عمران خان: قابل بھروسا وزیراعظم


عمران خان جو کہتے ہیں وہ ان کے دل کی آواز ہوتی ہے کیونکہ انہیں اس مٹی اور اس پر بسنے والوں سے بے حد محبت ہے وگرنہ وہ کبھی بھی مغرب کی ”جھلملاتی دنیا“ کو خیر باد نہ کہتے کہ جہاں انسانوں کے ساتھ انسانوں والا ہی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ عیش و عشرت اور زندگی کا ہر رنگ اس میں موجود ہے مگر عمران خان نے سوچا کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو بھی جینے کے اس راستے پر گامزن کریں گے جس پر چل کر انہیں آسائشیں، آسانیاں اور انصاف ملیں پھر وہ ایک نئے جہان سے آشنا ہوں گے انہیں حیات نو کا احساس فضاؤں میں لیے پھرے گا۔

اب جب وہ باقاعدہ و باضابطہ طور سے اپنے اس خواب کو پورا کرنے کے لیے اختیارات کا قلمدان سنبھال چکے ہیں تو ان سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ بہت جلد عوام کو روشن دنیا میں لے جائیں گے مگر یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان کی راہ کانٹوں سے اٹی ہوئی ہے۔ قدم قدم پر رکاوٹیں ہیں، سازشیوں کی سازشیں ہیں جو ہر وقت کرتے رہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس وقت وطن عزیز تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے اس کے باوجود عمران خان حوصلہ نہیں ہار رہے اور سینہ تان کر مسائل کے آگے کھڑے ہیں۔

ایک طرف معیشت دگرگوں ہے تو دوسری جانب سرحدی خطرات ہیں جنہوں نے ترقی کے عمل کو گویا سست کر دیا ہے مگر پھر بھی کپتان کے چہرے پر خوف کے سائے نہیں منڈلائے وہ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”شکست کو میں کبھی بھی تسلیم نہیں کرتا مقابلہ کرتا ہوں۔“ لہٰذا مودی سرکار جو غنڈہ گردی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور کشمیریوں کا قتل عام جاری رکھتے ہوئے پاکستان کو خوف زدہ کرنا چاہتی ہے اس پر وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ”وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے انہیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہم تیار ہیں لڑنے کے لیے مگر امن پسند ہیں امن کو فروغ دینے کے خواہشمند ہیں۔“ مودی ہٹلر کو اس طرح کی سوچ اور فکر نا پسند ہے لہٰذا وہ انسانی خون بالخصوص مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ اکیسویں صدی کا یہ ڈریکولا بلا جھجک و روک ٹوک انسانی بستیوں میں گھوم پھر رہا ہے اور معصوم لوگوں کا لہو پی رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مہذب دنیا کیوں خاموش ہے وہ کیوں انسانوں  کے ساتھ ہونے والے مظالم پر چیخ نہیں رہی اس کے دل کی دھڑکنیں کیوں تیز سے تیز تر نہیں ہو رہیں۔ وہ ایک پرندے کو شاخوں میں الجھا ہوا تو نہیں دیکھ سکتیں مگر انسانوں کے جسموں کو ٹکڑوں میں تبدیل کرنے والے وحشیوں کو نظر انداز کر رہی ہے۔ لگتا ہے مہذب دنیا اپنی اپنی سرحدوں تک محدود ہے اسے دوسروں پر ترس آتا ہے نہ رحم لہٰذا جو ہورہا ہے اس کے نزدیک بے معنی ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ لہٰذا مودی و حشی پوری طاقت کے ساتھ کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے مگر کیا کشمیری عوام خاموشی سے اس خونی منظر کو دیکھتے رہیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں وہ ان بھارتی سفاکوں پر برق بن کر گریں گے انہیں راکھ میں بدل دیں گے کیونکہ وہ حق پر ہیں۔ ان کے گھر کو جلایا جا رہا ہے اس پر ناجائز قبضہ کیا جا رہا ہے۔

اس صورت حال میں بھی عمران خان کے ماتھے پر پسینے کی ایک بوند بھی نمودار نہیں ہوئی۔ اب انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ”بھارت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں“ اس کا مطلب واضح ہے کہ بھارت نے جو کرنا ہے کرے ہم اس کا جواب ایسا دیں گے کہ اس کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ ادھر انہیں آئے روز حزب اختلاف ہراساں کرنے کی کوشش میں لگی ہوتی ہے کہ وہ مل کر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دے گی یعنی اقتدار میں وہ آ جائے گی پھر احتساب ہو گا نہ کچھ اور یوں جو مال ہضم کیا ہے اور کیا جا رہا ہے اس سے متعلق باز پرس کا سلسلہ رک جائے گا جبکہ ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں۔

مگر اس نے ملکی نظام سیاست و ریاست میں محدود پیمانے پر ہلچل سی ضرور مچا رکھی ہے جو کہ موجودہ حالات میں انتہائی غلط ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہاں اس نے برس ہا برس تک موج مستی کی۔ اربوں کھربوں کا ہیر پھیر کیا خود کو مضبوط کرنے کے لیے مافیاز کو بھی طاقتور بنایا تا کہ ان کے ذریعے عوامی خواہشات کو دبایا جا سکے۔ انہیں احتجاج کے حق سے محروم کیا جا سکے۔ لہٰذا آج وہ سب قریباً ختم ہو چکا ہے۔ کپتان کی حکومت اور اس کے ماتحت ادارے حساب کتاب کر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کو داد دینا پڑتی ہے کہ وہ بیک وقت چار محاذوں پر ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ معیشت، معاشرت، سیاست اور سرحدی خطرات کے محاذوں پر۔ عمران خان کی طرز سیاست و حکمرانی سے لاکھ اختلاف سہی مگر وہ عوام کے لیے کچھ بہتر کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان کی پالیسیوں کی بنا پر عوام کو ہر روز نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے ان کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے مگر یہ طے ہے کہ آئندہ وہ یہ سب بھول جائیں گے اور عمران خان اور ان کی حکومت کے گن گائیں گے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ عوام کو خوشحال بنائے بغیر در پیش صورت حال میں تابع فرمان بنایا جا سکے لہٰذا عمران خان ان اندھیروں کو لازمی بھگائیں گے جنہوں نے خوشحالی کی راہوں کو گم کر رکھا ہے۔

جو لوگ مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں وہ بھی درست ہیں مگر انہیں یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بھاری قرضہ لے کر معیشت کو وقتی استحکام تو دیا جا سکتا ہے مگر مستقلاً نہیں۔ ماضی میں یہی کچھ ہوا عارضی طور سے بہت سے ”کارنامے“ سر انجام دیے گئے مگر اب ان کے اثرات سے کوئی بھی محفوظ نہیں مگر بات یہ بھی ہے کہ حکومت کا میڈیا سیل حکومت کی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں بارے عوام کو نہیں بتاپا رہا۔

۔ ۔ ۔ شاید اس کی وجہ قومی ذرائع ابلاغ کا اضطراب ہے جو حکومت کی اشتہارات کی پالیسی کے سبب پیدا ہوا ہے مگر کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لہٰذا فریقین کو مل بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ کوئی ایسی وجہ نہیں کہ انہیں ناکامی ہو۔ بہر کیف سیاسی جماعتوں، ان کے کارکنوں، ووٹروں اور سپورٹروں کو یہ پہلو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ایک برس میں حکومت کے خلاف کوئی سکینڈل نہیں سامنے آیا۔ ۔ ۔ اگر آگے چل کر کچھ ایسا ہوتا بھی ہے تو وہ نیب سے بچ نہیں سکے گا۔ بے شک نیب کی ”رفتار سراغ“ تیز نہیں مگر اس کا شکنجہ سخت ہے اس میں آنے والے دہائی بھی دے رہے ہیں لہٰذا بلاول بھٹو زرداری شہباز شریف اور دیگر سیاسی شخصیات کا یہ کہنا کہ ایک برس میں لوگوں کی کوئی خدمت نہیں کی گئی وہ کامیاب حکومت نہیں قطعی درست نہیں۔

عمومی تجزیے کے مطابق وقت ثابت کرے گا کہ وہ محض الزام لگا رہے تھے۔ حرف آخر یہ کہ عمران خان مصمم ارادوں کے مالک وزیراعظم ہیں ان پر غبن، منی لانڈرنگ اور کمیشن خوری کے حوالے سے کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اس طرح وہ پہلے وزیراعظم (بھٹو کے بعد) ہیں جو عوامی جذبے سے سرشار ہیں ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے وہ قابل قدر بھی ہیں اور قابل بھروسا بھی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).