احتجاج کیوں اور کس کے خلاف ہونا چاہیے؟


احتجاج پوری دنیا میں بنیادی آئینی و جمہوری حق سمجھا جاتا ہے۔ جب کبھی کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں حکومت کی پالیسیزعوامی امنگوں کے خلاف ہوتی ہیں تو لوگ اپنا بنیادی آئینی و جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور احتجاج کے ذریعے اپنی حکومت کو عوام مخالف پالیسیاں بدلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مگر کبھی کبھار حکومتیں انتہائی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے پرامن احتجاج تشدد کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ بہرحال احتجاج کسی بھی ریاست کے شہریوں کا بینادی آئینی و جمہوری حق ہوتا ہے۔ جسے شہری بوقت ضرورت استعمال کرتے ہیں۔

احتجاج کرنے کا انداز ہر ریاست میں مختلف ہوتا ہے۔ ہر ملک کے شہری اپنے مزاج کے مطابق احتجاج کرتے ہیں۔ مگر احتجاج ایک صورت جو پوری دنیا میں یکساں ہوتی ہے وہ شہریوں کا سڑکوں پر نکل آنا، روڈ بلاک کرنا، حکومتی مشینری کو بے اثر کردینا وغیرہ ہے جو تقریباً تمام ریاستوں میں یکساں ہوتا ہے۔ احتجاج کرنے میں چند باتیں یا اصول انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلی اہم بات/اصول یہ کہ شہریوں کو اپنے آئینی حقوق کا علم ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے پاکستان کی نصف آبادی سے بھی زیادہ، اپنے بنیادی آئینی حقوق سے نابلد ہے۔ دوسری اہم بات/اصول یہ ہے کہ اپنے آئینی حقوق کے لئے احتجاج کرنے کا آئینی طریقہ اور حدود و قیود کا شعور ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ بدقسمتی کہیں یا کچھ اور پاکستانی اس بات سے بھی ناآشنا ہیں۔ تیسری اور آخری اہم بات/اصول یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کے حکمرانوں کو یہ بات تسلیم کرنا ہوتی ہے کہ جو پالیسی جمہوری حکومتیں ترتیب دیتی ہیں اگر شہریوں کی اکثریت اس پالیسی کے خلاف ہے تو حکومت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں جتنی بھی حکومتیں رہی ہیں بشمول موجودہ حکومت سب نے انتہائی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کیا ہے۔

پاکستان میں احتجاج کرنے والوں کے انداز احتجاج پر بات کریں تو پتا چل جائے کہ پاکستانی کیسے احتجاج کرتے ہیں اور کس سے کیا احتجاج کرتے ہیں۔ پہلے تو پاکستان کے عوام کبھی بھی عوامی اجتماعی مسائل پر اکٹھے ہی نہیں ہوتے کیونکہ یہاں عوامی مسائل سے زیادہ پارٹی مسائل اور تعلقات کی اہمیت ہے۔ اگر بدقسمتی سے اکٹھے ہو بھی جائیں تو انہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کیا وہ ہمارا آئینی حق ہے بھی کہ نہیں۔ اگر آئینی حق ہے تو کیا ہمارا طریق احتجاج آئینی حدود میں ہے۔ اور اگر ہم احتجاج کر رہے ہیں تو ہمارا اصل مدعا کیا ہے اور یہ احتجاج کرنا کس سے بنتا ہے؟ مثال کے طور پر یہاں پاکستان میں ہونے والے حالیہ احتجاج پر بات کرتے ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آئے دن ہورہے ہیں۔

بہت سے لوگ ریلیاں نکال رہے ہیں، جگہ جگہ احتجاج ہو رہے ہیں۔ مگر کسی نے یہ تک نہیں سوچا کہ ہمارا احتجاج کس سے ہے؟ اور اس احتجاج سے کشمیریوں کو کیا فائدہ ہونا ہے؟ اگر یہ احتجاج ملک کے اندرونی مسائل پر ہوتا تو حکومت مجبور ہوکر اپنی پالیسی بدل دیتی۔ مگر چونکہ یہ اندرونی مسائل نہیں بلکہ بیرونی ایشو ہے، معذرت کے ساتھ بیرونی ایشو اس ضمن میں کہا کہ پاکستان کی کوئی پالیسی یا انتظامیہ کا براہ راست مقبوضہ کشمیر میں کوئی اثرورسوخ یا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ ویسے تو کشمیر ایشو پاکستان کا بنیادی اور اندرونی ایشو ہی ہے۔

جتنے بھی لوگ احتجاج کر رہے ہیں ایسی صورت میں احتجاج کرتے ہوئے انہیں ایک چیز مدنظر رکھنی چاہیے۔ وہ یہ ہے پاکستانیوں کے احتجاج سے کشمیریوں کو سوائے ہمدردی کے اور کوئی فائدہ نہیں پہنچنا اور نہ ہی بھارت یا عالمی برادری کو پاکستان میں ہونے والے احتجاج سے کوئی فرق پڑسکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان براہ راست کشمیر ایشو میں فریق ہے اور فریق کا احتجاج کرنا داد رسی کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ عالمی برادری پاکستان کو فریق سمجھتی ہے اسی لئے پاکستانیوں کے احتجاج کو عالمی برادری سے داد رسی کی اپیل ہی سمجھا جائے گا۔ اگر یہ احتجاج دنیا کے دیگر ممالک میں ہوتے تو شاید عالمی برادری اس پر غور کرتی۔ حالانکہ پاکستانی وزیرخارجہ دنیا کے کسی کونے میں کشمیریوں کے حق میں کوئی بہت بڑا احتجاج کرانے میں ناکام نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے عالمی برادری پریشر میں نہ آرہی۔

اگر پاکستانیوں کو کشمیر ایشو پر احتجاج کرنا ہے تو انہیں اپنے مطالبات پر غور کرنا ہوگا۔ اب کی بار مطالبہ عالمی برادری سے نہیں بلکہ اپنی موجودہ حکومت سے کرنا چاہیے۔ عوام کو احتجاج میں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ حکومت وقت کشمیر ایشو پر سنجیدہ ہے تو کشمیریوں کی مدد کے لئے فوج بھیجے جو دنیا کا دستور ہے۔ یہی کام بھارت نے بنگلہ دیش میں کیا۔ یہی کام سپرپاور طاقتیں بھی کرتی آرہی ہیں۔ اگر فوج کا نہ بھیجنا مجبوری ہے تو پھر حکومت کشمیر ایشو پر اپنی پالیسی واضح کردے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت مسلسل ناکام نظر آرہی ہے اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو پھر عوام اجتماعی طور حکومت سے مطالبہ کریں کہ وہ مستعفی ہوجائے۔

الغرض کوئی بھی مطالبہ یا کسی قسم کا احتجاج کرنا اگر کرنا ہے تو موجودہ حکومت سے کرنا چاہیے۔ ایسے ہی سڑکوں پر نکل کر ”بھارت مردہ باد“ کے نعرے لگانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر یہ سب نہیں کرسکتے تو پھر آخری انتہائی تلخ بات جسے مجبوراً تسلیم کرلینا چاہیے کہ حکومت کشمیر ایشو پر ناکامی تسلیم کرچکی ہے جسے پوری قوم کو تسلیم کرنا چاہیے۔ بالفرض ایسا نہیں تو پھر میچ فکس ہوچکا ہے جسے کڑوا گھونٹ سمجھ کر بنگلہ دیش کی طرح پی لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).