پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ


جب پیپلز پارٹی 1971 کو اقتدار میں آئی تو الفتح نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ناقد کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ محمود شام نے لکھا کہ حکومت اور پارٹی کے عہدے علیحدہ علیحدہ ہونے چاہئیں، اس پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ناقدین نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ اس آرٹیکل کا مطلب پیپلز پارٹی میں بائیں بازو کے رہنما معراج محمد خان کو پارٹی کا چئیرمین بنوانا ہے۔ جون 1972 میں کراچی سائٹ کے مزدوروں نے تنخواہوں کی ادائیگی اور حالات کار کو بہتر بنانے کے لئے متحدہ مزدور فیڈریشن کے رہنماؤں عثمان بلوچ اور واحد بشیر کی قیادت میں تاریخی جدوجہد کی۔

الفتح نے اس تحریک کو مکمل کوریج دی جس پر پیپلز پارٹی کی حکومت ناراض ہو گئی۔ الفتح کا نیوز پرنٹ کا کوٹہ منسوخ کر دیا گیا اور اشتہارات پر پابندی لگا دی گئی۔ جب سندھ میں لسانی فسادات شروع ہوئے تو الفتح نے اس سارے تنازع میں سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دینے کے فیصلے کی بھرپور حمایت کی۔ الفتح نے اس دوران اپنے اداریوں میں سندھی زبان کے خلاف تحریک چلانے والے رہنماؤں کے خفیہ مفادات کو واضح کیا۔ الفتح کا موقف تھا کہ سندھی زبان ایک تاریخی زبان ہے، اس زبان کو اس کا حق ملنا چاہیے اور سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دینے سے اردو کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اردو کے رسالے کا سندھی زبان کی حمایت ایک تاریخی واقعہ تھا۔

الفتح نے پیپلز پارٹی کی بنیادی اصلاحات خاص طور پر تعلیمی اداروں، بنکوں، صنعتی اداروں کو قومیانے، جاگیرداری کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کی بھر پور حمایت کی۔ جب پنجاب میں پیپلز پارٹی کے بانی رکن حنیف رامے کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا اور پیپلز پارٹی کے ابتدائی مخالف صادق حسین قریشی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو الفتح نے اس تبدیلی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پیپلز پارٹی جاگیر داروں کو عہدے دے کر اپنی بنیادی پالیسی سے گریز کر رہی ہے جس کا مستقبل میں سخت نقصان ہو گا۔ الفتح کی یہ رپورٹ مستقبل میں درست ثابت ہوئی۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پیپلز پارٹی کے رہنما حیات محمد خان شیرپاؤ پشاور یونیورسٹی میں بم دھماکے میں جان بحق ہوئے۔ اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد ہوا۔ بھٹو حکومت نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کیا۔ نیپ کے رہنما گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو اور سرحد کے گورنر ارباب خلیل اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ حکومت نے نیپ کی قیادت کو گرفتار کر لیا۔

ادھر کراچی میں معراج محمد خان کو اساتذہ کے ایک مظاہرے میں شرکت اور حمایت پر پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما علی احمد تالپوراور دیگر کو نیپ کے رہنماؤں کے ساتھ سازش کیس میں ملوث کیا گیا۔ ان رہنماؤں کے خلاف حیدرآباد جیل میں خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ یہ مقدمہ حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ الفتح اس ملک کا واحد رسالہ تھا جس نے اس مقدمے کی دستاویزات کو شائع کیا اور اپنے اداریوں میں اس مقدمے میں ان سیاستدانوں کو ملوث کرنے کے مضمرات پر رپورٹیں شائع کیں۔

وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 1977 میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے امیدواروں کے چناؤ کا معاملہ بیوروکریسی اور ایجنسیوں کے سپرد کر دیا۔ الفتح نے اس صورتحال کو پیپلز پارٹی کے لئے خطرناک قرار دیا۔ الفتح کا تجزیہ تھا کہ پیپلز پارٹی اور چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو اور عوام میں فاصلے بڑھ رہے ہیں جس کا فائدہ رجعت پسندوں اور فوج کو ہو گا۔ مستقبل میں الفتح کا یہ تجزیہ بھی درست ثابت ہوا۔

5 جولائی 1977 سے بد ترین آمریت کا دور شروع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے 1978 میں ہفت روزہ الفتح کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا۔ ہفت روزہ پربھات نوابشاہ، پھر ہفت روزہ ذوالفقار گھوٹکی کے ذریعے الفتح کو جاری رکھنے کی کوشش کی گئی مگر حکومت نے ان کے ڈیکلریشن بھی منسوخ کر دیے۔ سندھ ہائی کورٹ نے 1980 میں الفتح پر عائد پابندی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ یوں الفتح پھر شائع ہونے لگا۔ یکم جنوری 1981 کو پولیس اور خفیہ عسکری ایجنسی کے اہل کاروں نے الفتح پر چھاپہ مارا اور ایڈیٹر، پبلشر اور دیگر عملے کو گرفتار کر لیا اور یوں مظلوم طبقات کی آواز اٹھانے والا الفتح ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔

٭ روز نامہ امن

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی 1970 کی ہڑتال کے نتیجے میں برطر ف ہونے والے صحافیوں میں جنگ کے افضل صدیقی اور اجمل دہلوی بھی شامل تھے۔ 1972 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اخباری مالکان کو برطرف صحافیوں کو واپس لینے پر مجبور کیا تو جنگ نے بھی اپنے صحافی واپس لئے مگر افضل صدیقی اور اجمل دہلوی نے واپس جانے کی بجائے اپنا اخبار نکالنے کا فیصلہ کیا۔ 19 مئی 1972 کو ایک چھوٹے سے دفتر سے امن کا اجرا اس سلوگن کے ساتھ ہوا ”جنگ سے نفرت۔ امن سے محبت“ ۔

اجمل دہلوی نے اپنا کالم ’جمعہ خان‘ کے نام سے شروع کیا۔ شروع میں افضل صدیقی اور دیگر صحافیوں نے بھی طبع آزمائی کی مگر پھر اجمل دہلوی نے ہی اس کالم کو لکھا۔ جب جنرل ضیا ء الحق نے اخبارات پر سنسر لگایا اور بیشترمخالف اخبارات کو بند کر دیاتو اجمل دہلوی نے اپنے کالم میں ہر ممکن کوشش کی کہ وہ بین السطور عوام کی بات کر سکیں۔ یوں 80 کی دہائی میں روزنامہ امن میں شائع ہونے والاجمعہ خان کا کالم ملک میں سب سے مقبول کالم بن گیا۔

امن جب تک متحدہ قومی موومنٹ کا ترجمان نہیں بنا، یہ کالم پورے ملک میں مقبول رہا۔ اس وقت کے قائد حزب اختلاف ولی خان کی تقریر شائع کرنے پر ایڈیٹر افضل صدیقی کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا مگرپی ایف یو جے کے احتجاج پر رہا کر دیا گیا۔ آمریت کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں ’امن‘ اخبار کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس مضمون میں توصیف صاحب نے کئی اداریوں کے اقتباسات بھی شامل کیے ہیں جو پڑھنے کے لائق ہیں۔

٭ ہفت روزہ معیار

محمود شام نے جنوری 1976 میں کراچی سے ہفت روزہ معیار کا اجرا کیا۔ ایک اور سینئیر صحافی اشرف شاد معیار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے۔ جب کہ اس ادارے کے چیئر مین رؤف احمد شمسی اور چیف ایگزیکٹو احمد شمسی تھے۔ عالمی امور کے انچارج کہنہ مشق صحافی رفیع احمد فدائی تھے۔ ملک کے حالات، فنون لطیفہ، ادب، فلم اور تھیٹر جیسے موضوعات پر رپورٹنگ کے لئے نوجوان صحافی مجاہد بریلوی اور شہناز احد کو شامل کیا گیا۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے رپورٹنگ کے لئے نامہ نگار مقرر تھے۔

انور سمیع آرٹ ڈائرکٹر تھے۔ لکھنے والوں میں فرہاد زیدی، ضمیر نفیس اور ڈاکٹر جعفر احمد نمایاں تھے۔ معیار ترقی پسند رحجانات کا حامل اورجمہوری نظام کے استحکام کا حامی تھا۔ مگر معیار نے مختلف شعبوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی مایوس کن کارکردگی، بیوروکریسی کی حکومت کی پالیسیوں کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں، ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کے مسائل اور خاص طور پر بلوچستان کے حالات کے بارے میں خصوصی فیچرز شائع کیے۔ بلوچستان کے بارے میں اس وقت رپورٹیں شائع ہوئیں جب بھٹو حکومت وہاں فوجی آپریشن کر رہی تھی۔ معیار کی ایک اہم خصوصیت اس کے ایڈیٹر محمود شام کے ملکی اور غیر ملکی سیاستدانوں سے انٹرویو تھے۔ محمود شام اور اشرف شاد کے جاندار تجزیوں سے معیار کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

جنرل ضیا ء الحق کی حکومت نے ان ڈھائی سو افراد کے نام شامل کرنے پر جن کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی، محمود شام کو گرفتار کر لیا۔ اور چار دن کے بعد ضمانت پر رہا کیا گیا۔ یہ مقدمہ برسوں چلا۔ بعد میں بھی کئی مضامین پر نوٹس ملے اور زر ضمانت جمع کرانے کے لئے کہا گیا۔ جب معیار کی انتظامیہ ضمانت جمع کرانے میں ناکام رہی تو سندھ کے محکمہ داخلہ نے 3 مئی 1978 کو معیار کا ڈیکلریشن منسوخ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4