خارجہ پالیسی کی کامیابی کاراز؟


مودی کی سفاکی پر پاکستانی قوم نے 73 واں یوم آزادی یوم یک جہتی کشمیر کے طور پر ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے جذبے سے منایا، جب کہ 15 اگست کو بھارت کے غاصبانہ عزائم کے خلاف ”یوم سیاہ“ منایا گیا۔ کشمیر کے تنازعہ پر بھارت اور پاکستان کے درمیان 1948، 1965 اور 1999 میں تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے پاکستان کی سالمیت پر جب بھی حملہ ہوا پاکستانی قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ بہادری سے لڑی۔ 1971 کے بعد ایک بار پھر بھارت نے کشمیر کی جداگانہ اہمیت پر حملہ کرتے ہوئے غاصبانہ قبضے سے اسے اپنی ریاست کا درجہ دے کر نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں غیر قانونی مداخلت کی ہے۔

مسئلہ کشمیر پاکستان کی قومی سلامتی کا معاملہ ہے اسی لئے اسے پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا ہے مگر افسوس ہمارے حکمرانوں اور مقتدر اداروں کی ناقص پالیسیوں سے ہماری شہ رگ عرصہ دراز سے بھارت جیسے مکار اور درینہ دشمن نے دبوچ رکھی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 21 اپریل 1948 ء کو جو قراردادمنظور کی اس میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیر سے پاکستانی قبائلیوں کا انخلا، وادی سے ہندوستانی فوج کی واپسی اور جموں و کشمیر میں سرگرم تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک نگراں حکومت کا قیام کی تجاویز رکھی گئی، جو ریفرنڈم کے ذریعے معلوم کرے گی کہ کشمیری پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

کشمیرپر قبضہ کرنا نریندر مودی کا پرانا خواب تھا۔ 2014 ء میں نریند مودی وزیر اعظم کو سادہ اکثریت حاصل ہوئی جبکہ 2019 ء کے عام انتخابات میں مودی نے کھل کراعلان کیا کہ اگر انہیں واضح اکثریت ملی تو وہ آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کر دیں گے۔ مطلوبہ اکثریت ملنے پر مودی حکومت نے 72 سال گزرنے کے بعد بالآخر زبردستی کشمیر پر قبضہ کر لیا اور مقبوضہ کشمیر سے خود مختار ریاست ہونے کا آئینی حق زبردستی چھین لیا گیا۔

کشمیر اور لداخ کی صورت حال پر غور کرنے کے لئے سلامتی کونسل کے پندرہ رکن ملکوں کا خفیہ مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جو کسی باقاعدہ اعلامیہ کے بغیر ختم ہوگیا ہے۔ اجلاس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی استبداد کو روکنے کے لئے کوئی قدم اٹھانا تو ایک طرف، اس بارے میں کوئی بیان جاری کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ بند کمرے میں منعقد ہونے والے اس خفیہ اجلاس میں چونکہ پاکستان اور بھارت کے نمائندے شریک نہیں تھے اس لئے ان کے بیانات کو عمومی قومی پالیسی کا عکاس ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حیثیت ٹرمپ کے اس بیان سے واضح ہو جاتی ہے کہ اقوام متحدہ نشستن و گفتن و برخاستن کلب ہے۔ کشمیر اور لداخ ایشو پر بھی اقوام متحدہ نے یہی کچھ کیا۔ دنیا میں چین کے علاوہ کسی ملک نے باقاعدہ طور پر پاکستان کا کھل کر ساتھ نہیں دیا۔

سیاست میں ٹائمینگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اگر حکومت کشمیر ایشو پر سیاسی وابستگیوں کو بالا طاق رکھ کر احتساب کے ڈرامے، اپوزیشن ارکان کی گرفتاریوں کو کشمیر جیسے حساس ایشو پر اہمیت دیتی اور ن لیگ کے مظفر آباد کے ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے احتجاجی اجتماعات کو بھی میڈیا پر دکھانے میں بغض سے کام نہ لیتی تو ساری دنیا کو پاکستان کے اندر سے سیاسی جماعتوں کا مشترکہ پیغام بھرپور طاقت کے ساتھ جاتا۔ عمران خان نے اپوزیشن کے خلاف اس کڑے وقت میں بھی مخالفت کے محاذ گرم کر رکھے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتارکرنے اورفریال تالپور کو رات 12 بجے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے لئے کیا یہ مناسب وقت تھا۔ اپوزیشن خاص کر ن لیگ کامیڈیا پر اتنا شدید بائیکاٹ ہے کہ کشمیر میں ن لیگی وزیر اعظم راجہ فاروق حیدرجب عمران خان کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کوساری دنیا دیکھتی ہے مگر وہی کشمیری وزیر اعظم اپنی ن لیگی قیادت کے ساتھ مظفر آباد میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو انہیں پرنٹ میڈیا پر بھی جگہ نہیں ملتی۔

اپوزیشن کی تذلیل سے بیرونی دنیا کو ہماری سیاسی عدم استحکام جیسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے شاید اسی لئے بھارت نے سینہ تان کر ہمیں پیغام دیا کہ کشمیر ایشو پر پاکستان سے اب بھی بات ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کی طرف کے قابض کشمیر پر، کیونکہ بھارت کی طرف کا کشمیر تو اب ہندوستان کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔

بھارت اس خطے میں امریکا کا طاقتور تھانیدار بن چکا ہے، اسی لئے امریکا بھارت کو ہر طرح سے مضبوط بنانے میں اس کی جائز و ناجائز باتیں مان رہا ہے۔ لیکن افسوس پاکستانی قیادت امریکا کو ہر دور میں اپنا خیر خواہ اور ”ثالث“ سمجھنے کی غلطی کرتی آئی ہے۔ حالیہ کشمیر ایشو سے پہلے عمران خان نے بھی امریکہ کی خاطر ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے سلامتی کونسل کی نشست کے لیے ہندوستان کی حمایت کی، پاکستان کی فضائی حدود کو ہندوستانی طیاروں کے لیے کھولنے کے علاوہ حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو دہشت گردوں کا سہولت کار بنا کرواشنگٹن اور دہلی کو اپنے اخلاص کا یقین دلایا گیا۔

صدر ٹرمپ کا کشمیر ایشو پر ثالث بننے کے بیان پرعمران خان نے کہا تھا کہ اگر امریکی صدر کی کوششوں سے دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی کم ہوجائے تو خطے کے ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگ صدر ٹرمپ کو دعائیں دیں گے۔ ایک ایٹمی طاقت رکھنے والا مضبوط دفاع کے حامل ملک کے وزیر اعظم کواپنے ملک کی سلامتی کے ایشو پر اس طرح کمزور انداز سے بات کرنا زیب نہیں دیتا۔ سفارتی محاذ پر کامیابی کے لئے کیا ہمیں اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ممالک کا ہنگامی دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

شوکت خانم فنڈ ریزنگ کے لئے اگرحکومت کے وزراء اور سینئٹرز دنیا کے دورے کر سکتے ہیں تو پاکستان کے لئے ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔ کیا یہی راز ہے خارجہ پالیسی کی کامیابی کا؟ تحریک انصاف کو 2018 کے انتخابات میں 22 کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ایک کروڑ ستر لاکھ لوگوں نے ووٹ دیے ہیں۔ عمران خان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ تحریک انصاف کے نہیں بلکہ پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ملکی مفاد میں اہم ایشوز پر اپوزیشن کو ساتھ لے کر فیصلے کرنے چاہیے۔ پچھلے کئی سالوں سے ہمیں اس تلخ حقیقت کا سامنا کہ اگر آپ کے ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے ہاتھ میں کشکول ہے تو دنیا آپ کے ایٹم بم کو شب برات پرچلنے والے پٹاخے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).