مسز خان کو فلور کراسنگ پر مبارک باد


میں بہت اداس ہوں!

غم، رنج اور دل گرفتگی کے پنجے گاڑے اداسی روح میں سرایت کر رہی ہے!

اور ہمیں تامل ہے یقین کرنے میں کہ مسز خان کے لولوئے گلفام ہماری ہی ہم صنف کے زریں خیالات ہیں۔ پھر اقبال یاد آتے ہیں۔ اگرچہ مسز خان جیسی روایت میں گڑی بلکہ دیوار میں چنی ہوئی مستورہ کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر ایک نامحرم کا شعر پڑھنے یا سننے میں تامل ہو سکتا ہے لیکن شاید یہ سوچ کر باب الحیل کا کوئی در وا ہو کہ اقبال کچھ نہیں تو مسز خان اور ان کے شوہر نامدار کے والدین کی نسل کے بھی باوا جان ہی ٹھہریں گے۔ اقبال نے ضرب کلیم میں خواجگی کا مآل بیان کرتے ہوئے لکھا تھا

خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی

پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام

ہم جب بھی صنف مخالف کا لکھا ہوا پڑھتے ہیں تو یا ہنسی آتی ہے یا غصہ کہ بونے آدمیوں نے پھر قد بلند کرنے کی کوشش کی ایک عورت کو پاؤں میں مسل کے!

لیکن مسز خان پہ نہ ہنسی آئی اور نہ ہی غصہ! رنج ضرور ہوا، بے انتہا  اور بے حساب!

میڈیا پہ بیٹھ کے چیختی آواز میں نصیحتیں کرنا بہت آسان ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو دیکھنا اور ان کے لئے آواز اٹھانا صرف احساس اور درد مند لوگوں کا خاصہ ہے اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسز خان نے زندگی کو اپنے چھپر کھٹ کی اوٹ سے دیکھا ہے، گھونگھٹ کے پلو سے جھانکا ہے، انہیں جنوبی ایشیا میں بسنے والی عورت کی اس زندگی کا براہ راست تجربہ نہیں جس میں عورت صرف چکی کے دو پاٹوں میں نہیں پستی بلکہ سل پر رگڑ کھاتے بٹے تلے مسلسل مسلی بھی جاتی ہے۔

طب کے پیشے میں اپنے روبرو عورت کی کہانیاں سنتے برسوں بیت گئے۔ اس ریاضت میں دل بارہا پاؤں تلے آیا اور روح زخم زخم ہوئی۔ تب کہیں جا کر اپنی آواز تحریر کے ذریعے معصوم پریوں، نازک احساسات رکھنے والی لڑکیوں تک پہنچانے کی مشق شروع کی ہے، انہیں زنداں کے باہر کی دنیا دکھانے کی کوشش کی ہے، انہیں بتایا ہے وہ بغیر کسی سہارے کے پرواز کر سکتی ہیں۔

معلوم ہے مسز خان! مجھے کتنے پیغام ملتے ہیں دن میں؟ کتنی بچیاں بن دیکھے بیٹی کا رشتہ قائم کر چکی ہیں؟ میں ان کی آنکھوں میں خواب جگاتی ہوں، انہوں زندہ رہنے کی امنگ سکھاتی ہوں، انہیں کس لئے مالک نے زندگی کا تحفہ دیا ہے، یہ سمجھاتی ہوں۔ رنگوں، خوشبوؤں اور آرزوؤں پہ عورت کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی مرد کا۔

آپ نے اپنی زبان کے ایک ہی وار سے کتنی کلیاں روند ڈالیں، لہجے کی تیز دھار سے ارمانوں کے قتلے کر دیے، اور اپنی رعونت بھری انکھوں سے برستے شعلوں میں کیا کچھ راکھ کر دیا، اور آپ نے یہ سب اپنی یعنی عورت کی زبان سے کیا، اسی زبان سے جو آپ چاہتی ہیں کہ یہ معصوم لڑکیاں بند رکھیں۔

مولا علی نے فرمایا تھا ہر آنے والی نسل کا وقت مختلف ہو گا، اس لئے اسے اس زمانے کے مطابق زندگی بسر کرنا سکھاؤ۔

اکیسویں صدی میں کیا برصغیر کا صدیوں پرانا قانون دہرایا جا رہا ہے، جس کے مطابق شوہر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اگر مر جائے تو یا اس کی چتا میں زندہ جل مرو، اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو زندگی کے رنگوں، خوشیوں، ارمانوں، خواہشات کی تتلیوں پہ عورت کا حصہ اور حق ختم۔

ہم نے اپنے ارد گرد بہت سے ایسی زندہ لاشیں دیکھی ہیں۔

اور صدیوں پیچھے چلے جائیں، عرب کے ان وقتوں میں، جب ننھی بچی کی آواز برداشت سے بھی باہر تھی، تب بھی اس آواز کو زندہ منوں مٹی تلے گاڑا جاتا تھا۔ زندہ دفن ہونا، سوچتے ہی جسم پہ منوں مٹی پڑی محسوس ہوتی ہے!

بیٹی کا معصوم گلبدن، سانس لیتا ہوا جسم، روشنی دیکھتی آنکھیں، آواز سنتے کان، سب مٹی سے بھر دیے جاتے تھے، موت اس جسم پہ آہستہ آہستہ اترتی تھی اور گڑھا پاٹ دیا جاتا تھا۔ کیا کبھی کسی نے سوچا رگ جاں سے زندگی کیسے پھسلتی ہو گی؟

وقت بہت بدل چکا ہے۔ یا شاید مسز خان آپ جیسے لوگوں کے لئے نہیں بدلا، بالکل بھی نہیں بدلا!

مسز خان شاید ان زمانوں میں سانس لیتی ہیں جب عورت باندی کے روپ میں بازار میں بکنے والی جنس تھی۔ خوب چھان پھٹک کے یہ لونڈی گھر لائی جاتی تھی۔ دن میں گھریلو خدمت اور رات میں جنسی لذت، اور شرط ایک ہی تھی، زبان نہیں کھولنا۔ مالک سے وفاداری شرط ہے، اس کے بدلے میں دو وقت کی روٹی، تن ڈھانپنے کو لباس اور سر چھپانے کے لئے چھت۔

یہی ہے نا آج کے دور میں اس خرید و فروخت کا دوسرا نام… شادی! جس میں مالک محبت، عزت، احساس، درد غرض کہ ہر پہلو سے بری الزمہ! شادی قائم رکھنا صرف لونڈی نما عورت کا کام ہے زبان بندی کے ساتھ۔ اس حکم میں انحراف کی گنجائش نہیں، اور اگر ایسی کوشش کی تو یا چولہا پھٹ جائے گا، یا بچے چھین کے سڑک پہ کھڑا کر دیا جائے گا، یا جسم پر نیل اور روح پر خراشیں ہوں گی جو یاد دلائیں گی کہ مالک کیا چاہتا ہے؟ گرم روٹی، بند زبان، وحشت، ہوس اور شہوت کو ٹھنڈا کرنے کی ایک مشین۔

مسز خان!آپ آخر اتنی برہم کیوں ہیں، آپ کو بیٹی کی زبان سے خوف کیوں آتا ہے؟ معافی چاہتی ہوں، مجھے ایک لحظے کے لئے ایسا لگا کہ آپ شاید بیٹی جیسی نعمت سے محروم ہیں ورنہ یوں اپنی بیٹی برابر بچیوں کو مرد کی نظر سے کیوں دیکھتیں؟

آئیے! میں بتاؤں کہ آپ طاقت کے اس کھیل میں کس کی آلہ کار ہیں اور کیسے اس میں شامل ہوئی ہیں۔

مردانہ بالادستی کا نظام صدیوں اور زمانوں سے رائج ہے اور اس نظام کو چلانے والے مردوں کو بھی مددگاروں، کارندوں اور سٹھیائی ہوئی نائیکاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو عورت اس بھڑوا گیری میں شامل ہونے کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑی ہو کے اور آنکھ میں آنکھ ڈال کے اپنے حق کی بات کرے، وہ رانده درگاہ ٹھہرتی ہے اور طاقت کے اس کھیل میں ہمیشہ کے لیے معتوب ٹھہرتی ہے۔

طاقت حاصل کرنے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ آپ اپنی ہی جنس سے منہ پھیر کے، اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کے طاقتور کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ آپ کو ہر طرف سے شاباش ملے گی، مقام بھی بلند ہو گا، داد کے ڈونگرے برسائے جائیں گی آپ کی حمیت کی لوتھ پر، تالیاں پیٹی جائیں گی اور آپ کی طاقت حاصل کرنے کی وہ بھوک مٹے گی جو آپ کو اپنے زمانے میں نصیب نہیں ہوئی۔

کیا ہوا اگر کچھ اور چڑیا جیسی لڑکیاں زخمی ہوں گی۔

کیا ہوا اگر کچھ اور تتلیوں کے پر کاٹے جائیں گے۔

کیا ہوا اگر روزن دیوار سے آنے والا تازہ ہوا کا جھونکا اور روشنی روک دی جائے گی۔

کیا ہوا اگر کچھ اور کنیزیں دیوار میں چنوائی جائیں گی۔

کیا ہوا اگر بے جان مجسمے جیسی زندگی گزارنی پڑے گی۔

کیا ہوا اگر وقت سے پہلے ہی لڑکیاں ستی ہو جائیں گی۔

کیا ہوا اگر مردہ دل روحیں معاشرے کا حصہ بنیں گی جن کے بطن سے مزید لونڈیاں جنم لیں گی۔

مبارک ہو مسز خان، طاقتور گروہ میں شامل ہونے پہ مبارک! اور عورت کو ایک بے روح گوشت کے ٹکڑے کا درجہ تفویض کرنے پہ صد ہزار تبریک !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).