گاڑیوں کی صنعت میں بحران: حکومت کی آمدنی میں 225 ارب روپے کی کمی آئے گی، 18 لاکھ افراد بے روزگار


ڈالر کی قیمت میں اضافے، بینکوں میں سود کی شرح بڑھنے سے قسطوں پر گاڑیاں خریدنے کے رجحان میں کمی نیز گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی بڑھ جانے سے ملک میں گاڑیوں کی صنعت کو شدید بحران نے آ لیا ہے۔ گاڑیوں کی فروخت میں واضح کمی سے مقامی صنعت کار شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ آٹو سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری منجمد ہو گئی ہے۔ گاڑیوں کے کئی برانڈز نے اپنے منصوبے التوا میں ڈال دیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں 50 فیصد کمی واقع ہو چکی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔

آٹو انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ حکومت نے حال ہی میں آٹو پالیسی 2016-21 سے متصادم اقدامات کئے ہیں، اگر یہ صورت حال برقرار رہتی ہے تو آٹو پالیسی کے تحت 550,000 گاڑیوں کی پیداوار کی کوششیں ضائع جائیں گی۔ دوسری طرف گزشتہ چند برسوں میں انڈسٹری کی شرح نمو اور گاڑیوں کی فروخت کم ہونے سے حکومتی آمدنی میں سالانہ تقریباً 225 ارب روپے کی کمی آئے گی جب کہ 18 لاکھ افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔

پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق سالانہ بنیاد پر ہنڈا کی فروخت میں 66 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جولائی 2018ء میں گاڑیوں کی فروخت 4,981 یونٹس تھی جو جولائی 2019ء میں کم ہو کر 1,694 یونٹس تک محدود ہو گئی۔ اسی طرح ٹیوٹا کی فروخت میں 56 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جولائی 2018ء میں 5,468 کاریں فروخت ہوئیں لیکن جولائی 2019ء میں صرف 1,694 گاڑیاں فروخت ہو سکیں۔ سوزوکی گاڑیوں کی فروخت میں 23 فیصد کمی ہوئی۔

بجٹ میں خام مال پر پیشگی کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ اور 2.5 فیصد سے 7.5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مزید براں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ بھی آٹو انڈسٹری کے لیے تباہ کن رہا۔

ذرائع کے مطابق رواں برس مقامی آٹو انڈسٹری نے 140 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ نئی کمپنیوں نے 1.3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی۔ اب سرمایہ کاری کا عمل ٹھہراؤ کا شکار ہو گیا ہے اور انڈسٹری نے اپنی پیداوار میں بھی کمی کی ہے جس سے مقامی پرزہ جات کی خریداری میں بھی کمی واقع ہوگی۔ پرزہ جات تیار کرنے والے چھوٹے ادارے کام نہ ہونے کی صورت میں مزدوروں کی تعداد کم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ یاد رہے کہ ہنڈا نے اپنے پلانٹ کو 12 روز تک بند رکھا اور انڈس موٹر کمپنی نے پیداواری کام ہفتے میں 5 دنوں تک محدود کر دیا ہے۔ انڈسٹری کی اس خراب صورت حال میں حکومت کو ٹیکس وصولی میں ہر مہینے تین ارب روپے کی کمی واقع ہو گی کیونکہ ایک کار کی فروخت سے حکومت کو اس کی قیمت کا 33 فیصد سے 38 فیصد تک ٹیکس کی صورت میں ملتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).