ماما جی اور اسلامی امہ کا چورن


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ عرب ملکوں میں ایک چورن کی دکان ہوا کرتی تھی، جہاں ”مسلم امہ“ نام کا چورن بکا کرتا تھا، یہ وہ وقت تھا جب دنیا کے دو بڑے دیش ”امریکہ اور روس ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسائے رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک روس کو شامت نے گھیرا تو اس نے افغانستان کے کوہساروں میں ڈیرے ڈال دیے۔ دوسرے امریکہ نے سارے مسلمان ملکوں کو اس چورن کی دکان پر اکٹھا کیا۔ روس کی اسلام دشمنی پر افسوس کا اظہار کیا اور وہاں اپنی زنبیل سے جہاد کا جھنجھنا نکال کر بجایا۔

یہ جھنجھنا اس بڑے یعنی کہ امریکہ کے ذاتی بڑھئی اسرائیل نے بنایا تھا، جس پر کچھ فلسطینی جانداروں کے خون سے سرخ رنگ بھی کیا گیا تھا، اور بڑے خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ امریکہ نے ان عربوں اور مسلمانوں کو افغانستان میں جا کر جہاد جہاد کھیلنے پر راضی کر لیا۔ سب میں چورن بھی بانٹا گیا۔ تو اس وقت عرب دیشوں کے جو جو بھی شرارتی کاکے تھے، انہوں نے ان کو کچھ درہم و دینار دے کر وہیں پر بھیج دیا کہ، جاؤ اپنا شوق پورا کرو، ہمارا سر مت کھاؤ۔

افغانستان کے پڑوس میں ایک غریب ملک تھا، جو خود کو سب اسلامی دیشوں کا ماما اور چاچا سمجھتا تھا۔ حالانکہ اس کے سارے بھانجے اور بھتیجے اسے چوہڑا چمار سمجھتے تھے، کیونکہ ماما جی کے بیٹے جب کبھی ان رشتہ داروں سے ملنے یا کسی کام سے ان کے گھر جاتے تھے، تو ان عربوں کے بچے انہیں حقارت سے مسکین اور رفیق کہہ کر بلاتے تھے۔ لیکن ماما جی کے بچے پھر بھی دوسروں کے آگے اپنے امیر رشتہ داروں سے اپنی رشتہ داری جتلا کر ان پر رعب جھاڑنے کی کوشش کرتے تھے۔

تو صاحبو اس دکان کا چورن سب کو ملا تھا، کسی نے چاٹ کر کلی کر لی، کسی نے سب کی نظر بچا کر پڑیا ہی پھینک دی تو کسی نے قے کر دی اور کسی نے زبان نکال کر آنکھیں بند کر کے برا سا منہ بنا کر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، مگر ماما جی کو اس چورن کی ایسی چاٹ لگی کہ وہ ان کے لئے مثل افیم ہو گیا تھا۔ ماما جی وہ چورن کھا کر ایسے مدہوش ہوتے کہ، وہ عرب ملکوں کے لونڈے لپاڑے سب مل کر جہاد جہاد کھیلتے کھیلتے۔ خوب اودھم مچاتے، حالانکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ اپنی غلیلوں سے پتھر مار مار کر روس کو زچ کرنا ہے، لیکن وہ شریر کبھی کبھی گہری نیند کے مزے لیتے ہوئے ماما جی کو بھی دو چار جوتے لگا دیتے، لیکن ماما جی ٹن ہی رہتے، اور بچوں کی شرارت سمجھ کر اسے نظر انداز کر دیتے۔

ہاں کبھی بہت برا مان گئے، تو ان لونڈوں کے بڑے آ کر ماما جی کی جیب میں کچھ ریال، درہم و دینار ٹھونس دیتے، اور ساتھ ہی گال تھپتھپا کر بچوں کا خیال رکھنے کا کہہ دیتے۔ ماما جی فوراً اس دکان کی طرف دوڑتے اور سارے پیسوں کا چورن لے کر دوبارہ پھانکنے بیٹھ جاتے۔ وقت گزرتا رہا، ماما جی چٹے ویہلے تھے۔ کام وام تھا کوئی نہیں، ان دونوں بڑے لڑاکوں روس اور امریکہ میں سے ایک تھک گیا، اور اب دوسرے کو شامت اسی پہاڑی دیش افغانستان میں گھسیٹ لاِئی۔

اب اس بڑے یعنی امریکہ کو اس جہادی جھنجھنے کی آواز اور ان شرارتی لونڈوں لپاڑوں کے شور سے الجھن ہونے لگی، بلکہ اب تو اس نے ان شریر بچوں کو برا بھلا بھی کہنا شروع کر دیا تھا اور اگر قابو میں آ جاتے تو دو چار چانٹے بھی لگا دیتا تھا۔ اب وہ ان کو سمجھاتا تھا کہ اب تم بڑے ہو گئے ہو، یہ کھیل کود بند کرو۔ ادھر ماما جی کو اس کے پڑوسی نے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ برسوں پہلے اس نے ماما جی کی بیٹھک پر قبضہ کر لیا تھا۔

لیکن ماما جی اس سے تو تو میں میں کرنے کی بجائے عربوں کے شرارتی بچوں کے ساتھ کھیل میں مگن رہتے اور جیب سے چورن نکال نکال کر چاٹتے رہتے۔ یہ ناہنجار پڑوسی روز ماما جی کے گھر میں پتھر پھینکتا، مارنے پیٹنے کی دھمکیاں دیتا، کبھی دیوار کی بنیاد کھودنے لگ جاتا اور دوسروں کے سامنے اسے برا بھلا کہتا۔ ماما جی بچا کچھا چورن نکالتے تھوڑا سا چاٹ لیتے، اور کچھ دیر کے لئے دنیا کے دکھوں سے مکت ہو جاتے۔ وقت بدل چکا تھا، اب تو جہاد کے جھنجھنے بیچنے والے بنجارے نے بھی آنکھیں پھیر لی تھیں۔

ماما جی کے پاس چورن بھی ختم ہونے والا تھا، کہ ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کے مصداق ماما جی کے جھگڑالو اور گھمنڈی پڑوسی نے ماما جی کی بیٹھک پٹواری سے ساز باز کر کے اپنے نام کروا لی۔ ماما جی پر تو غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ پہلے بات صرف قبضے تک تھی۔ تو تکار ہو جاتی تھی پر کچھ نہ کچھ بھرم تو بچا ہوا تھا۔ اور پھر چورن بھی تو تھا۔ تھوڑا سا پھانک لیا، اور کچھ دیر کے لئے اس ناہنجار پڑوسی کا خیال دل سے نکال دیا، مگر اب کیا کیا جائے، ماما جی سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے۔

ماما جی نے کئی دروازے کھٹکھٹائے، مگر کون پرائے جھگڑے میں ہلکان ہو۔ سرپنچ جی کے پاس گئے، انہوں نے بھی مصروفیت کا بہانہ کر دیا۔ ماما جی ٹھہرے پرانے خیالات کے، وہی آزمودہ نسخہ آزمانے کی ٹھانی اور تھوڑا سا چورن لینے کے خیال سے دکان کا راستہ لیا۔ راستے میں اس بدبخت پڑوسی کے خلاف اپنے امیر رشتہ داروں کی حمایت لینے کے منصوبے بھی بناتے گئے۔ ماما جی گرتے پڑتے دکان والی جگہ پر پہنچ گئے، لیکن آگے والا منظر دیکھ کر ماما جی کی دنیا اندھیر ہوگئی۔

وہ دکان تو کب کی بند ہو چکی تھی۔ دکان کے پرانے لکڑی کے کواڑوں پر کالا موٹا لوہے کا تالا ماما جی کا منہ چڑا رہا تھا۔ ماما جی شاید یہ صدمہ بھی سہہ جاتے، لیکن دکان کے ساتھ والا منظر دیکھنے کی تاب کہاں سے لاتے۔ چورن والی دکان کے ساتھ ہی ایک نئی دکان کھل چکی تھی، جس پر انہی عرب لونڈوں لپاڑوں کے بڑے سفید لمبے لبادے پہنے براجمان تھے، اور ان کے آگے سجے نیلے اور پیلے ڈبوں پر، تجارت، سرمایہ کاری، باہمی مفادات، درامدات اور برامدات وغیرہ وغیرہ لکھا ہوا تھا، اور ماما جی کا جھگڑالو اور گھمنڈی پڑوسی ان دکانداروں کے بالکل درمیان بڑی شان سے براجمان تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس کو پھولوں کی مالائیں پہنائی گئی تھیں، اور اب ان عربوں کے لونڈے اسے قہوہ اور دیگر لوازمات پیش کر رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).