ذات کی تلاش


اس عالم خاک و باد میں جب سے آنکھ  کھولی، جادہ حیات کے کچھ مرحلے طے ہو چکے ہیں۔ ان مرحلوں میں مسرتوں کے چہچہے ہیں تو غموں کے لہریے بھی۔ یافت کی لذتیں ہیں تو نایافت کی اذیتیں بھی۔ وصال کی حکایتیں ہیں تو فراق کی شکایتیں بھی۔ غرض روح و جسم پر بیتے ہوئے جاں گسل مرحلوں اور دل نواز لمحوں کی بہت سی کہانیاں ہیں۔

کشمکش حیات میں جس چیز کی سب سے زیادہ تلاش رہی ہے وہ اپنی ذات ہے۔ باطن کا سفر نئے جہانوں اور نئی ابعاد کی دریافت کا سفر ہے۔ یہ تلاش اس وقت سے جاری ہے جب سے شعور نے آنکھ وا کی ہے۔

پھولی ہوئی سرسوں، بیلوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی آواز، درختوں کے جھنڈ، نہر کا کنارا اور گاؤں کی جلتی بلتی، خاک اڑاتی گلیوں کے پس منظر میں شعور نے آنکھ کھولی تو زندگی میں یک گونہ سکون تھا۔ گاؤں کی چھوٹی سی دنیا تھی۔ سادہ طبیعت لوگ تھے۔ محبت کا چلن تھا، طبیعتیں حرص و ہوا سے نفور تھیں۔ چھکڑے کے پہیے کی رفتار کے ساتھ وقت گزر رہا تھا۔ جب میری آنکھوں نے چیزوں کو پہچاننے کا عمل شروع کیا تو ایک عجب سا تحیر تھا جو مجھے ہر وقت گھیرے رہتا تھا۔ ہر شے میرے لیے نئی اورانوکھی تھی اور ایک حد تک اجنبی بھی۔ گرد و پیش میں ہر چیز کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا اور مبہوت رہ جاتا۔ تحیر بچپن کے عالم کا غالب ترین عنصر ہے اور یہ انسان کی بڑی ہی قیمتی متاع ہے۔ آسمان سے پانی برسا تو پیاسی مٹی سے ایک عجیب طرح کی خوشبو اٹھی جس نے دل و دماغ کا احاطہ کر لیا۔ جی چاہتا تھا کہ میں بھی اس مٹی میں  رل مل جاؤں تاکہ بوندیں پڑنے پر میرے وجود سے بھی ایسی ہی خوشبو اٹھے۔ مٹی کی اس خوشبو نے ابتدائے شعور ہی سے زمین کے ساتھ میرے رشتے کو مستحکم کر دیا۔ کھیل ہی کھیل میں مٹی کے گھروندے بنا بنا کر ڈھا دیتے تو کچھ غم نہ ہوتا کہ دل نفع و نقصان کے تصورات سے شناسا نہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساس ہوا کہ گھروندوں کا بننا بگڑنا تو پوری زندگی کا ایک مسلسل عمل ہے۔ ہم خواہشوں کے گھروندے تعمیر کرتے ہیں اور کچھ نامعلوم طاقتیں انھیں ڈھا دیتی ہیں۔

میرا بچپن بھی عام بچوں جیسا ہی تھا، انھی کی طرح مجھے بھی کہانیاں سننے کا بڑا شوق تھا۔ ان سیدھی سادی کہانیوں کو سن کر تخیل نے بہت سے جہانوں کی سیر کی۔ الف لیلہ اور طلسم ہوش ربا کی کچھ کہانیاں پڑھیں تو خود کو طلسمی قالین پر اڑتے، ان دیکھے جہانوں کی سیر کرتے پایا۔ کتنی ہی بار شہزادی کو دیو کے قبضے سے رہائی دلائی۔ حقیقت کی دنیا میں تجربات اگرچہ برعکس رہے۔ مقصد زیست کی شہزادی ہمیشہ ہی کسی جن کی قید میں رہی ہے اور بہت کم مہم جو شہزادے اسے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دنیا میں حاتم طائی کم اور منیر شامی بہت زیادہ تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

سکول کے زمانے میں تاریخ اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو ان ریگزاروں میں پہنچ  گیا جو مجاہدوں کے گھوڑوں کے سموں تلے روندے جا رہے تھے۔ دل نے بارہا خواہش کی کہ وہ ان گھوڑوں کی ٹاپوں سے اٹھنے والے گردو غبار میں تحلیل ہو جائے۔ مطالعہ تاریخ کے دوران میں آنکھوں نے عروج و زوال کے بہت سے معرکے دیکھے۔ بے کسی عشق پہ بارہا رونا آیا۔ آنکھوں نے کربلا سے لے کر بغداد، غرناطہ اور دہلی مرحوم کے مزاروں پر بہت اشک فشانی کی۔ انسانوں کی عظمت و ذلت کی داستان پڑھ کر حیرت ہوئی کہ خدا کی بہترین مخلوق اس قدر متفاوت کیوں ہے؟ حسین بن علی اور حجاج بن یوسف دونوں ایک ہی اسم ذات سے کیوں موسوم کیے جاتے ہیں؟

شعر پڑھنے کا شوق ورثے میں ملا تھا۔ بانگ درا کی ابتدائی نظموں اور مسدس حالی کے بہت سے اشعار ازبر ہو گئے تھے۔ اقبال کے اشعار سمجھ میں آئے بغیر بھی بہت لطف انگیز تھے۔ نویں جماعت میں جب غزلیہ شاعری سے تعارف ہوا تو غم کی لذت و حلاوت میں گھلے ہوئے اشعار بڑے کیف آور معلوم ہوئے۔  ان اشعار نے طبیعت میں گداز پیدا کیا اور مجھے انسانی زندگی میں غم کی حقیقت، اس کی قوت اور کارفرمائیوں کا احساس ہوا۔ غم کی خوراک سے انسان کی تخلیقی قوتیں نشو و نما پاتی ہیں جب کہ مسرتوں کا ہیجان ان قوتوں کو پژمردہ کر دیتا ہے۔ اس وقت سے شعر میری تنہائیوں کا رفیق و دم ساز ہے۔ میرا یہ احساس پختہ ہو چکا ہے کہ گو زندگی غم و مسرت کا مرقع ہے مگر غم ہی زندگی کی واحد پائیدار حقیقت ہے۔ اس کا نغمہ خوشی کے نغموں سے شیریں تر ہے۔ بقول فانی کے

کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو

عمر کا یہ وہ دور تھا جب کتابوں میں لکھی اور بزرگوں سے سنی ہوئی تمام باتیں سچ معلوم ہوتی تھیں۔ ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھنے، اسے جانچنے اور پرکھنے کی تکلیف دہ استعداد ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس وجہ سے زندگی میں زیادہ تر باتیں اچھی ہی دکھائی دیتی تھیں۔ مگر جوں جوں لفظوں سے آشنائی بڑھتی جا رہی تھی، بچپن کی معصوم حیرتوں کا سلسلہ سکڑتا جا رہا تھا۔ ہر چیز کو جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کا جذبہ بیدار ہو رہا تھا۔ ذات کے جزیرے جن سمندروں میں واقع تھے ان میں اضطراب کی لہریں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں لیکن ابھی ان کے ساحل طوفانی لہروں کی یلغار سے محفوظ تھے۔ ان جزیروں کی زمین زرخیز اور کشت خیال سرسبز تھی۔ ماں باپ سے ورثے میں ملے ہوئے اپنے لیے عقلی دلائل فراہم کر چکے تھے اور میں ذہن کے اس ارتقا سے مطمئن تھا۔

اس اطمینان کے ساتھ میں کالج آ گیا۔ یہاں آ کر زندگی کی رفتار یکایک تیز ہو گئی اور وہ مشینی دور میں داخل ہو گئی۔ جہان حیات کی کچھ نئی جہتیں سامنے آئیں۔ کچھ چیزیں ابھر کر پیش منظر میں آ گئیں، کچھ دبک کر پس منظر میں چلی گئیں۔ اس وقت شباب کی صبح طلوع ہو رہی تھی۔ ماحول کی چمک دمک نے نگاہوں کو خیرہ کیا اور زندگی لاابالی پن کی ڈگر پر چل نکلی۔ کچھ عرصہ بعد جب اس ماحول کا بنظر غائر مطالعہ کیا، انسانوں کی دل چسپیوں کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہو ا کہ یہ تمام قصر بے بنیاد ہے۔ لوگوں کی اکثریت حیوانی سطح پر زندگی گزار رہی ہے۔ حیات چند روزہ کا مقصد چہرے کی صفائی اور بدن کی فربہی تک محدود ہے۔ لوگ بلند تصورات اور اعلیٰ مقاصد سے بے خبر ہیں۔ یہ دیکھ کر طبیعت میں ابا پیدا ہوا۔ مجھے ہر اس چیز سے نفرت ہو گئی جس سے لوگ محبت کرتے تھے اور ہر اس چیز سے محبت ہو گئی جسے لوگ ناپسند کرتے تھے۔

زندگی کی اس عام ڈگرسے ہٹ کر ایسی روش پر چلنے کا سوچا جس پر چلنے والے چاہے کم ہوں لیکن ان کی نگاہیں بلند اور مقاصد جلیل ہوں اور وہ زندگی کی تہذیب کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی اثنا میں مجھے ایک مقصد حیات ملا اور میں اس کی ترویج کے لیے جدو جہد میں مشغول ہو گیا۔ خوشی اس بات کی تھی جان جوکھوں میں ڈالے بغیر ہی مقصد کی شہزادی مل گئی تھی

دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے

مگر کچھ عرصے بعد ایسا زلزلہ آیا کہ عقاید و تصورات کے تمام محل زمیں بوس ہو گئے۔ جو محکمات تھے وہ شبہات کی زد میں آ گئے۔ یہاں تک کہ وجود باری ہی محل نظر ہو گیا۔ ذات ریزہ ریزہ ہو کر  بکھر گئی۔ شاہراہ حیات پر میں اس لٹے پٹے مسافر کی طرح کھڑا تھا، جو منزل کا پتہ کھو چکا ہو اور واپسی کا راستہ مسدود ہو۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد عقل نے وجود باری کو تو تسلیم کر لیا مگر اضطراب نے غالب کے الفاظ میں یہ سوال کر دیا
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

تخلیق کائنات کا مسئلہ ایک لاینحل معمہ بن گیا۔ انسان زمین پر کیوں بھیجا گیا؟ آزمائش سے مقصود کیا ہے؟ جزا و سزا کیا ہے؟ خدا اگر خیر ہے تو شر کیا ہے؟ یہ تمام سوالات افکار کے سمندر میں مدوجزر پیدا کر رہے ہیں۔ ذات کے جزیرے تشکیک و ریب کی طوفانی لہروں کی زد میں آ چکے ہیں۔ جادہ حیات پر میں یکہ و تنہا کھڑا ہوں اور مقصد زیست کی شہزادی ایک بار پھر جن کے قبضے میں جا چکی ہے۔ میری زندگی کا ایک دور مکمل ہو چکا ہے، اس میں جو پایا تھا اس کا بہت بڑا حصہ کھو چکا ہوں۔ معرفت ذات کا سفر نئے سرے سے شروع کر رہا ہوں۔ ڈیکارٹ کی طرح اس سفر کا آغاز شک سے ہو رہا ہے۔ جو کچھ مجھے نظر آتا ہے وہ ہے یا نہیں؟ ایک چیز کی حقیقت پر میرا یقین ہے اور وہ میرا اپنا وجود ہے۔ مگر یہ وجود کیا ہے؟ اس وجود کا خارج میں موجود کائنات سے کیا رابطہ ہے؟

مجھے حاتم طائی کی طرح یہ تمام سوال حل کرنا ہیں، تب کہیں جا کر ساتواں در کھول کر شہزادی کو رہائی دلانا ہے۔ میں صداقت کے متلاشی قلب، علم کی لاٹھی اور عقل کا چراغ لے کر کوہ ندا کے اس سفر پر روانہ ہو رہا ہوں۔ مگر فلابئیر کے الفاظ میں “مستقبل میرے لیے ایک تاریک اور اندھی گلی ہے جس کے اختتامی دروازوں پر بڑے مضبوط قفل پڑے ہوئے ہیں”۔

یہ تحریر میں نے اپنی چھبیسویں سالگرہ کے موقع پر لکھی تھی جو پرانے کاغذات سے مل گئی ہے۔ اس وقت بس اتنا کہنا ہے کہ سفر ہنوز جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).