تشدد کر کے جان لینے والے نیکو کار اور مرتے ہوئے گنہگار


جب اپنے تئیں ایک مبینہ گنہگار کو قرار واقعی سزا دینے کے لیے نیکو کاروں کے ہاتھ اٹھے ہوں گے تو انہیں اپنے اس عمل کی راستی کا کامل یقین ہو گا۔ چودہ پندرہ برس کا ایک کمسن ملزم جسے جنگلے سے باندھ کر، مکمل طور پر بے بس کر کے انسانیت سوز سلوک کرتے وقت وہ احساس برتری کے سرور میں یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ آج ہم اپنے محلے، شہر، ملک اور دنیا کو ایک پاپی سے نجات دلانے کا مقدس فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔

اس کی درد ناک چیخوں، کربناک آہوں اور گڑ گڑاتی التجاؤں سے ان کی سماعتوں نے لذت بھی کشید کی ہو گی۔ جس طرح کسی موذی جانور کی ہلاکت خیزیوں کے بعد انسانیت کو اس سے نجات دلانے کے لیے کوئی شکاری اس پر اپنے ہتھیار آزماتا ہے اور اس کی موت کا جشن مناتا ہے۔ مگر یہاں انسانیت کے خود ساختہ مسیحا شکاری نہیں تھے اور ہلاک ہونے والا کوئی موذی جانور نہیں بلکہ گوشت پوست کا جیتا جاگتا انسان تھا۔ کسی ماں کا جگر گوشہ تھا کسی باپ کی پیرانہ سالی کا سہارا تھا۔

اس کی عمر پندرہ برس بتائی جاتی ہے، تصاویر میں وہ اس سے بھی کم دکھائی دیتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ وہ چور تھا، مان لیتے ہیں کہ وہ ڈاکو تھا لیکن اس کم سنی میں وہ کیا عوامل اور وجوہات رہی ہوں گی کہ وہ راہ راست بھٹکا۔ اگر اس نے چوری کی تو اس کے پیچھے کیا المیہ تھا؟ اس کے بعد وہ ناتجربہ کار چور پکڑا جاتا ہے تو کیا وہ اسی سلوک کا مستحق تھا جو اس کے ساتھ کیا گیا۔ کیا چور کی یہی سزا ہوتی ہے؟ کیا کسی ڈاکو کو پکڑنے کے بعد صفائی کا موقع دیے بغیر خود ہی منصف بن کر اسے انتہائی سزا یعنی موت کی سزا سنا کر اور پھر فورا اس پر عمل درآمد کر کے فوری انصاف مہیا کرنا بھی راست عمل ہے؟

اگر اسے قانون کے حوالے کیا جاتا، اسے اس کے مبینہ جرم کی سزا مل جاتی تو شاید وہ کئی برس کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا۔ صالح معاشرہ تو ایسی صورت میں بھی اس کے شر سے بچ سکتا تھا۔ دوسری صورت میں اگر ہمارے بد عنوان معاشرے میں وہ رشوت، سفارش یا کسی قانونی سقم سے بچ نکلتا تو بھی کیا خبر کب وہ تائب دل ہو کر توبہ کرتا اور اپنی باقی زندگی اپنے گناہوں کا کفارا ادا کرتے ہوئے گزارتا۔ اس پہلو کو بھی خارج از امکان تو قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مگر یہ ہمارے نیکو کار اتنا انتظار کیسے کرتے۔ یہ برداشت کی صفت سے تو یکسر محروم ہیں۔ یہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جہاں برائی دیکھو فوراً اس کا قلع قمع کر دو۔ خواہ وہ سیالکوٹ کے دو بھائی ہوں، مردان کا مشال خان ہو یا کراچی کا ریحان ہو۔ یہ جب کسی کو مجرم ٹھہراتے ہیں تو پھر اسے اذیت ناک موت کی سزا سے کم کوئی سزا نہیں دیتے۔ جرم کا ارتکاب ہوا ہے یا نہیں ہوا، کیا صحیح ہے اور کیا غلط یہ ان کی صوابدید پر منحصر ہے ظاہر ہے یہ فیصلہ انہوں نے خود ہی کرنا ہوتا ہے کہ کیا اچھائی ہے اور کیا برائی ہے۔

کسی گنہگار کو پتھر مارنے والا یہ تو کبھی نہیں سوچتا کہ کیا مجھ سے زندگی میں کبھی کوئی گناہ تو سر زد نہیں ہوا۔ اپنی برائیوں کو ختم کرنے سے معاشرہ کیسے سدھر سکتا ہے۔ سماج سدھار کے لیے ضروری ہے کی معاشرے میں موجود برائیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ چناں چہ اے نیکو کارو! تم جو کرتے ہو وہی کرتے رہو۔ اپنی تقصیروں اور خطاؤں کی طرف سے آنکھیں بند کر کے دوسروں کے عیب تلاش کرتے رہو۔ مجرموں اور گنہگاروں کو پکڑ کر عبرت ناک سزائیں دی دو۔ یہ بھی دھیان میں رہنا چاہیے کہ اس عمل میں درندگی کا پہلو بھی ہونا چاہیے اور انسانیت کی تذلیل کا موقع بھی ہاتھ جانے نہیں دینا چاہیے۔

کسی گنہگار کو تڑپا تڑپا کر مارنے سے کتنے نیکوکاروں کے دلوں کو تسکین ملی ہو گی کسے خبر ہے۔ یہ گنہگار لوگ پتہ نہیں اتنی جلدی مر کیوں جاتے ہیں۔ ایسا ہو کہ ان پر تشدد ہوتا چلا جائے تاکہ مارنے والوں کی اچھی طرح تسلی ہو جائے۔

ہمارے ہاں چند کم فہم دانشور احساس، شعور، رحم اور انسانیت کا راگ الاپتے ہوئے انسان کی بجائے جرم سے نفرت کا سبق پڑھانے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی کسی بات پر کان دھرنے کی قطاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینی چاہییں۔ یہ دانشور کیا جانیں کہ ہم ارضِ پاک کے باسی ہیں۔ یہاں برائی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

ہم ہر حوالے سے شدت سے بھرے رہتے ہیں اور اس شدت پسندی پر نازاں بھی ہیں۔ لہٰذا کلامِ نرم و نازک کے خس وخاشاک ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ سو گنہگار اذیت ناک موت کا شکار ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).