروں میں گھر بسا لئے، بادلوں کے ساتھ ساون کے سہانے موسم میں مہمان بن کر آتے ہو، اپنا پن جتاتے ہو اور کچھ نہیں بس درد بڑھاتے ہو۔ دکھ، درد اور اذیت میں کبھی ہمیں نہیں پوچھتے۔ اب تھر کے گاؤں کی تو ہم پرندے، پنچھی اور جانور ہی حفاظت کرتے ہیں، ہمارا تھر سے تعلق ہنس اور تالاب والا ہے۔“

تال سوک کے بھیو، ہنس کہیں نہ جائے
پچھلی پریت کہ کارنے، پتھر چن چن کھائے

لفظوں کی تسلی کا پرساد بھی میرے اندر کے جنگل میں بسنے والے پجاری کے پاس نہیں تھا۔ فطرت بے زبان ہے اور بے زبان ہی فطرت کو پیار کر سکتے ہیں۔ کڑوا سچ تو یے ہے بے زباں لوگوں نے دن رات محنت کر کے تھر کو خوبصورت بنایا ہے اور زباں والے ان کی محنت کو رائیگاں کر رہے ہیں۔

بچے ریت کے گھروندے بنا رہے تھے۔ خلیل جبران نے صحیح کہا تھا، ”حسین دنیا کا وجود بچوں کی حاکمیت سے ہی ممکن ہے۔ “
کئی شہزادے اپنے اپنے محل بنا رہے تھے۔ کچھ پھول تو اوروں کے ریگستان کو گلستان کر رہے تھے۔ بچوں کے درمیان نہ کوئی تار تھی نہ دھار تھی۔ اپنی دنیا میں مست، اتنی محنت، لگن اور جستجو، آرٹ، ڈیزائین، آرکیالوجی، تہذیب و تمدن، فن، ہنر اور سب سے بڑھ کر قہقہوں سے بھری حسین زندگی، ہر دوسرے ساتھی کی رائے کا احترام، اقرار تو ویسی ہی عقیدت سے، گر انکار بھی تھا تو بھی محبت سے۔

احساسوں کی مٹی، امیدوں کے ڈیزائین، آرزوؤں کی دیواروں سے بنے دل کو چھونے والے بہت ہی خوبصورت محل، جیسے روی کی ستار۔ سب کچھ بنا کے، صدیوں کے سپنوں کو، ہنستے، کھیلتے، گاتے، بجاتے چند ہی گھڑیوں میں مٹا دیا۔ زندگی کے معنی تو بچوں نے ہی سمجھے، ہم ابھی تک جان نہ پائے، تعلیم کیا ہے؟ جو سب کچھ سمجھ کے بیٹھے ہیں انہیں ناسمجھ کرنا ہے۔

مست رہ کر گزارو تو گزر جائے گی
زندگی ہوش میں آنے کی سزا چاہتی ہے

سامنے دیکھا، تالاب پر ( گاؤں کی وہ جگہ جہاں پانی اکٹھا ہوتا ہے، گاؤں والے نہاتے ہیں، پانی بھر کے بھی جاتے ہیں، مال مویشی بھی پانی وہاں پر پیتے ہیں ) کئی بچے، جوان اور بوڑھے پہنچ گئے تھے۔ بارش نے جیسے صدیوں کے درد کو لمحوں میں چاک کردیا۔ ڈبکی لگانا، تیرنا، کھیلنا۔ پانی اور تھر کے باشندوں کا تعلق، گونگے کا دیکھا ہوا کوئی حسین خواب ہے، جو سمجھنے، سمجھانے سے قاصر ہے بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی ریگستان اور ساون کے سنگم نے کئی ریتوں اور رسموں کو جنم دیا ہے۔

بارشوں کے بعد، اب کھیت اور محنت کش لوگ، دھرتی ہری چادر پہنے گی۔ ہر طرف ہرا بھرا منظر ہوگا۔ کھیتوں میں فصل جب پکے گی پھر دور سے ایسے لہرائیں گے جیسے لوک گیت۔ کچھ ہی دنوں میں ہونے والے منظروں کا تصور لئے نگرپارکر کے لئے کوچ کیا۔ بادل پورے سفر میں رواں دواں رہے اور کھل کے برستے رہے۔ واہ خوبصورتی کو بھی آج رشک ہوگا پارکر کو دیکھ کر، ندیوں سے بہتا ہوا پانی، جیسے سروں کی روانی، بادلوں نے پہاڑوں کو اپنی گود میں جیسے لیا ہو۔

تھر کے بہت ہی دلکش حصے پارکر کے پہاڑوں کی تو بادل سارا دن ایسے چھان بین کر رہے تھے جیسے کارونجھر کے پہاڑوں میں صدیوں سے بسی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ بارش رکی تو پہاڑ ایسے لگ رہے تھے جیسے تراشی ہوئی مورتیاں۔ تروٹ کے تھلے پر بیٹھ کر فضاؤں سے پارکر کے یادگار کردار روپلے کولہی کی بہادری، ہمت، وطن دوستی کی باتیں سنیں۔ تھرپاکر کے خوبصورت شاعر خلیل کمہار کا شعر پارکر کے ہر پہاڑ پہ بارش کی بوندیں ٹپکا ٹپکا کے لکھ رہی تھیں۔

تھرپارکر میں بارشیں ہوں گر
میں جنت سے بھی واپس آؤں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments