پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود: مکتب کی کرامات  سے فیضان نظر تک


حصول علم کی خاطر گھر سے نکلے کئی دہائیاں بیت گئیں لیکن والدین کی ایک نصیحت آج تک ذہن نشین ہے: ہر صورت میں اساتذہ کی عزت کرنا ورنہ اپنی زندگی میں عزت حاصل نہیں کر سکو گے۔ یہ نصیحت اگلے روز ملنے والی ایک خبر سن کر ذہن میں لہرائی۔ ماہر امراض غدود (اینڈوکرائنولوجی) اور معروف معلم، ڈاکٹر فیصل مسعود انتقال کر گئے۔ زمانہ طالب علمی میں مرحوم ہمارے کالج کے پرنسپل تھے اور ان سے منسوب بہت سی یادیں زندگی کا حصہ ہیں۔ میڈیکل کالج کے ابتدائی سالوں میں ان کے متعلق بہت کچھ سنا تھا اور ان سے سالانہ تقریری یا کھیلوں کے مقابلوں کے علاوہ کہیں ٹاکرا نہیں ہوا تھا۔ کھیلوں کے تقسیم انعامات کے روز پروفیسروں کی ریس ہوتی اور ہر سال بغیر دھاندلی کے دھان پان سے پرنسپل صاحب اول آتے۔ تقریری اور دیگر مقابلوں میں جب وہ خطاب کرتے تو برملا کہتے کہ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا اور بعد ازاں انہیں اس بات کا قلق رہا۔ اپنے تجربے کے پیش نظر وہ طلبا کو نصیحت کرتے کہ باضابطہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر سرگرمیوں میں حصہ لیں تاکہ وہ صرف اچھے ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ اچھے انسان بھی بن سکیں۔ ان کا مرغوب فقرہ ہوتا تھا کہ آرٹ اور سائینس ایک دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتے۔

سال سوم میں وارڈ جانا شروع کیا تو ان کے جوہر کھلے۔ نشتر میڈیکل کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور ان کا معلمانہ انداز ملتان کی بجائے برطانیہ والا تھا۔ مریضوں کے معائنے کے دوران ہر ممکن تفصیل پر نظر رکھنے کا سبق ہم نے ان سے سیکھا۔ انہوں نے ایک کلاس میں مریض کے کمرے میں داخلے اور کرسی پر بیٹھنے کے بعد ایک لفظ بھی منہ سے نکالنے سے قبل تشخیص پر بات کی کہ کس طرح ہم صرف چال سے کچھ بیماریاں اور فالج کی مختلف اقسام پہچان سکتے ہیں۔ اگلا لیکچر مریض سے پہلے جواب کے متعلق تھا کہ اس پہلے جملے کی بنا پر ہم کون سی بیماریوں کی علامات پہچان سکتے ہیں۔ بلڈ پریشر پر لیکچر کا آغاز فزکس کے اصولوں سے کیا تاکہ کہانی کے تمام جز سمجھائے جا سکیں۔

راقم چونکہ فطرتاً متجسس ہے اور ان کے چال والے لیکچر سے کچھ دن پہلے ایک مریض کی انوکھی چال دیکھ کر اس کی ویڈیو بنا لی تھی۔ لیکچر کے بعد تیز رفتار پرنسپل صاحب کا تعاقب کیا کہ ان سے سوال کیا جائے اور ان کے آفس تک پہنچ گئے۔ انہوں نے پروٹوکول کے خلاف ہمیں دفتر میں بلایا اور ویڈیو دیکھ کر بتایا کہ اس مریض کے دماغ کے کس حصے کو فالج نے متاثر کیا تھا۔ ذیابطیس اور اس کے علاج پر انہیں عبور حاصل تھا اور سروسز ہسپتال لاہور میں آج بھی ان کے نام سے ایک مخصوص شعبہ صرف ذیابطیس کے علاج اور تحقیق کے لئے مختص ہے۔

برادرم عمر فیاض نے ان کے ساتھ کافی وقت گزارا اور ان کے مطابق پرنسپل صاحب ادب اور موسیقی میں کلاسیکس کے رسیا تھے اور موزارٹ سے انہیں خاص عقیدت تھی۔ عام طور پر میڈیکل پروفیسر اس قسم کے شوق نہیں پالتے لہٰذا پرنسپل صاحب کئی دفعہ اپنے آپ کو مس فٹ شمار کرتے۔ فیض صاحب کے پوتے ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی نے ان کی وفات پر مضمون میں لکھا کہ ایک دن انہوں نے ہاشمی صاحب کو سنسکرت کہانیوں کی کتاب بیتال پچیسی پڑھنے کا چیلنج دیا جو انہوں نے قبول کیا۔ اس کے علاوہ انہیں نت نئی ٹیکنالوجی سیکھنے اور سمجھنے کا شوق تھا۔ اس کا ایک مظہر ان کے بائیں کان سےہمہ وقت ملحق بلو ٹوتھ ہیڈ فون تھا۔ وہ ہر مریض کو پوری توجہ دیتے چاہے وہ ایک ایم این اے ہو یا عام شہری۔ پنجاب میں ڈینگی کی وبا پھیلی تو اس کے روک تھام کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے والی کمیٹی میں فیصل مسعود بھی شامل تھے اور بعدازاں انہیں اس بنا پر ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔

ان سے میرا تعلق بحیثیت استاد کے علاوہ بحیثیت پرنسپل بھی رہا۔ جب ہم نے پہلی دفعہ آل پنجاب کوئز میں اول انعام حاصل کیا تو انہوں نے ہمیں باقاعدہ طور پر چائے کے لئے بلایا اور شاباش دی۔ ان کی اشیرباد سے ہم نے بذات خود اور سلیکٹر کے طور پر کئی طلبا کو کوئز اور دیگر مقابلوں میں بھیجا اور کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ دو مواقع (سیلف فائنانس تحریک اور ڈاکٹروں کے حقوق کی تحریک) پر وہ ہمارے مخالف کیمپ میں تھے لیکن انہوں نے کبھی ہمیں ذاتی نقصان نہیں پہنچایا۔ ہم آخری سال میں تھے تو انہوں نے فلسفہ کلب شروع کیا اور جب ہم نے شمولیت کی اجازت مانگی تو انہوں نے پڑھائی پر دھیان دینے کا مشورہ دیا۔ کالج کی نئی عمارت ان کی محنت اور لگن کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی تھی اور اس کے باقاعدہ افتتاح پر راقم نے اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کی کاوشوں کو سراہا تھا۔

انسان خطا کا پتلا ہے اور ڈاکٹر فیصل مسعود اس اصول سے مستثنیٰ نہ تھے۔ خودی اور خودپسندی کے مابین جو تقسیم ہے، اس میں وہ خود پسندی کی جانب جھکاؤ رکھتے تھے۔ ان میں ایک نسلی اور صنفی تعصب تھا جس کا اظہار انہیں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے طلبا کو دیے گئے انٹرویو کے دوران کیا۔ اس انٹر ویو میں انہوں نے اپنا “وارث” نہ ہونے کا شکوہ کیا (کیونکہ ان کی اولاد تین بیٹیوں پر مشتمل ہے) اور اپنے کشمیری اور سیدزادہ ہونے پر فخر کیا۔

علی مدیح ہاشمی نے علامہ اقبل کے متعلق لکھا کہ جب سرکار برطانیہ نے انہیں شمس العلما کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو علامہ صاحب نے مولوی میر حسن کا نام پیش کیا۔ سرکار نے مولوی صاحب کی تصانیف کے بابت دریافت کیا تو علامہ نے فرمایا کہ میں ان کی تصنیف ہوں۔ راقم کو اس درجے کی عقیدت اور شاگردی نصیب نہیں ہوئی لیکن اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ضرور پیش آیا۔ کچھ سال قبل پنجاب کے ایک سرکاری میڈیکل کالج میں اساتذہ کی بھرتی ہو رہی تھی اور ہم بھی امیدواروں کی فہرست میں شامل تھے۔ انٹرویو کے روز وہاں پہنچے تو سینکڑوں افراد اپنی ڈکریاں اور دیگر سرٹیفیکیٹ اٹھائے وہاں گھوم رہے تھے۔ انٹرویو کے دوران پینل نے ہم سے ایک فرضی کلاس کو لیکچر دینے کا کہا تو ہم نے بلڈ پریشر کا موضوع چنا اور کچھ منٹ اس پر بات کی۔ انٹرویو کرنے والوں نے پھر پوچھا، آپ کے پسندیدہ استاد کون ہیں، تو ہم نے فیصل مسعود صاحب کا نام لیا، جس پر دو پینل ممبران زیر لب مسکرائے اور اس کے بعد انٹرویو ختم۔ دو ہفتے بعد میرٹ لسٹ لگی تو سینکٹوں امیدواروں میں پہلا نام میرا تھا۔ اور یہ مکتب کی کرامت سے زیادہ فیضان نظر تھی۔

عبدالمجید عابد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عبدالمجید عابد

عبدالمجید لاہور کے باسی ہیں اور معلمی کے پیشے سے منسلک۔ تاریخ سے خاص شغف رکھتے ہیں۔

abdulmajeed has 36 posts and counting.See all posts by abdulmajeed