ریل کی سیٹی


کلرسیداں کے دوسری طرف سگریلا گاؤں ہے، جہاں کے بچے پہلے دریا پار کر کے کشمیر جاتے ہیں اور پھر پاکستان داخل ہو کر علم کی پیاس بجھاتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت سے صرف پینتیس میل کے فاصلے پر پاکستان کا مستقبل پاکستان کا منتظر ہے۔

چکلالہ کے جنگل سے چلیں تو ۔ ۔ ۔ جنگل کا ذکر کچھ یوں کہ آج سے ستر اسی برس ادھر یہ علاقہ جنگل ہوا کرتا تھا۔ آس پاس کے محنت کش، یہاں سے لکڑیاں کاٹتے اور شہر میں جا کر بیچ آتے۔ ان لکڑیوں سے مری بریوری کی بھٹیاں، پنڈی کلب کے آتشدان، سردار سورجن سنگھ کے محل کا طباق، بوہڑ بازار کے امبردھارن مندر کے ہون اور نالہ لئی کے شمشان گھاٹ کے مردے جلانے کا کام لیا جاتا تھا۔

دریا کے پار عالمگیر کے دور کی ایک سرائے ہے، جو اب سرائے عالمگیر کے نام سے مشہور ہے۔ جنگ عظیم اول میں جب انگریزوں کو اس خطے کی سپاہ خیزی کا علم ہوا تو انہوں نے یہاں ایک سکول کھولا۔ ۱۹۲۲؁ میں شاہ جارج پنجم کے نام پر قائم اس ادارے میں ، فوج کے لئے چنے گئے طالب علموں کی ایک کھیپ تیار ہوتی ہے، جنہیں عالمگیرین کہا جاتا ہے۔ فوج کے مزاج پہ ڈھالے گئے یہ بچے طالب کا تجسس بھی رکھتے ہیں اور سپاہی کی آگہی بھی۔ ملٹری کالج کے آہنی دروازوں کے دوسری طرف ایک اور دنیا ہے۔ جس طرح کالج سے باہر، ایک بادشاہ نے مسافروں کو راستہ دکھانے کے اسباب پیدا کئے اسی طرح کالج کے اندر ایک استاد راہنمائی کا وسیلہ ہیں۔ پروفیسر بشیر انگریزی کے استاد ہیں مگر زبان سے زیادہ وہ اپنے شاگردوں کے دل کی اصلاح کرتے ہیں۔

تقریبا ڈیڑھ ہزار برس ادھر جب گوجر پرتیہار سلطنت کے بادشاہ اپنے آپ کو مہاراج ادھیراج آریاورت کہلوایا کرتے تھے، کسے معلوم تھا کہ دیس سے محبت کرنے والے گوجروں کا یہ مسکن ، ایک دن پردیس کا جھومر ہو گا۔ قنوج کے دارالحکومت سے ہندوستان پر راج کرنے والے یہ لوگ اپنے آپ کو پرتیہار اس لئے کہتے تھے کہ اس وقت کی الہامی کتابوں میں محافظ کے لئے پرتیہار کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کوئٹہ سے گلمرگ اور سراروغہ سے قلعہ عبداﷲ تک آج بھی پوٹھوار کے جری جوان اپنی تاریخ نبھا رہے ہیں۔ حفاظت کرنا شائد اس مٹی کی تاثیر ہے یہی وجہ ہے کہ ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ شہید وں کی قبریں اور بیرون ملک سرمائے سے بنی رنگین کوٹھیاں کثرت سے نظر آتی ہیں۔

مانکیالہ کی اصل وجہء شہرت ایک اسٹوپا ہے، جس کی نسبت سے اسے مانکیالہ توپ بھی کہا جاتا ہے۔اسٹوپے کے خاکستری وجود کو سبزے کی مہین چادر نے ڈھانپ رکھا ہے۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق راجہ رسالو نے ایک آدم خور جن کو اس بہت بڑے پیالے میں الٹا قید کر رکھا ہے ۔ رنجیت سنگھ کی مشہور فوج خاص کے سپہ سالار جنرل ونچورا کو کھدائی کے دوران یہاں سے زون دیوتا کی انگوٹھیاں، کشن دور کے سکے اور اموی دور کی اشرفیاں نکلیں ۔ سنا ہے جنرل ونچورا کے اپنے محل( موجودہ سول سیکریٹیریٹ) میں آج کل بھی آدم خور بستے ہیں اور سکے ، اشرفیاں نکلتے ہیں۔ 1891 میں گورا فوج کی ایک پلٹن نے اس اسٹوپے کو مقامی ماہر تعمیرات کے ساتھ مل کر عین مین اسی طرح بحال کیا جس طرح پورے سو سال بعد پاک فوج نے بہاولپور کے نور محل کی آرائش نو کی تھی۔

پرانوں کے مطابق یہاں بسنے والے اگنی کلا راجپوت ہیں، یعنی آگ سے نکلے ہوئے۔ 1947 سے پہلے یہاں کھشتری ذات کے سیٹھی اور بھلہ رہا کرتے تھے، اب ان کی جگہ جنجوعہ راجپوت اور گکھڑ کیانی یہاں کے باسی ہیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے پہلے جنرل محمد زمان کیانی اس قبیلے کی پہچان ہو ا کرتے تھے۔ انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سے اعزازی شمشیر حاصل کرنے والے یہ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں اس راجپوت سپوت کے من میں نہ جانے کیا سمائی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ، نیتا جی سبھاش چند ر بوس کی آزاد ہند فوج میں شامل ہو گئے۔ پاکستان بنا تو آپ گلگت کے گورنر تعینات ہوئے اور کتاب بھی لکھی گویا یہ روائت بھی پرانی رہی ہے۔ اپنی عسکری وجہ شہرت کے علاوہ اس شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے د و سابقہ سربراہان مملکت کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔ مہا بھارت میں لکھا ہے کہ گوجر پہلے لڑے اور بعد میں اپنے دیوتا کشن کے ساتھ ہجرت کر گئے بالکل ایسے ہی جیسے پوٹھوار کے لوگ پہلے جوق در جوق فوج میں بھرتی ہوئے اور اب گروہ د ر گروہ ملک سے باہر جا رہے ہیں۔

چونکہ پنڈی کے گھروں کی اکثریت عسکری مزاج ہے لہذا زیادہ تر گھر مدھم بتیوں سے روشن ہیں۔ چھوٹی چھوٹی تپائیوں پہ راکھ دانوں کے ساتھ بیرون ملک دوروں کی نشانیاں دھری ہیں۔ میز کے اوپر پھلوں والے پلاسٹک میٹ پہ احمد کی چٹنیاں اور اچار ، کاجو، سونف کے مرتبان ، آسودگی کا عالمی نشان ہیں۔ ٹی وی کے ساتھ دیوار پہ بچوں کی اپنے اپنے منتخب ہمسفروں کے ساتھ تصویریں ہیں۔ شہر کے ہر دوسرے گھر میں ایک بیرون ملک مقیم ڈاکٹر یا انجینئر، بیٹا ، بیٹی یا بہو، داماد کی صورت میں ملتا ہے۔ اگر بات کرنے کا موقع مل جائے تو خاندان میں ایک استانی یا پروفیسر نما امی بھی مل جاتی ہیں۔ کبھی کبھار تو لگتا ہے کہ اس شہر سے اگر استانی ماؤں کو منہا کر دیا جائے تو شاید شہر میں کوئی ماں ہی نہ بچے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں لکیر کے دونوں طرف ماں باپ کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ بچوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں یا ان کو ترقی کرتا دیکھ سکتے ہیں۔

سیناپتی اور راشٹر پتی، سالار اعظم اور وزرائے اعظم کے علاوہ کچھ مقطر لوگ بھی یہاں دل کی دنیا کا اہتمام کرتے ہیں۔ پروفیسر احمد رفیق اختر ایک ایسے ہی صاحب حال ہیں۔ داڑھی سے بے نیاز اور روائت سے ماورا، اس صوفی کو بہت سے لوگ بہت سے ناموں سے پکارتے ہیں۔ کچھ انہیں بابا کہتے ہیں اور کچھ انہیں جوگی انکل۔ ایک بات بہر طور طے ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور سے گورڈن کالج پنڈی تک کا سفر محض حصول علم سے اشاعت علم تک کا سفر نہیں تھا بلکہ اس دوران پروفیسر صاحب بے شمار روحانی اور قلبی تجربوں سے گزرے۔ ان کا ادارہ علٰمٰت آج کے بھنور بھنور سمندر میں ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں بڑے بڑے دخانی جہاز اور چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیاں سکون کی تلاش میں لنگر انداز ہوتی ہیں۔ عجیب معاملہ ہے کہ پہلے لوگ معاش کے حصول میں سکون تج دیتے ہیں اور پھر سکون کی طلب میں معاش۔ شاید اسی لئے صاحب دنیا دائرے کی صورت سفر کرتا ہے اور صاحب دل لکیر کی صورت۔۔۔

پوٹھوار کا دل۔۔گوجر خان۔۔۔کہانیوں کے مطابق سلطان غزنوی نے جب اس جگہ کو آباد کرنے کا قصد کیا تو زوروں کی بارشیں ہوئیں ، بادل چھٹے تو کٹی پھٹی زمین نمودار ہوئی، چونکہ سلطان کا سومناتھ جانا زیادہ ضروری تھا لہذا اس نے اس جگہ کو توجہ دینے کی بجائے صرف نام دیا اور آگے بڑھ گیا۔ پھٹ ہار، سے بگڑتے بگڑتے اب اس علاقے کو پوٹھوار کہا جاتا ہے۔ رہی بات کہانیوں کی، تو بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ بے وقت کہانی کہنے اور سننے سے مسافر گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں۔ شاید اسی لئے یہاں کے زیادہ تر لوگ گھر کا راستہ بھول چکے ہیں۔

پنڈورا کے ریلوے اسٹیشن کے بعد پٹڑی کا راستہ ایک سڑک کاٹتی ہے جو دھمیک گاؤں کو جاتی ہے۔ ایک مہم کے سلسلے میں لاہور سے واپس جاتے ہوئے سلطان شہاب الدین غوری کے قافلے نے اس گاؤں میں قیام کیا۔ ایک رات عشاء کی نماز کے دوران گکھڑوں کے ایک گروہ نے شاہی خیموں پر حملہ کیا اور سلطان کو قتل کر دیا۔ وصیت کے مطابق سلطان کو وہیں دفن کیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا تھا۔ آج سے کچھ سال پہلے جب مقتدر حلقے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ہوا کرتے تھے، شہاب الدین غوری کے مزار کی تعمیر نو کی گئی۔ عمارت کے سامنے غوری میزائل کا ایک ماڈل بھی نصب ہوا جو ہندوستانی پرتھوی میزائل کا جواب ہے۔ سلطان کے ایک چچا نے کسی سرحدی معاملے میں غزنی شہر کو آگ لگا دی اور سات دن تک شہر کو جلنے دیا۔ جب عمارتیں، محل، تالاب اور سرائے ، سب جل چکا تو اس افغانزادے نے اپنے لئے ایک سوختہ سا نام چنا۔ علاؤالدین جہاں سوز۔۔۔ خدا کی سر زمین کے اس ٹکڑے پر شاید لوگوں کے مقدر میں غوریوں اور پرتھویوں کے ہاتھوں جہاں سوزی ہی لکھی ہے ۔ مگر اب ایسے کون سوچتا ہے کیونکہ جب قلم کلمہ پڑھ لے پھر سب سے پہلے تاریخ کافر ہوا کرتی ہے اور پھر ادب، مذہب اور تاریخ کی تثلیث ، سچ کے توحید کے ساتھ صلیبی جنگیں لڑتی ہے۔

دریائے سندھ تو خیر اپنے ماننے والوں کے لئے مقدس ہے ہی، جہلم کے پانی بھی پرانوں کی جڑیں سیراب کرتے ہیں۔ ویتھ دریا، وتستا، ہایڈس پس ! اس کے چند نام ہیں۔ رگ وید کے مطابق یہ دریا ، پورے ہندوستان کو پاکیزگی بخشتے ہیں۔ آج کل بہرحال اس کے پانی روح روشن کرنے سے زیادہ گھر روشن کرنے کے کام آتے ہیں۔ یونانی دیو مالا میں بھی اس دریا سے دلفریب کہانیاں وابستہ ہیں۔ کچھ کتابوں کے مطابق دریا کا نام دیوتا پر ہے اور کچھ کے مطابق دیوتا کا نام دریا پر ہے۔ اب یہ دیو مالا ہے یا حقیقت، اس دریا میں کچھ نہ کچھ ا لہامی ضرور ہے۔

منگلا کینٹ کو جانے والا راستہ شور سینی راجہ پورس کی جاگیر ہوا کرتا تھا۔ پورس، چناب اور جہلم کے دریاؤں کے درمیان پھیلی سلطنت کا راجہ تھا جس کی عملداری بعد میں بیاس تک دراز ہوئی۔ اسی راجہ پورس نے اپنی بیٹی منگلا کے نام پر منگلا کا قلعہ تعمیر کیا جو اب منگلا جھیل کے ایک کنارے پر ہے ۔ دوسرے کنارے پر رام کوٹ کا قلعہ ہے ، جسے مسلمانوں نے تعمیر کیا اور سکھوں نے استعمال کیا۔ تقریبا اسی جگہ پورس اور سکندر کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ سکندر نے یہ علاقہ بھی فتح کیا اور یہاں کے لوگوں کے ذہن بھی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود، آج بھی آدرشی لوگ اپنے بچوں کے نام سکندر رکھتے ہیں ، پورس نہیں۔ بیرونی حملہ آوروں سے محبت ہندوستان کا دائمی مرض ہے۔

سمپورن سنگھ گلزار نام کے ہی نہیں، فن کے بھی سمپورن ہیں۔ رنگ اور روشنی کی فلمی دنیا سے تعلق کے باوجو د گلزار، سیدھی کہانی لکھتے ہیں اور سادہ شعر کہتے ہیں ۔ ان کی اپنی کہانی کچھ یوں ہے کہ دینہ کے جس گاؤں میں گلزار کا جنم ہوا، اس کی گلیاں ، آج بھی ان کے حافظے پر کندہ ہیں۔ جب دینہ پاکستان کا حصہ بن گیا تو گلزار کے گھر والے اپنا سامان ، یادیں اور آنسو سمیٹتے سمیٹتے یہاں سے رخصت ہوئے۔ قافلے کے ساتھ چلتے چلتے کسی بچے کا کھلونا گر گیا۔ مٹی کے گھوڑے کو ڈھونڈھنے کیلئے قافلے سے جدا ہونے والا ننھا سمپورن ، آج تک گھر والوں کو ڈھونڈ رہا ہے۔

گکھڑوں کے انکار کے بعد فرید خان نے اپنا ترپ کا پتہ پھینکا اور تاریخ کو ٹوڈر مل مل گیا۔ اس کایستھ کھتری نے اعلان کیا کہ ہر پتھر لانے والا مزدور ایک سونے کا سکہ انعام میں پائے گا۔ چند دنوں بعد یہ عالم ہو گیا کہ لوگ تانبے کے سکوں کے عوض سارا سارا دن پتھر ڈھونے لگے۔ شیر شاہ کی تلوار تو جنجوعہ قوم کی اطاعت حاصل نہ کر سکی مگر ٹوڈر مل کی اشرفیوں نے ان کا ایمان ضرور حاصل کر لیا۔ ادھر قلعہ مکمل ہوا ، ادھر ہندوستان میں سوریوں کی حکومت اپنے انجام کو پہنچی۔ رہ گیا ٹوڈر مل تو وہ اچھے ٹیکنو کریٹ کی طرح نئی حکومت کا بھی منظور نظر بن گیا۔

روہتاس کے طلسم سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی جہلم میں داخل ہونا آسان نہیں۔ شہر اور چھاؤنی سے آنکھ بچا کر ایک راستہ رڑیالہ ہر دیو ، سنگھوئی اور داراپور کو جاتا ہے۔ ٹلہ جوگیاں اسی راستے پر واقع ہے۔ پہلے یہاں بدھ بھکشو آ کر بیٹھے یا سوریا پوجا شروع ہوئی، آیور وید کے ذریعے جسم کی آلائشیں صاف ہوئیں یا کن پھٹے جوگیوں نے روح کی بالیدگی کا اہتمام کیا، رانجھا پہلے آیا یا پورن بھگت، گرو گورکھ ناتھ نے گیان دیا یا گرو نانک دیو نے نروان لیا، اشنان کے تالاب تین ہیں یا مندر بارہ ہیں، یہ سوال مورخ اور محقق پوچھتے رہیں گے مگر ایک بات طے ہے، جوگیوں اور روگیوں کو یہاں سے کچھ نہ کچھ ملتا ضرور ہے۔ فوجیوں کے شہر جہلم تک کا سفر طے کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ روہتاس کے فوجی اور ٹلہ کے جوگی اتنی آسانی سے مسافروں کو راستہ نہیں دیتے، آبادیوں سے دور آباد ہونے والے یہ دونوں قبیلے انسانوں کو دو ہی چیزیں دان کرتے ہیں انتشار یا اطمینان ۔

روہتاس اور ٹلہ جوگیاں کے بعد جہلم مسافر کے لئے اپنے بازو کھول دیتا ہے۔ آہستہ آہستہ ، دوآبے کا حسن دیکھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، بڑھاپے کی محبت کی طرح، پرتجسس مگر شکستگی پر آمادہ۔ جہلم کتنا پرانا ہے، کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا ، البتہ اتنا پرانا ضرور ہے کہ اس کو چھوڑ کر جانے والے اب بھی اس کے سحر میں گرفتار ہیں۔ شہر اور دریا کی تاریخ ایک دوسرے سے آنول اور بچے کی مانند جڑی ہے۔ اس سے پہلے کہ شہر اپنا فسوں پڑھ کر پھونکے، دریا اس کا طلسم ختم کر دیتا ہے۔

اننت ناگ سے پچاس میل دور ، ویری نگ کا چشمہ ہے جہاں سے دریائے جہلم اپنا سر اٹھاتا ہے۔ پیرپنجال کے پہاڑی سلسلے سے نکل کر دریا ، اننت ناگ، برج بہارہ، اونتی پورہ، سوپور اور بارہ مولا سے ہوتا ہوا، میلوں کا سفر طے کر کے مظفر آباد کے راستے پاکستان پہنچتا ہے۔ راستے میں بڑے بڑے آبی ذخیرے اور چھوٹے چھوٹے جذباتی جزیرے بھی آتے ہیں۔ دریا کے یخ بستہ پانیوں میں مضبوط چپو چلتے ہیں اور ساتھ ساتھ نازک دل مچلتے ہیں۔ وسیع کناروں پر مختصر پیمان باندھے جاتے ہیں اور نئی نئی آبادیوں میں پرانی پرانی یادیں دفن ہوتی چلے جا رہی ہیں۔ تریموں کے مقام پر جہلم کی بہادری ، اپنے آپ کو چناب کی عاشقی کے حوالے کر دیتی ہے۔ پاک سر زمین کو سیراب کرنے سے پہلے، دریائے جہلم، ہندوستان کی زمین میں بھی زرخیزی بانٹتا ہے، ندی، نالے، درخت ، دریا ، فیض دینے سے پہلے شناخت کا تقاضا نہیں کرتے۔

(محمد حسن معراج کی کتاب ”ریل کی سیٹی“ سے چند اقتباسات)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments