اپنا ٹائم آتا نہیں لانا پڑتا ہے


یہ گبول گوٹھ کی پیچیدہ اور ٹیڑھی میڑھی گلیاں ہیں۔ اس گوٹھ کی حالت بھی کم و بیش وہی ہے جو کراچی کے دیگرگوٹھوں کی ہے۔ وہی ابلتے گٹر، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ڈھابوں پر فارغ مَردوں کا جھمگھٹا، شدید ابتر معاشی حالت سے بے خبر حلق سے ابلتے قہقہوں کی آوازیں، ہر دکان پر اونچی آواز میں بجتے گانے اور ان پر جھومتے جوان اور بوڑھے سر۔ اب تک کی زندگی میں بے شمار گوٹھ دیکھے، ان سب میں ایک بات مجھے مشترک لگتی ہے اور وہ ہے شہر کا حصہ ہونے کے باوجود شہری طرزِزندگی کا ان سے روٹھے رہنا۔

گبول گوٹھ میں داخل ہوتے وقت روزانہ ایک چیز میری توجہ اپنی جانب ضرور کھینچتی ہے اور وہ ہے آوارہ اور فارغ بچوں کا ہجوم، جو یہاں ہر چند گز کے فاصلے پر نظر آجاتا ہے۔ لکڑی سے ٹائر ہنکانا اور آگے نکل جانے کی ریس لگانا یہاں کے بچوں کا پسندیدہ مشغلہ معلوم ہوتا ہے۔ کچھ بچے انگلیوں میں کنچے دبائے دوسرے بچوں کو مقابلے کی دعوت دیتے بھی نظر آتے ہیں اور کچھ بچے وہ بھی ہیں جو بڑوں کی سنگت میں ڈھابوں پر لگے ٹی وی پر نظریں گاڑے، فلمیں دیکھتے ہوئے جانے کتنے گھنٹے بِِتا دیتے ہیں۔ میں اب تک کے مشاہدے سے یہ بات یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس گوٹھ کے بچوں کی اکثریت اسکول سے باہر ہے۔ ان بچوں کے لیے زندگی کا واحد مقصد یہی آوارہ گردی ہے۔

وہ ماحول جہاں لڑکوں کی تعلیم کو غیرضروری سمجھا جاتا ہو وہاں لڑکیوں کے لیے تعلیم کا تصور بھلا کیسے کیا جاسکتا ہے؟ پھرگوٹھ کا ماحول تو لڑکیوں کی آزادانہ آمدورفت کی بھی اجازت نہیں دیتا، روایتیں یہاں قدم قدم پر راستہ روکے کھڑی ہیں۔ ایسے میں یہاں سالوں سے بند پڑے گرلز ہائی اسکول کے زنگ آلود تالوں کو کھولنا اور مٹی میں اَٹے فرش کو علم کی گزرگاہ بنانے کا خیال محض ایک خواب ہی لگتا ہے، لیکن خواب خواب ہی رہ جاتے تو دنیا ترقی کیسے کرتی؟ ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا جنون چڑھتا تو چند لوگوں کے سروں میں ہے لیکن اس سے بھلا پوری انسانیت کا ہوتا ہے۔

کسی زمانے میں یہ ہائی اسکول گبول گوٹھ کا واحد سرکاری گرلز اسکول تھا لیکن اس کا وہی حال ہوا جو کراچی کے لا تعداد سرکاری اسکولوں کا مقدر بن چکا ہے۔ میری نظر میں ہمارے پیارے وطن میں کرپشن سے تباہ ہونے والے بے شمار شعبوں میں تعلیمی شعبہ سرفہرست ہے۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ علم کی روشنی بکھیرنے کے لیے بہت سے لوگوں نے انفرادی اور گروہی طور پر بہت کام کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ کسی سرکاری اسکول کو فن اور ادب سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنے سایے میں لے لیا ہے، تو کسی سرکاری اسکول کو بیرونِ ملک میں مقیم کسی پاکستانی خاندان نے گود لے رکھا ہے اور کسی سرکاری اسکول کو مقامی این جی او نے اپنی سرپرستی میں لے کر اس علاقے کی تقدیر بدلنے کا ارادہ باندھ رکھا ہے۔ اس نیک کام کو سندھ مدرسہ بورڈ بھی جس منظم طریقے سے اور بڑے پیمانے پر انجام دے رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بے شمار اسکولوں کی طرح گبول گوٹھ کے گرلز ہائی اسکول کے دروازے پر سالوں سے پڑے زنگ آلود تالے کھولنے والا بھی یہی سندھ مدرسہ بورڈ ہے۔

یہ کہنا کہ تعلیم کسی علاقے کی تقدیر بدل سکتی ہے، میری نظر میں درست نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ تعلیم ہی کسی علاقے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اور اس وقت میں یہ بات کرتے ہوئے اپنی پلکوں کے گوشے اس لیے بھی بھگو رہی ہوں کہ میرے موبائل کی اسکرین پر چودہ سالہ ریحان کی لاش کی تصویر ہے۔ لوگ کہتے ہیں اس نے چوری کی تھی۔ کیا چُرایا تھا؟ چند ہزار روپے، جس پر اسے برہنہ کر کے مار اگیا، اور اتنا مارا گیاکہ اب وہ کچھ چُرانے کے لیے زندہ نہ رہا۔

کیا کسی نے سوچا کہ ریحان کے خوابوں کی جنت کس کس نے لوٹی؟ اس کا خوشیوں بھرا بچپن کون چرا کر کھا گیا؟ اس کی لبوں کی مسکان پر ڈاکا آخرکس نے ڈالا؟ کبھی کسی نے کیوں نہ سوچا کہ ریحان کی بستی میں علم اور ہنر کی کبھی نہ بجھنے والی قندیل روشن کریں گے، جو یہاں کے بچوں کا ٹائم ذرا دیر سے سہی لیکن ضرور بدل دے گی اور پھر ایک دن آئے گا کہ یہ بچے چرانے کے بجائے محنت سے کمانے کے ہنر سے واقف ہوجائیں گے۔ ایک روز قبل جب ریحان زندہ تھا تو اس کی زندگی کی پروا کرنے والا کون تھا؟

کوئی بھی تو نہیں۔ کاش ریحان کو بے دردی سے مارنے والے اس کے زیر یں لباس کے بجائے وہ شرٹ اتار دیتے جس پر لفظ چیخ رہے تھے، ”اپنا بھی ٹائم آئے گا“۔ اس کے قاتل بظاہر تو چند درندے ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں اسے سب نے مل کر مارا۔ اس کی قاتل ریاست بھی ہے اور خاندان بھی۔ اور سب سے بڑھ کر وہ تعلیمی نظام جو بچوں کو اپنی گود میں سمونے سے منکر ہے، اسی وجہ سے سڑکوں کی جھولی ان بچوں کی آوارہ گردی سے بھرجاتی ہے اور پھر کسی دن ایک مصروف سڑک پر ان بچوں میں سے کسی کی لاش ملتی ہے۔

سوچ رہی ہوں کہ کل جب اسکول کی طرف جاتے ہوئے گبول گوٹھ کی کچی سڑکیں گاڑی کے ٹائروں سے رگڑ کھائیں گی تو سامنے آنے والا یقیناً کوئی بچہ ہی ہوگا، جس کے لیے گھر رات گزارنے کی ایک جگہ سے زیادہ کسی چیز کا نام نہیں اور اسکول اس کے لیے ایک انجان تصور سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان سب بچوں کو اسکول لانا ہے۔ ممکن کو ناممکن بنا کر دکھانا ہے۔ یہی ہم سب کا مشن ہے۔ سفر کی ابتدا ہے، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ کتنی رکاوٹیں راہ میں حائل ہوں گی اور آگے کیا ہوگا لیکن ان بچوں کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ سڑک سے زیادہ بے رحم دوسری کوئی جگہ نہیں۔

اسکول زندگی کا شعور دیتا ہے اور سڑک شارٹ کٹ سکھاتی ہے۔ شارٹ کٹ کے چکر میں پڑنے والوں کا اکثر یہی سڑک نام و نشان مٹا دیتی ہے لیکن اسکول کے دروازوں سے نکلنے والوں کو ”اپنا بھی ٹائم آئے گا“ کا جملہ لکھی ہوئی شرٹ پہننے کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ وہ اپنے اچھے وقت کو خود دعوت دے رہے ہوتے ہیں، اور وقت اسکول کی عمارت کے ہی کہیں آس پاس ان کے انتظار میں ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).