سب کا ٹائم آئے گا۔۔۔ شلواریں سب کی اتریں گی


ان کا سر تن سے جدا کر دو، جلا دو، ٹکڑے کر دو، ان کو سسکا سسکا کے مار دو، ان کی آنکھیں نکال کے زبان کاٹ کے لٹکا دو جب تک اس کا دم نہ نکل جائے۔ اکثر و پیش تر جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے ایسی ہی آوازوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

پندرہ سالہ ریحان اعتراف کر رہا ہے کہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس نے چوری کی اور وہ جوا بھی کھیلتا ہے۔

ایک گروہ نے سوچا آج عدالت لگائی جائے اور مجرم کو سزا دی جائے کیونکہ شہر میں جرائم بہت بڑھ چکے ہیں، مجرم کو رسیوں سے باندھا گیا شلوار اتاری گئی، اسے مارنے والے مارتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ”سر پہ نہ مارنا۔“

غور کیجئیے وہ مارنے والے سزا دینے والے ہمارے جیسے ہی تھے جو مجرم کی اصلاح کی نیت نہیں رکھتے جو جرم سے نفرت نہیں کرتے بلکہ مجرم کو شرمناک سخت سے سخت سزا دینے کے قائل ہیں۔ یقینا ان کی جان سے مارنے کی نیت نہیں تھی ہاں لیکن وہ گروہ معاف کرنے کی نیت بھی نہیں رکھتا تھا۔

ایک بچہ جو چند اخلاقی برائیوں میں ملوث تھا اس کی تربیت کرنا مشکل مرحلہ تھا اسے مار مار کے سدھارنے کی پالیسی قدرے آسان نظر آئی کیونکہ ہم سب نے اپنے اردگرد یہی تشدد یہی شدت پسندی پروان چڑھتے دیکھی ہے۔ ہم سب کی پرورش ایسے ہی ماحول میں ہوئی ہے جہاں بچے کے استاد کو کہا جاتا ہے مار مار کے چمڑی ادھیڑ دینا لیکن سبق آنا چاہیے۔

ہم سب مذمت کرنے والے اپنے اپنے گھروں میں ہونے والے ظلم و زیادتی پہ کبھی آواز نہیں اٹھاتے۔ مائیں بیٹیوں کو رخصت کرتے ہوئے کہتی ہیں ”اب تمہاری لاش ہی واپس آئے،“ جہاں شوہر کی گالیوں اور مار کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ ”یہ تو سب مرد کرتے ہیں گھر بسانے کے لئے عورت کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ “

آج تقریباً ہر گھر میں ڈومیسٹک وائلینس ہو رہا ہے۔ کہیں خواتین کو شوہر کا کام بروقت نہ کرنے پہ گالیاں اور مار کھانی پڑتی ہے تو کہیں بچوں کو کسی نقصان پہ ماں باپ سے مار ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر شخص دوسرے کو اپنا محکوم اور خود کو حاکم تصور کیے ہوئے ہے۔ خود مجرمانہ سوچ رکھتے ہوئے اپنے آپ کو قاضی سمجھتے ہوئے فوری عدالت لگانے کے قائل ہم سب ہیں، کسی میں بھی معاملے میں معاف کرنے، یا پھر معمولی سزا اس نیت سے دینے کی خواہش نہیں رکھتے کہ دوسرے کی اصلاح ہو جائے بلکہ جرم سے بڑھ کے شرمناک و المناک انداز میں سزا دیے جانے کے قائل ہیں اور جب کوئی ایسا کر گزرتا ہے تو واویلا کرتے ہیں کہ ظلم ہو گیا معمولی جرم پہ اتنی بڑی سزا کیوں دی۔

مشال خان کا جرم ثابت نہ ہوا ایک گروہ نے درندگی کے ساتھ مشال کو نوچ ڈالا۔ وہ گروہ کیا ہم سب کی سوچ کی ترجمانی نہیں کرتا؟ کیا ہم سب یہ نعرہ نہیں لگاتے کہ ”گستاخ رسول ص کا سر تن سے جدا،“ ”اسے جلاد دو۔“ کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ تصدیق کی جائے پہلے۔ ممکن ہے یہ محض پروپیگینڈا ہو جھوٹا الزام ہو۔

فرخندہ افغانی پہ توہین قرآن کا الزام تھا جرم ثابت ہونے سے پہلے مشتعل گروہ نے عدالت لگائی اور سنگسار کر کے قتل دیا بعدازاں ثابت ہوا کہ جھوٹا الزام تھا۔ ریحان نے تو اقرار جرم کیا ویڈیو میں ہماری سوچ کے مطابق اسے کس طرح معاف کر سکتے تھے۔ کل ریحان کی شلوار اتار کے اسے اس کی چوری کی سزا دینے والا گروہ ہر شدت پسند کی ترجمانی کر رہا تھا اور اب سب خواہاں ہیں اس گروہ کی شلواریں اتاری جائیں اور اسی طرح تشدد کر کے مارا جائے۔

نہیں جانتی کہ یہ کیسی نفسیات ہے جس میں شلواریں اتار کے تشدد کر کے سزا دینے میں خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کب تک اور کہاں تک چلتا رہے گا لیکن اگر ایسی اذیتناک سزائیں دینے کی فکر تبدیل نہ ہوئی تو جرم تو کبھی نہ کبھی ہم سب سے سرزد ہوں گے۔

سب کا ٹائم آئے گا!

شلواریں سب کی اتریں گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).