پرانا پاکستان واپس لوٹا دو


دنیا میں کل ایک سو پچانوے ممالک ہیں، مگر صرف پاکستان کو مملکت خداداد کہلانے کا اعزاز حاصل ہے۔ مُطالعہ پاکستان کے مطابق کیوں کہ یہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا تھا اس وجہ سے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جن کا ساتھ رہنا ناممکن تھا۔ پاکستان چودہ اگست کو آزاد ہوا تھا اور بھارت پندرہ اگست کو، کہا جاتا ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔ پاکستان بننے کے بعد وسائل محدود اور مسائل بیشمار تھے۔ اگر مُطالعہ پاکستان کو بند کر کے تاریخ کی کتب کو پڑھا جاہے تو پتا چلتا ہے، بھارت ہمارا ہمسایہ ملک تھا لیکن ابھی تک دشمن ملک کے طور پر متعارف نہیں کروایا گیا تھا۔ ایک دشمن کی اشد ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، ہجرت کے دوران ہونے والے ظلم و بربریت کی داستانوں میں سے شیلا اور کماری کی بربادی تو حذف کر دی گئی، جو یقیناً کسی بابر اور عرفان کے ہاتھوں ہوئی تھیں، مگر سدرہ اور ارم کی زندگی کو تباہ کرنے والے کو مذہب کا نام لے کر دو قومی نظریے کو درست قرار دینے کی غلط مثال کے لیے استعمال کیا گیا۔

کشمیر جس کو مہاراجہ ہری سنگھ ایک آزاد ریاست بنانا چاہتا تھا، مملکت خداداد کے کرتا دھرتوں نے خون کی وادی بنا کر رکھ دیا۔ انیس سو اڑتالیس کی پاکستان بھارت جنگ میں کامیابی بھارت کو ہوئی، لیاقت علی خان نے اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتوں کے ساتھ مل کر کشمیر کو مسئلہ کشمیر بنا دیا۔

مملکت خداداد کو آزاد ہوے بہتر سال ہو چکے ہیں، ان برسوں میں اب تک سرکاری طور پر چار بار ملک مارشل لاء جھیل چکا ہے۔ جمہوریت کا یہ حال ہوا کہ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی دے دی گئی، بینظیر بھٹو کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا، اور میاں محمد نواز شریف کو دس سال کے لیے ملک بدر کر دیا گیا۔ معیشت کا ذکر کیا جائے تو ایوب خان کے دور میں منگلا اور تربیلا ڈیم، نہریں، بجلی گھر، موٹر گاڑی اور سیمنٹ کے کارخانے، مینوفیکچرنگ اور زراعت نے کافی ترقی کی، ٹیکس کلیکشن کم ہونے کی وجہ سے کاروباری افراد اور برآمد کنندگان کو فائدہ ہوا۔

ٹیکسز میں رعایت کی وجہ سے بہت سی نئی صنعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بڑی صنعتوں اور کچھ دوسرے اداروں، جیسے کہ ہیوی میکینیکل انڈسٹریز، بینکوں، انشورنس ایجنسیز، تعلیمی ادارے، کراچی الیکٹرسٹی سپلائی کمپنی کو قومی ملکیت میں لیا گیا۔ اس دور میں ملکی اقتصادی ترقی میں بہت کمی دیکھنے میں آئی۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس، پورٹ قاسم، پاکستان سٹیل ملز، اور سیمنٹ فیکٹریز بنانے کے باوجود معاشی لحاظ سے یہ دور اچھا ثابت نہ ہوا۔

ضیاء الحق کے دور حکومت میں ترسیلات زر اور غیر ملکی امداد میں اضافہ ہونے، نیز پچھلی حکومتوں کے بنائے ڈیموں اور صنعتوں کی وجہ سے ملک ناصرف زراعت میں خود کفیل ہو گیا بلکہ ملکی معیشت تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی۔ پھر حکومت بینظیر بھٹو کو ملی جن کی سیاسی اور معاشی سوجھ بوجھ نہ ہونے، اور سب سے بڑھ کر کچھ فوجی افسران کی مخالفت کی وجہ سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر منصوبہ سازی نہ کی گئی جس کا نتیجہ ملکی قرضوں، بے روزگاری اور غربت میں اضافہ کی صورت میں نکلا۔

اس کے بعد نواز شریف بھی کامیاب معاشی پالیسیز نافذ کرنے میں ناکام رہا، معاشی ترقی کی رفتار بہت کم رہی جبکہ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا۔ انیس سو ننانوے سے دو ہزارآٹھ تک پرویز مشرف کے اقتدار میں مہنگائی میں کمی، سرمایہ کاری میں اضافہ، دس لاکھ نئی نوکریوں کا اجرا، اور مستحکم ایکسچینج ریٹ رہا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگرچہ پاکستان کو امریکا سے بھاری امداد ملی، لیکن ملک میں اس جنگ سے جو خانہ جنگی کی کیفیت پیدا ہوئی اس کا بھگتان ملک کو صدیوں تک بھگتنا پڑے گا۔ بد ترین معاشی بحران اور کرپشن کی وجہ سے ملک معاشی تنزلی کی انتہا کو آصف علی زرداری کے دور حکومت میں پہنچا۔

نواز شریف کو دو ہزار تیرہ میں ملک اس حالت میں ملا کہ خزانہ خالی تھا، بجلی کی انتہائی کمی تھی، بیروزگاری انتہا کی تھی اور معاشی گروتھ زیرو تھی۔ اس سب کے باوجود نواز شریف نے اپنی دور اندیش پالیسیز کی وجہ سے بہت جلد ملک کے حالات اس حد تک بہتر کر دیے، کہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی ترقی کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے کم و بیش برابر رہی۔ بین الاقوامی کاروباری میگزیز کے مطابق پاکستان ایشیا کی ابھرتی ہوئی منڈی بنتی جا رہی تھی، غُربَت میں کمی کی وجہ سے مڈل کلاس میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور پاکستان کے متوسط طبقہ نے سب سے زیادہ معاشی فوائد اٹھائے۔ پاکستان نے معاشی طور پر ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کیں، اور اپنی خارجہ پالیسی مضبوط رکھی۔ سرمایا کاروں کو حکومت پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ ملک میں سرمایا لگانا پسند کرنے لگے۔ تعلیم اور صحت کے کئی بڑے کامیاب منصوبے دیے گئے۔

دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے نتیجہ میں تحریک انصاف نے کے پی کے میں حکومت بنائی اور الیکشن میں دھاندلی کا رونا روتے ہوئے دھرنے سے ملک کی اقتصادیات کو اپنے طور پر کم زور کرنے کی کوشش کی، غلط اعداد و شمار کو سوشل میڈیا کے ناپختہ ذہنوں کی وساطت سے پھیلایا گیا۔ دو ہزار اٹھارہ میں تحریک انصاف کو جتوانے کے بعد ملک کی معیشت بدترین دور سے گزر رہی ہے، کمزور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے صنعتی پیداوار، اور برآمدات میں کمی آئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اس حکومت سے اعتماد بالکل ختم ہو گیا ہے۔ آفرین ہے تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر جو پہلے سے کامیاب چلتے منصوبوں کو اپنی نا قص حکمت عملی اور نالائق ترین ٹیم کی وجہ سے تباہ کرنے میں لگی ہے۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور ایکسپورٹ تباہ ہو گئی ہیں۔

نامناسب الفاظ کا استعمال، اور نا اہل لوگوں کو تعلیم، صحت اور ریلوے کے اہم عہدوں پر لگایا گیا۔ بات غلط حقائق سے نکل کر غلط تاریخ اور جغرافیہ تک جا پہنچی۔ قوم حیران پریشان ہے کہ یہی تبدیلی تھی جس کے لیے دھرنے دیے گئے، کاروبار اور زندگی مفلوج کی گئی۔ ویسے تو اپنی ہر تقریر میں، عمران خان پچھلی حکومتوں کی کرپشن کی داستانیں سناتا نہیں تھکتا، تو اسے چاہیے ان حکومتوں کے دور کی کامیاب معیشت کا مُطالعہ بی کر لے، پاکستانی قوم پر یہی بہت بڑا احسان ہو گا۔

پرانی حکومتیں بہترین دماغوں کو دنیا بھر سے ڈھونڈ کر اپنی ٹیم کا حصّہ بناتی رہیں، انہی پالیسی سازوں کی بدولت ملک ہمیشہ حالت جنگ اور مارشل لا خفیہ یا علانیہ بھگتنے کے اور بے پناہ بدعنوانی کے باوجود اپنی عوام کو تعلیم، صحت، اور روزگار مہییا کرتا رہا، عمران خان اگر اپنی پالیسیز صحیح نہیں کرتا اور عام لوگوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دے سکتا تو ہمیں ہمارا پرانا پاکستان واپس لوٹا دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).