ننھی آنکھوں کے بڑے خواب، کشمیر بنے گا پاکستان


15 اگست کو سارے ملک میں بلیک ڈے منایا گیا، لاہور مین سب سے بڑی ریلی گورنر ہاؤس سے شروع ہوکر پنجاب اسمبلی کے باہر اختتام پذیر ہوئی۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں یہ ریلی بہت ہی پرجوش تھی۔ ہر طرف نعرے تھے کہ۔ کشمیر بنے گا پاکستان، کرش انڈیا اور کشمیر سے یکجہتی ہر زبان پر تھی۔ اتنا ولولہ اور اس سارے ولولے میں ایک اور خاتون توجہ کا مرکز تھی اور وہ تھیں حریت لیڈر یاسین ملک کی بیوی مشال ملک۔ انہوں نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ آپ کی اس کشمیر کی بہن کو آپ سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ کشمیر میں بھارتی فوج ظلم کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔

جس وقت اسٹیج پر مشال ملک موجود تھیں اس وقت ان کے ہمراہ ان کی چھوٹی سی بیٹی بھی ان کے ساتھ تھی۔ وہ چھوٹی سی بیٹی جب پیدا بھی نہیں ہوئی تھی تب بھی اس کے باپ پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، یاسین ملک کی زبان پر کشمیر کی آزادی کا نعرہ بھارتی فوج کے سینے میں خنجر بن کر اترتا تھا۔ بیٹی جب پیدا ہوئی تب سے اپنے چاروں طرف آہ و پکار سن رہی ہے۔ اور 15 اگست کو جب وہ ماں کے ساتھ ایک اونچے ٹرک کی چھت سے ہر طرف دیکھ رہی تھی تو چھوٹی سے بیٹی کو بھی پتا تھا کہ یہ تو وہی نعرے ہیں جو کل اس کا باپ لگاتا تھا، آج اس کی ماں لگا رہی ہے اور مال روڈ پر ہر طرف یہ جو سر ہی سر ہیں، یہ جو جھنڈے ہی جھنڈے ہیں، یہ جو نعرے ہی نعرے ہیں، یہ جو امید ہی امید ہے، یہ یقین ہی یقین ہے۔

یہ یقین کیسا ہے جو اس ننھی بیٹی کی آنکھوں میں نظر آتا ہے۔

ریلی ختم ہوئی اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیے، ایک نئی امید لے کر اور ایک یقین لے کر کہ اب کشمیر کی آزادی بس اتنی ہی دور ہے جتنا مال روڈ پر گورنر ہاؤس سے پنجاب اسمبلی دور ہے۔

ریلی ختم ہوئی تو میں اپنے دوست اور بھائی عرفان کھوکھر کے ہمراہ واپس گورنر ہاؤس آگئے۔ گورنر صاحب ابھی واپس نہیں پہنچے تھے، تھوڑی دیر بعد ہی گورنر پنجاب کے ہمراہ مشال ملک اور ان کی ننھی سی بیٹی بھی پہنچ گئے۔

گورنر پنجاب بڑے خوش تھے کہ ایک کامیاب ریلی ہوئی ہے، مشال ملک صاحبہ بھی اپنے جذبات کا اظہار کر رہی تھیں۔ ان کو بھی لاہور کے مال روڈ پر پاکستانیوں کا کشمیر کے جھنڈے کے ساتھ کشمیر کی آزادی کا نعرہ یقین کامل دے رہا تھا کہ اب صبح آزادی کی نوید کا نقارہ بجنے والا ہے اور محنت رنگ لائے گی۔ لیکن اس سب میں میری توجہ اچانک مشال ملک کی بیٹی پر پڑی جو گورنر ہاؤس کے اس ٹھنڈے کمرے میں جہاں سب پسینے میں شرابور تھے وہ ادھر ادھر کھیل رہی تھی۔ اور ہر آنے جانے والے شخص سے ایسے مل رہی تھی جیسے وہ اپنے ہی گھر میں ہو، یہ جو چھوٹی سی بچی کا یقین تھا اور اپنے گھر کی طرح ہر طرف گھوم پھر رہی تھی اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ اس کو ہر طرف اپنوں کے ہی ہونے کا یقین تھا۔

چیف آف اسٹاف گورنر پنجاب رابعہ ضیا سے اس ننھی بچی نے ایک قلم اور کاغذ مانگا اور ایک طرف ہوکر بیٹھ گئی۔

اس وقت کمرے میں ہم چند ہی لوگ تھے،

گورنر صاحب سے ملے اور ان کو اور مشال ملک کو کامیاب ریلی پر مبارک باد پیش کی جس کا سہرا گورنر پنجاب کے سر تھا۔

میرے دوست عرفان کھوکھر جو کہ ایل پی جی ایسوسی ایشن کے چیئر مین ہیں انہوں نے گورنر صاحب سے ایک پروگرام کے حوالے سے چند منٹ بات کی اور ہم کمرے سے نکلنے لگے۔

اسی دوران جاتے جاتے میرے قدم ایک دم سے ساکت ہوگئے۔ میرے سامنے مشال ملک اور یاسین ملک کی چھوٹی سی بچی کاغذ قلم لئے صفحے پر ایک ڈرائینگ بنا رہی تھی۔ اس ڈرائینگ پر چند جھنڈے اور لوگ تھے۔

جو اس نے بھی تھوڑی دیر پہلے اس ریلی میں دیکھا وہی کچھ اپنے قلم سے اس صفحے پر بنا رہی تھی۔

جس طرح سے اس نے کاغذ قلم مانگا تھا مجھے لگا وہ یہ پل فوری قید کرنا چاہتی ہے، اس کے من میں تھا کہ جو باہر دیکھا اس کو فوری صفحے پر اتار دے۔

ہمارے آنے کے بعد نا جانے وہ صفحہ کسی نے دیکھا یا نہیں، پتہ نہیں اس نے اپنی ماں کو دکھایا یا نہیں، اور معلوم نہیں کہ بعد میں اس نے اس سفید کاغذ پر اور کیا کیا بنایا ہو مگر جتنا میں نے دیکھا وہ صرف اور صرف ننھی سی آنکھوں میں ایک بڑا سا یقین تھا۔

یقین یہ کہ پاکستان ہر دم کشمیر کے ساتھ ہے، یقین یہ کہ اس کے باپ اور ماں کی جدوجہد اس ملک میں ہر سچے اور کھرے پاکستانی کی جدو جہد ہے۔

اس ننھی سی بچی کی پسندیدہ ڈرائینگ بنانا بھی آزادی مانگنا ہے، اس کے قلم میں ابھی لفظ لکھنے کی اگر کاریگری نہیں تو کیا مگر وہ آڑھی ترچھی لایئنوں سے آزادی کے نعرے لگانے والے لوگ تو بنا سکتی ہے۔ یہی لوگ جو ابھی صفحے پر ساکت ہیں ابھی یہ بھی بولیں گے۔ ابھی تو یہ بھی آزادی کا حق مانگیں گے۔ ابھی تو اس چھوٹی سی بچی نے خود بھی بولنا ہے۔

کیا تب بھی بھارت پیچھے نہیں ہٹے گا؟ یہ جو روز دنیا بھر کے خاموش اور ساکت لوگ اب بولنے لگے ہیں اور کشمیر کو ایک سچ ماننے لگے ہیں یہ بڑھتے جائیں گے۔ تب تو بھارت پیچھے ہٹے گا اور اگر تب بھی پیچھے نا ہٹا تو پھر کہیں اتنا پیچھے نا ہٹا دیا جائے کہ پھر اپنا وجود ڈھونڈتا پھرے کہ اس کو معلوم نہیں کہ ہمارے بچوں کے قلم نئے لوگ پیدا کرہے ہیں۔ نئے جھنڈے بنا رہے ہیں۔

بھارت انسان تو مار سکتا ہے مگر یہ سوچ وہ کیسے مارے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).