میں نے جنرل فیض کی بات کی، آئی ایس آئی کی نہیں: حاصل بزنجو


میر حاصل بزنجو
آئی ایس آئی کے سربراہ پر الزام کے حوالے سے سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا: ’میں نے جو بات کی اس کا جواب عدالت کو دوں گا‘

پاکستان کے ایوانِ بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی پر متحدہ اپوزیشن کے امیدوار میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کو قرار دیا تھا، ادارے کو نہیں۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے رہنما اور پاکستان کے ایوان بالا میں چیئرمین کے لیے متحدہ اپوزیشن کے امیدوار میر حاصل بزنجو نے بی بی سی اردو کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں بتایا کہ وہ ماضی کے ٹریک ریکارڈ کی بات کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد) دیکھی، آپ نے جنرل حمید گل کو دیکھا، آپ نے اسد درانی کو دیکھا۔ اصغر خان کیس سب کے سامنے ہے۔ فیض آباد دھرنے کے جو ویڈیو کلپ سامنے آئے وہ بھی لوگوں نے دیکھے۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی کو جس طرح نکالا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جن کمنٹس پر ٹرائل ہو رہا ہے، ان تمام کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے۔‘

’میں نے جو بات کی ہے اس کا جواب عدالت کو دوں گا اور مجھے تین عدالتوں میں بلایا گیا ہے۔ میں نے ادارے کی بات نہیں کی، سربراہ کی بات کی ہے۔ میں نے جنرل فیض کی بات کی تھی۔’

واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج میں ناکامی کے بعد مشترکہ اپوزیشن کے امیدوار حاصل بزنجو نے اپنی شکست پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے مرکزی انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مبینہ عمل دخل کے حوالے سے الزام عائد کیا تھا۔

’مجھے مرنے کا کوئی شوق نہیں‘

انھوں نے کہا کہ بگٹی ان کے لیے محترم ہیں۔ ’اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بگٹی نے اپنی قوم کے ساتھ فراڈ کیا ہے تو یہ اس کی رائے ہو سکتی ہے۔‘  میر حاصل نے مسکراتے ہوئے کہا: ’میرا ایسا کوئی خیال نہیں ہے، نا میں بگٹی بننا چاہتا ہوں اور نا غیر بگٹی۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔‘

میر حاصل بزنجو کا سینیٹ انتخابات میں ناکامی پر کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے جن منحرف سینیٹروں نے ان کے خلاف ووٹ دیا، انھوں نے ‘ضمیر فروشی کی’ اور ‘ایسا لالچ اور دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا۔’ انھوں نے بتایا کہ انتخابات سے قبل حزب اختلاف کے پاس اس قسم کی اطلاعات تھیں کہ اتحاد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ مگر چھ سے آٹھ اراکین پر ان کو شبہ تھا جنھیں وہ جانتے بھی تھے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ 14 سینیٹر ان کے خلاف ہو جائیں گے۔ حاصل بزنجو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا وفاداری بدلنا ‘بہت بڑے دباؤ اور بہت بڑے لالچ کے بغیر ممکن نہیں۔’

حاصل بزنجو
حاصل بزنجو نے بتایا کہ ان کی جماعت کی کوشش ہے کہ وہ دیگر بائیں بازو کی تمام جماعتوں کو اکھٹا کر لیں

‘میں سمجھتا ہوں کہ جب کوئی اپنی پارٹی کو چھوڑتا ہے تو بنیادی طور پر وہ بے ضمیری اور ضمیر فروشی کا مظاہرہ کرتا ہے۔‘ یاد رہے کہ پاکستان کے ایوانِ بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریکِ عدم اعتماد تین ووٹوں سے ناکام ہو گئی تھی۔

حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد کے مستقبل سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ان قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ چیئرمین سینٹ کے انتخابات کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے کوئی ’ڈیل‘ کی ہے۔ بقول ان کے، پہلے دن سے مخالفین اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں اپوزیشن متحد نہ ہو جائے۔ ‘کیونکہ اُس وقت ہم ابتدائی سطح پر ہیں یعنی اے پی سی کی سٹیج پر، انھیں (حکومت) خطرہ پڑ گیا کہ آگے جا کر کہیں یہ ایم آر ڈی یا اے آر ڈی جیسی تحریک کی شکل اختیار نہ کر لے۔’

‘انھوں نے یہ غلط فہمی پیدا کی، ایک پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے تاکہ جو ایک بنتا ہوا اتحاد ہے وہ ٹوٹ جائے۔ میری آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان سے اس بارے میں بات ہوئی ہے ایسا کچھ نہیں ہے۔’

ن لیگ کے ساتھ اتحاد ’محض اتفاق ہے‘

میر حاصل بزنجو 1990 کی دہائی سے مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کے اتحادی ہیں، جبکہ نظریاتی طور پر وہ ترقی پسند سیاست کے وارث ہیں۔ میر حاصل بزنجو کا اس سیاسی اتحاد پر کہنا تھا کہ ’یہ محض اتفاق ہے۔‘

‘جب ہم جیتے تو نواز شریف بھی جیتے، جب وہ ہارے تو ہم بھی ہارے۔ اس لیے اپوزیشن میں بھی ان کے ساتھ رہے اور حکومت میں بھی ساتھ رہے۔ لیکن موجودہ وقت میں نواز شریف کی مسلم لیگ کافی اینٹی اسٹیبشلمنٹ موقف اختیار کرچکی ہے۔ یقیناً اس کو لبرل یا پروگریسو جماعت نہیں کہہ سکتے۔ لیکن اسے کسی لبرل خانے میں داخل کرنا ہوگا۔’

میر حاصل بزنجو کے والد میر غوث بخش بزنجو تحریک بحالی جمہوریت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔ انھوں نے لیاری سے گرفتاری بھی پیش کی تھی لیکن بعد میں دونوں جماعتوں میں فاصلہ پیدا ہو گیا۔

پیپلز پارٹی ’سینٹر ٹو لیفٹ‘ جماعت ہے

پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی روابط اور نظریے پر میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کو ان کے آخری ایام میں کہا تھا کہ پیپلز پارٹی ’سینٹر ٹو لیفٹ‘ (بائیں بازو کی) جماعت ہے اور وہ اسے ترقی پسند اور لبرل جمہوریت پسند جماعتوں میں شمار کرتے ہیں۔

میر حاصل بزنجو نے بتایا کہ انھوں نے بے نظیر بھٹو سے اس وقت کہا کہ ‘پیپلز پارٹی نے اس پورے عرصے کے دوران کسی دوسری ترقی پسند سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد نہیں کیا چاہے وہ معراج محمد خان کی صورت میں ہو، پاکستان نیشنل پارٹی یا دیگر ترقی پسند جماعتوں کی شکل میں۔‘

بقول حاصل بزنجو بے نظیر بھٹو نے اسی وقت کہا کہ ‘مجھے اختر مینگل کا نمبر دو، معراج محمد خان، محمود خان کا نمبر دو میں سب کو اکٹھا کروں گی اور سب سے بات کروں گی۔‘

لیکن بےنظیر کو وقت اور حالات نے یہ موقع نہیں دیا اور اب جب گذشتہ دنوں بلاول بھٹو ان کی عیادت کے لیے آئے تو انھوں نے یہ شکوہ ان سے بھی کیا تھا۔‘

‘ہماری کوشش ہے کہ بائیں بازو کی تمام جماعتوں کو اکھٹا کیا جائے، اس وقت بھی ہم ترقی پسند جماعتوں، عوامی ورکرز پارٹی اور دوسرے گروپس سے بات کر رہے ہیں کہ مشترکہ پلیٹ فارم بنائیں اور جدوجہد کریں تا کہ بائیں بازو کے لوگ نظر تو آئیں۔‘

‘پاکستان میں چھوٹے صوبوں کی قوم پرست جماعتیں پنجاب پر بالادستی اور وسائل پر قبضے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔‘

میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس ملک میں استحصال پنجابی نے کیا ہے۔ ’اگر کوئی اس بنیاد پر کہتا ہے کہ فوج کی اکثریت پنجابی ہے، بیورو کریسی میں ان کی اکثریت ہے تو غربت میں بھی ان کی ہی اکثریت ہے۔‘

‘جو ریاستی قوتیں ہیں، جو ایلیٹ فورسز ہیں ان کا اپنا ایک کلب ہے۔ وہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بھی موجود ہے اسی طرح فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ میں بھی موجود ہے اور ان کا اپنا ایک اتحاد ہے۔’

پاکستان کا پارلیمان
حاصل بزنجو کے مطابق اپوزیشن اتحاد کے جن منحرف سینیٹروں نے ان کے خلاف ووٹ دیا، انھوں نے ‘ضمیر فروشی کی’

پاکستان نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر میر حاصل بزنجو کی تجویز ہے کہ پاکستان میں سول، ملٹری مذاکرات ہونے چاہئیں۔

ان کے خیال میں پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کبھی ایک پیج پر نہیں رہے۔ اس کا تعین ہو جانا چاہیے کہ کونسی ذمہ داریاں کس کی ہیں دونوں کے درمیان بہت ساری غلطی فہمیاں اب بھی موجود ہیں۔ ان کے خاتمے کے لیے سنحیدہ قسم کے سول ملٹری مذاکرات کی ضرورت ہے۔

2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان میں ڈھائی سال نیشنل پارٹی کی حکومت رہی۔ میر حاصل بزنجو اس کو کامیاب حکومت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے نواز شریف کے سامنے تین مطالبے رکھے تھے۔

ان میں ایک متوازی فورسز کا خاتمہ، دوسرا مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات کی روک تھام اور تیسرا جبری گمشدگیوں کی روک تھام تھا۔ پہلے دو مطالبات میں تو انھیں کامیابی ملی لیکن مسنگ پرسنز پر ان کی بات نہیں مانی گئی۔

ان کے بقول یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں کی گمشدگیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ان کے دورِ حکومت میں بھی دس بارہ افراد کو رہا کر دیتے تھے، اب بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔

حاصل بزنجو کون ہیں؟

میر حاصل خان بزنجو کا تعلق پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ہے۔ وہ سنہ 1991 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بطور آزاد امیدوار شامل ہوئے۔ سنہ 1997 میں باقاعدہ طور پر بلوچستان نیشنل پارٹی کی نشست پر منتخب ہوئے۔ سنہ 1998 میں انھوں نے بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کی جو بلوچستان نیشنل پارٹی سے ہی نکلی ہوئی ایک جماعت تھی۔ تاہم 2003 میں نیشنل پارٹی بنی جس میں حاصل بزنجو نے بھی شمولیت اختیار کی۔

حاصل خان بزنجو نے ایوان میں کئی بار بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘ریاست نے وہاں کئی ناانصافیاں کی ہیں جس کے نتیجے میں وہاں پیدا ہونے والی شورش میں کمی نہیں آرہی ہے۔’

جمہوریت کے لیے اکثر آواز اٹھانے والے حاصل بزنجو نے 2008 کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن 2009 میں سینیٹ کے انتخاب میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔

حاصل بزنجو وفاق میں مسلم لیگ نواز کے حامی اور مضبوط اتحادی رہے ہیں۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں ان کی جماعت نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کیا۔ جبکہ 2014 میں نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہونے کے بعد حاصل بزنجو کو 2015 میں بندرگاہ اور شپنگ کی وزارت ملی تھی۔

جب صادق سنجرانی کو بطور چیئرمین منتخب کیا گیا تھا تب حاصل بزنجو نے اسمبلی کے فلور پر اس فیصلے کی بھرپور مذمت کی تھی، اور کہا تھا کہ ‘ایوان سے بھی بڑی کسی طاقت نے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب کیا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp