پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ


پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ۔
تلخیص: مہ ناز رحمن

ترقی یافتہ دنیا میں اساتذہ کا کتابیں لکھنا ایک عام سی بات ہے لیکن پاکستان میں کتابیں لکھنا اور شائع کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ ایسے اساتذہ بھی کم ہیں اور ایسے ادارے تو اور بھی کم ہیں جو کتابوں کی اشاعت کے لئے تعاون کرتے ہوں۔ ڈاکٹر تو صیف احمد خان، سوسائٹی فار آلٹرنیٹو میڈیا اینڈ ریسرچ اور بدلتی دنیا پبلی کیشنز مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ’پاکستان میں صحافت کی متبادل تاریخ‘ کو کتابی شکل میں ہمارے لئے مرتب کیا۔ طلبا اور محققین کے لئے تعلیم اور تحقیق کے حوالے سے اس کتاب کی افادیت اپنی جگہ لیکن پاکستان کی جمہوری جدوجہد کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بھی اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔

متبادل میڈیاکے حوالے سے سب سے پہلے رسالہ ’لیل و نہار‘ کا ذکر ہے۔ ممتاز مارکسی دانشور سید سبط حسن 1957 میں شائع ہونے والے اس رسالے کے ایڈیٹر اور فیض احمد فیض چیف ایڈیٹر تھے۔ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے مالک اس کو الہلال اور ہمدرد کی مانند ایک یادگار پرچہ بنانا چاہتے تھے۔ 1959 میں ایوب خان کی حکومت نے پی پی ایل پر قبضہ کر لیا۔ سبط حسن کو ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا، رسالے کی اشاعت گرنے لگی اور کچھ عرصہ بعد یہ رسالہ بند ہو گیا۔

جنرل یحییٰ کے دور میں اس کی دوبارہ اشاعت کا آغاز 1970 فروری میں کراچی سے ہوا۔ بائیں بازو کے ممتاز سیاسی رہنما انیس ہاشمی لیل و نہار کے پرنٹر اور پبلشر تھے۔ اب یہ خالصتاْ سیاسی نوعیت کا پرچہ تھا۔ اس کے اداریوں میں امریکی سامراج کی مخالفت، صوبائی خود مختاری، صوبوں کے زبان و ثقافت کے تحفظ اور ترویج کی وکالت کی جاتی تھی۔ مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان میں فوج کشی کے بعد اخبارات کو پریس ایڈوائس کا پابند کر دیا گیا۔ 11 اپریل 1971 کو لیل و نہار بند ہو گیا۔

توصیف صاحب نے اس مضمون میں سبط حسن اور فیض صاحب کے اداریوں کے اقتباسات بھی شامل کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1970 کی صحافیوں کی ہڑتال کی حمایت میں فیض نے ”دامن کو آج اس کے حریفانہ کھینچئے“ کے عنوان سے اداریہ میں لکھا کہ پہلی مرتبہ ہر مکتبہ ء فکر، بائیں بازو، دائیں بازو اور اعتدال پسند سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں نے ( بعض ظاہر ہے کہ خوشدلی سے نہیں ) اس جدوجہد کی جو کارکنوں نے ایک طبقے کی حیثیت سے آجروں کے طبقے کے خلاف شروع کی ہے، حمایت کی۔ حتیٰ کہ رائے عامہ کے ان حلقوں کو بھی جو کسی بھی نوعیت کے طبقاتی اقدام کو تخریبی انتشار پسنداور سوشلسٹ تحریک پر کیا جانے والا اقدام وغیرہ کہ کر مذمت کرتے رہے ہیں مجبوراْ آجروں کے مقابلے میں کارکنوں کی حمایت کرنی پڑی ہے۔

نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ نے پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک تاریخی کسان کانفرنس منعقد کی تو فیض نے اداریہ میں لکھا: ”واقعہ یہ ہے کہ مغربی پاکستان میں پہلی بار کسی مقام پر کسانوں کا اتنا عظیم اجتماع ہوا۔ پہلی بار اتنے بڑے اجتماع کی تنظیم، ترتیب اور میز بانی کسی متمول سیاسی جماعت کی بجائے مقامی کسان کارکنوں اور ان کے ہمدردوں نے کی۔ پہلی بار مقامی کسانوں نے اس مقصد کے لئے ہزاروں کی تعداد میں رضاکاروں کی جماعت منظم کی۔ پہلی بار کسانوں، مزدوروں، دانشوروں، طلبہ، ادیبوں، صحافیوں، فنکاروں اعر سیاسی جماعتوں کے سر بر آوردہ ترجمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ ایک زمانے کے بعد ان سیاسی جماعتوں نے ایک کسان تنظیم کی دعوت

پر اشتراک عمل اور تعاون کا ثبوت دیاجو باہمی اختلافات کے باوجود پسماندہ طبقوں کے حقوق اور خوشحالی کے لئے کوشاں ہیں۔

1948 ء میں اپنی اشاعت کا آغاز کرنے والا روزنام امروز پاکستان کی متبادل صحافتی تاریخ میں ایک معتبر مقام کا حامل ہے۔ فیض احمد فیض اس کے چیف ایڈیٹر اور مولانا چراغ حسن حسرت اس کے ایڈیٹر تھے۔ بعد میں طفیل احمد خان اور احمد ندیم قاسمی اس کے ایڈیٹر رہے۔ ہمارے پیارے منو بھائی نے بھی اسی اخبار سے اپنی صحافت کا آغاز کیا۔ امروز نے اپنے اداریوں اور مضامین میں مظلوم عوام کے لئے بھر پور آواز اٹھائی، خاص طور پر ٹریڈ یونین، کسانوں، طلبہ اور خواتین کی تحریکوں کو بھر پور کوریج دی گئی۔

ریاستی جبر کا شکار ہونے والے بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں، طالب علموں اور مزدوروں کی خبریں امروز میں شائع ہوتی تھیں۔ سامراج دشمن تحریکوں کو خوب تفصیل سے شائع کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں جمہوری اداروں کے استحکام، عوام کے تعلیم، صحت اور ووٹ کے حق کے بارے میں ادارئیے اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ سرحد، بلوچستان، سندھ اور مشرقی پاکستان کے عوام کے احساس محرومی ان کی زبان اور ثقافت کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں لکھا جاتا تھا۔ امروز کے پہلے ادارئیے میں فیض احمد فیض نے اخبار کے اجرا کے تین اغراض و مقاصد کا بطور خاص ذکر کیا:

٭بے زبان عوام کی خدمت
٭عوام کے سیاسی اور جمہوری حقوق کا تحفظ
٭ دولت کی منصفانہ تقسیم

امروز پاکستان کا پہلا اردو اخبار تھا جس نے عام لکھنے والوں کو ان کی شعری و نثری تخلیقات کا معاوضہ دینا شروع کیا۔ توصیف صاحب نے اس مضمون میں اہم موضوعات پر امروز کے ادارئیے بھی شامل کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ روزنامہ امروز میں نچلے طبقے کی ترجمانی میں پیشہ ورانہ تنظیموں کی خبروں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ جولائی 1948 ء میں اخبار کے صفحہء اول پرایک نظم شائع کی گئی ”کیا حل ہے اس ناداری کا؟“ جس میں مرد مسلماں سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا ناداری کے خلاف مزدور کے حامی کافر ہیں؟ ”بڑی زمینداریوں کی تنسیخ“ کے عنوان سے ادارئیے میں لکھا گیاکہ زمینداری کے خاتمے کے سلسلے میں مشرقی پاکستان میں فیصلہ ہو چکا ہے۔ ہندوستان میں یو پی اور بہار اسمبلی بھی اس سلسلے میں غور کر رہی ہے لیکن مغربی پاکستان والے خاموش ہیں چنانچہ ایسی تمام زمینیں بلا معاوضہ کاشتکاروں میں تقسیم ہونی چاہئیں۔

امروز نے 1978 میں کالونی ٹیکسٹائل مل میں ہونے والی پولیس فائرنگ کے نتیجے میں مزدوروں کی ہلاکت کی تفصیل شائع کی۔ کالونی ٹیکسٹائل مل کے مالک اس وقت کے صدر جنرل ضیا ء الحق کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ وزارت اطلاعات کے دباؤ پر امروز ملتان کے ایڈیٹر مسعود اشعر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیاجس پر امروز کے صحافیوں نے احتجاجی تحریک چلائی جس پر ان کا تبادلہ منسوخ ہوا۔

ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران پنجاب کے صحافیوں، ادیبوں اور دانشوروں نے سندھ کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایک دستاویز پر دستخط کیے۔ غیر ملکی میڈیا نے اس دستاویز کو خاصی اہمیت دی۔ جنرل ضیا الحق کی ہدایت پر اس دستاویز پر دستخط کرنے والے روزنامہ امروز اور مشرق کے دس صحافیوں کو بر طرف کر دیا گیا۔ 1988 ء میں بے نظیر نے اقتدار میں آنے کے بعد ان صحافیوں کو بحال کیا۔

پاکستان کی صحافتی تاریخ کا تذکرہ ”پاکستان ٹائمز“ کے بغیر نا مکمل رہے گا۔

مئی 1946 میں پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے تحت پاکستان ٹائمز کا اجرا فروری 1947 میں لاہور سے ہوا اور ایک سال بعد اردو کا اخبار امروز شائع ہونا شروع ہوا۔ میاں افتخارالدین نے اپنے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو پی پی ایل کے لئے وقف کر دیا تھا اور ایڈیٹر کے ادارے کو مکمل طور پر با اختیار کیا تھا۔ فیض صاحب نے عوام کی بالا دستی کے تصور کے تحت پاکستان ٹائمز کی ادارتی پالیسی بنائی تھی۔

اس پالیسی کا بنیادی مقصد مظلوم طبقات، مزدوروں، کسانوں اور خواتین کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرنا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ سیاست میں اصلاحات اور عوام کے سیاسی شعور کی بلندی اخبار کے دو بنیادی اہداف ہیں۔ فیض کی گرفتاری کے بعد مظہر علی خان ایڈیٹر بنے۔ وہ کمیونسٹ تھے اور اس حقیقت کا ادراک رکھتے تھے کہ جمہوری معاشرے میں رائے عامہ کی تشکیل میں اخبارات کا بنیادی کردار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جمہوری ریاست میں نظریات کے ٹکراؤ سے رائے عامہ تشکیل پائے گی۔ احمد علی خان نے 1949 میں پاکستان ٹائمز میں شمولیت اختیار کی۔ ان کا شمار پاکستان کی انگریزی صحافت کے اولین معماروں میں ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ خبر کی معروضیت پر یقین رکھتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4