جشن آزادی اور ناچ گانے کا مسئلہ


کسی بھی ریاست یا علاقے میں اس کا سوشل سٹرکچر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ بعض اعمال کا تعلق لوگوں کی انفرادی زندگی سے ہوتا ہے اور بعض اعمال معاشرے کے افراد کی اجتماعی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔

14 اگست کو چترال پولو گراؤنڈ میں جو کچھ ہوا اس کا تعلق معاشرے کے اجتماعی زندگی سے ہے۔ اس وجہ سے اس کا اثر معاشرے کے عمومی سٹرکچر پر ہوتا ہے۔ یقینا اس میں دس سال سے کم عمر بچیوں نے ٹیبلو پیش کیں لیکن کیا یہ کسی ادارے یا کسی بچی کا انفرادی عمل تھا یا ایک اجتماعی عمل تھا؟ کیا اس عمل کا معاشرے پر اثر ہوتا ہے؟ یقینا یہ ایک اجتماع تھا اور اس کا اثر معاشرے کے عمومی سٹرکچر پر ہوتا ہے۔

ناچ گانا بذات خود کوئی بری چیز نہیں، ہاں اگر اس سے یا کسی اور ایسے عمل سے معاشرے کے اس سٹرکچر میں بگاڑ آجائے تو اس سے بری اور کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر خواتین اپنے لئے میوزک کا انتظام بھی کرتی ہیں اور خوب دھمال مچاتی ہیں۔ اس عمل کو میں نے چترال ہی میں کئی بار بہت سے قدامت پسند اور دقیانوسی ذہنیت والے مسلمانوں کے گھروں میں بھی ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ کوئی مخلوط نشست نہیں ہوتی ہے اور اچھے خاصے دین دار گھرانوں کی مائیں اور بہنیں بھی لڑکیوں کے اس ڈانس سے لطف اٹھا رہی ہوتی ہیں۔

جیسا کہ عرض کیا کہ جب تک کسی انفرادی عمل سے معاشرتی نظام خراب نہ ہو وہ ایک انفرادی مسئلہ رہتا ہے لیکن جوں ہی ان افراد کے اعمال اثر معاشرے پر ہونا شروع ہو جائے تو یہ ایک معاشرتی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اور معاشرتی مسئلہ کا اثر پورے معاشرے پر ہوتا ہے۔ پھر اس میں چھوٹی بچی، وغیرہ کا عمل دخل ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر اس میں ریاستی اداروں کی سرپرستی بھی ہو تو پھر اس سے معاشرتی بگاڑ ایک حقیقت بن جاتی ہے۔

کسی بھی ریاست کی اپنی ایک طرز زندگی او ایک معاشرتی سسٹم ہوتا ہے اور اس ریاست کے اندر بھی یہ علاقے کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں۔ نیز، ہو سکتا ہے کہ ایک عمل چترال میں اچھا سمجھا جاتا ہو وہ لاہور میں برا سمجھا جائے یا ایک عمل جو اسلام آباد میں نارمل ہو وہ چترال میں ایک ٹیبو سمجھا جائے۔

ہمارے معاشرے میں عورتوں کا ناچ گانا عوام کی اکثریت پسند کرتی ہے لیکن معاشرتی عوامل کی وجہ سے اس کا سرعام پرچار نہیں کیا جاتا ہے۔ شاید ریاست کا نظام اور اس کی رٹ اس کی سرعام نمائش کو روکتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں کسی کے ساتھ جسمانی تعلق رکھنا کوئی بری بات نہیں لیکن اس معاشرے میں کسی پبلک جگہ پر کسی کے ساتھ محض بوس کنار کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے لوگ اس طرح کی حرکات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید اس معاشرے کا سوشل سٹرکچر ہے جس میں اس طرح کے حرکات عمومی معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ اور شاید اس وجہ سے اس طرح کے کاموں سے اجتناب کیا جاتا ہے۔

کیا ہمارے ضلع کے ڈپٹی کمشنر صاحب کو ان چیزوں کا پتہ نہیں تھا؟ خیر اسے آئے ہوئے کم وقت ہوا ہے، کوئی بات نہیں۔ کیا کمانڈنٹ چترال سکاوٹس بھی چترالی معاشرے کے اس سٹرکچر سے ناواقف ہیں؟

آزادی کی جشن امریکہ، چائنہ، کینیڈا یا ملائشیا میں منانا تو جائز ہے لیکن ایک ایسے ملک جس کا آدھا حصہ 1971 میں چھن گیا ہو اور جس کی شہ رگ ابھی ابھی کاٹی گئی ہو اس میں ڈھول بجا کر جشن منانا کسی بور بھی عقلمندی کا کام نہیں۔ اگر اسی دن کو منانا ہی ہے تو اس میں کوئی ایسے آئٹم رکھے جائیں جو ہماری تاریخ کو اجاگر کر سکیں اور مستقبل کے لئے ہمیں تیار کریں۔ اس طرح کے ناچ گانوں کی وجہ سے آزادی کی فکر کو اجاگر کرنا تو درکنار اس سے معاشرے کا عمومی فیبرک جس نے معاشرتی نظام کے مختلف اجزاء کو جوڑے رکھا ہے وہ بھی خطرے میں پڑ جائے ہے۔

یقینا وہ دس سال سے کم عمر بچیاں تھیں جنہوں نے ٹیبلو (ڈانس نہیں) پیش کیں۔ لیکن یہ عمل انفرادی نہیں تھا بلکہ ایک اجتماعی عمل تھا جس میں ریاست کی سرپرستی بھی شامل تھی۔ ریاست جو کہ اسلام کے نام پر بنی ہو اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے دکھ درد کی ترجمانی اور ازالے کا دعوی کرتی ہو، اسی ریاست کی شہ رگ کاٹ دی گئی ہو اور اسی ریاست کے حکمران آزادی کی جشن ناچ گانے سے منا رہے ہیں۔ ادھر کشمیری مر رہے ہیں اور ادھر ناچا جا رہا ہے۔

اس طرح کے کاموں سے مجھ جیسا ایک سیدھا سادہ مسلمان بھی شک و شبہ میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی میں دو قومی نظریہ موجود تھا اور کیا ہماری اسلامی ریاست پاکستان اس دو قومی نظریے کی حفاظت کر رہی ہے یا یہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کا ایک بہانہ تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).