پیٹرز برگ میں میخائل وینرا لیوچ کی کھٹی میٹھی باتیں


پیٹرز برگ کے پیٹر ہاف میں میری میخائل سے ملاقات ہوئی۔ وہ ریلنگ کے ساتھ کھڑا فن لینڈ کے پانیوں کو دیکھتا تھا۔ گورا چٹا، اُونچا لمبا، موٹا تازہ، جس نے بڑی شُستگی سے میرے پاس آ کر مجھ سے میری وطنیت کا سوال کیا تھا۔

حیرت و مُسرت سے میں نے پلکیں جھپکاتے ہوئے اُسے دیکھا اور اُس کا سوال اُسی کو لوٹا دیا۔
”میں تو رُوسی ہوں۔ “ وہ ہنسا۔
”ارے تو اُردو اتنا خوبصورت بولتے ہو۔ میں تو اندازوں میں ہی اُلجھ رہی تھی۔ “

”مجھے تو فارسی اور عربی پر بھی عبُور ہے۔ پنجابی سے بھی تھوڑی آشنائی ہے۔ میرے بُہت سال کراچی میں گزرے۔ مشرق وسطیٰ کے مختلف شہروں میں رہا۔ آج کل دبئی میں ہوں۔ آخر ی زار فیملی کا قریبی رشتے دار بھی ہوں۔ “

یہ میخائل وینرا لیوچ تھا۔

بڑی دلچسپ شخصیت تھی۔ چھوٹتے ہی مجھ سے رائے طلب کرنے لگا۔ اُس وقت میں پیٹر ہاف کے تحیرّ اور اُس کے سحر میں گُم تھی۔ اس لئے احمقوں کی طرح بول پڑی۔

”یہ شبستان ِحرم، یہ عشرت گاہیں، ظلم وجبر چیخوں اور کراہوں پر اُٹھانیں اِن کی۔ کیا بولوں؟ کیا نہ بولوں۔ “

زبردست قہقہہ گونجا تھا وہاں۔ ”خدا کے لئے اِس خود ساختہ قسم کی مظلومیت کو اتنا فنٹاسٹک رنگ مت دیجیئے۔ زار کھا پی گئے۔ پھُولوں کی سیج پر سوئے یا کانٹوں کے بستر وں پر۔ بات سادہ سی ہے کہ جن پر ظلم کیے۔ اُن کی ہی آل اولادوں کے لئے روزی کا سامان چھوڑ گئے۔ اُن کی اپنی نسلیں توذبح ہو گئیں، سان پر چڑھ گئیں یا بھاگ بھگا گئیں۔ ذرا اندازہ تو لگائیے اِن عشرت کدوں کاجن میں سے بُہت سے میوزیم بنے ہوئے ہیں۔ جہاں چپّے چپّے پر موجود اُدھیڑعُمر، بوڑھی، جوان، دیہاتی، شہری عورتیں اور مرد رزق روٹی کماتے ہیں۔

خزانوں میں دھڑا دھڑ روبل جمع ہوتے ہیں۔ عقل آ گئی ہے انہیں۔ کھول رہے ہیں دُنیا پر اپنے دروازے۔ کچھ محل ٹریننگ سینٹرز میں تبدیل ہو گئے ہیں جہاں عام آدمی کے بچے کی کِسی نہ کِسی شعبے میں تربیّت ہوتی ہے کہیں لائبریریاں بن کر علم کے قیمتی اثاثوں کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ اور آپ بھی دل پر ہاتھ رکھ کر کہئیے کہ یہ محل مینارے نہ ہوتے توآتیں یہاں۔ چجھو کے چوبارے کے لئے کون پینڈے مارتا ہے۔ وہ تو ماڑا موٹا آپ کا بھی اپنا ہوگا۔ ”

میں تو سچی با ت ہے۔ دل کھول کر ہنسی تھی۔ یہ رُخ تو مانو جیسے آنکھ اوجھل دماغ اوجھل تھا۔

کوئی ساتھ ہے یا اکیلے۔ ابھی بات پور ی بھی نہ ہوئی تھی کہ اُس نے درمیان سے ہی اُچک لی۔ آپ نے بچپن یا نو عمر ی میں کبھی محبت کی؟ وہ میری طرف متوجہ تھا اور میں اِس عجیب اور بے ہودہ سے سوا ل پر سٹپٹا سی گئی۔

”میں جانتا ہوں۔ آپ جواب نہیں دیں گی اور دیں گی تو انکار کریں گی۔ پاکستانی خواتین کی ذہنیت کا مجھے خاصا تجربہ ہے۔ “

مُجھے غصہ آیا۔ عجیب آدمی ہے۔ کیسے بے تُکے سوال کرتا اور خود ہی جواب دیے جا رہا ہے۔

میر ی اِس گو مگو اور عجیب سی کیفیت کو اُس نے یقینا محسوس کیا تھا۔ فوراً وضاحتی بیان شروع کر دیا۔ سوا ل کا مُدّعا تو بس اتنا سا تھا کہ مخاطب آدمی اگر کِسی ایسی واردات سے گزرا ہو تو دوسرے کے جذبا ت سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

پیٹرز برگ میری اولین محبت کا امین شہر ہے۔ اس کی قابل ذکر جگہیں، اس کی گلیاں، اس کے محلے، اس کے بازار، کون سی جگہ ایسی ہے جہاں میں اُس کے ساتھ نہیں گھوما تھا۔ اُس کا سحر میری یادوں میں ہمیشہ جھِلملاتا ہے۔ اوریہ پیٹر ہاف جس کے چپے چپے پر میری یادیں دفن ہیں۔ آج انہیں زندہ کرنے آیا ہوں۔

میں ورونیژکے ایک گاؤں سے ہوں۔ ماسکو سے کوئی دوسو میل دُورکا ایک شہر۔

پیٹرز برگ کی ملٹری اکیڈمی میں پڑھنے کے لئے آیا تھا۔ بس تو یہیں یُورا ل کے پہاڑوں سے اُتر کر آنے والی اُس شہزادی سے میری ملاقات ہوئی۔

”کب کی بات ہے؟ “ میں نے پوچھا تھا۔

پچیس سال ہوتے ہیں۔ میں اُس وقت کوئی بیس سال کا تھا۔

انسان زندگی کے جھمیلوں میں جتنا بھی اُلجھ جائے۔ جتنی چاہے دولت کمالے۔ دُنیا گھوم آئے۔ مگر جب کبھی وقت اُسے اُس جگہ لے آئے تو پھر وہ اُنہی جگہوں پر اپنی نوسٹلجیائی حسیات کو تسکین دینے کے لئے ضرور جاتا ہے۔

میں پیٹرزبرگ میں چھ سے آٹھ جون تک منعقد ہونے والے ورلڈاکنامک فورم رشیاCEO میں شرکت کے لئے آیا ہوں۔ وقت نکال کر اُن یادوں سے ملنے کے لئے بھاگا ہوں۔

”شادی وادی نہیں کی تھی اُس سے؟ “ میں نے پوچھا۔

”وہ تو مر گئی۔ بچہ ٹھہر گیا تھا۔ اُسے ضائع کروانے لگے۔ بس اسی میں کام خراب ہو گیا۔

کتنی جلدی کہانی ہی ختم کر دی تم نے تو۔ میں نے تاسف سے کہا۔ چند لمحے خاموشی میں گزرے۔

” کمیونسٹ دور کو کِس نظر کِس زاویے سے دیکھتے ہیں؟ “

ذاتی حوالے سے بدترین۔ قومی حوالے سے بہتر۔ سچی بات ہے۔ میں نے تو اپنے آباؤاجداد کے اُس عرُوج کو نہیں دیکھا تھا۔ اُس طرزِ زندگی کو جو میرے پردادوں کی تھی۔ بس صرف سُننے کی حد تک جانتا ہوں۔ ورونیژ کے قصبے نواژیوتینئے میں میرے آباء کا گھر ”کولاک“ کہلاتا تھا (یعنی بڑے زمیندار کا گھر) ۔ اب کولاک کی شان وشوکت کا کیا بتاؤں کہ دریا کے اُونچے کنارے پر لائم اور بید مجنوں کے درختوں میں گھرا پختہ محل نما گھرجس کی چھت لوہے کی مضبوط چادروں سے ڈھنپی ہوئی، چوبی بھاری کنڈیوں والے پھاٹک، نقشین کھڑکیاں اور ساری آبادی کے وسط میں بنا ہوا یہ گھر ایسے ہی دِکھتا تھا جیسے ٹاٹ کے بھدّے بُد رنگے ٹکڑوں میں شوخ رنگا مخمل کا ٹوٹا لگ جائے۔ اِس گھر کے مکین چمڑے کے جوتے پہنتے، ریشمی قمیضوں پر سیاہ واسکٹیں زیب تن کرتے اور پورے علاقے میں من مانیاں کرتے پھرتے۔

اب غریب کِسان کی زندگی ذرا سوچئیے! زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر لکڑی کے ہلوں سے کاشت کاری، چرخی والے کنوؤں سے آبپاشی، گھاس پھونس کی چھتوں والے جھونپڑوں میں رہنے، چھال کے جُوتے اور ماڑے موٹے کپڑے پہننے اور رُوکھی سوکھی کھانے پر بسر ہوتی۔ انقلاب نے رگڑا دیا۔ جو دادا سے لے کر والد تک کو چڑھا۔ میرا زمانہ تو پھر بھی سنبھالے کا دور تھا۔ یہ تو کہنا پڑے گا کہ پور ی قوم انقلا ب سے سر شار ملک کی تعمیر نو میں جُت گئی تھی۔ بڑے انقلابی کام ہوئے۔ غربت اور جہالت کے اندھیروں سے رُوس چھلانگ مارکر دُنیا کی دوسری سپر پاور بنا۔

تاہم گھٹن، یکسانیت، زبان پر پابندی، سوچ پر پہرے، بے رنگ شب و روز۔ اُوپر کے لوگو ں کے زاروں جیسے ہی اللّے تللّے۔ ایک محنت کش کمیونسٹ یہ سب دیکھتا تھا اور کڑھتا تھا پھرکمیونسٹوں کے جتھے بورژوا گروپوں سے مل گئے اور سسٹم کی کایا کلپ ہوگئی۔

گورباچوف اور اُس کے حواری گلاس نوسٹ (آزادی اظہار وخیال) پرسترائیکا (سیاسی اور اقتصادی بہتری) اورڈیموکریٹائزیشن کے نعرے لگاتے نئے گھوڑوں کی صورت میدان میں اُتر پڑے۔ اُنہوں نے اپنے رنگوں کی پچکاریا ں ماریں۔ اب نئے شہسوار میدان میں ہیں۔

”میخائل جب سوویت ٹوٹا اُس وقت تم کہا ں تھے؟ اور تمہارے احساسات کیا تھے؟ “

”میں تو ماسکو میں تھا۔ فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد لوگوں کے ساتھ ریڈ سکوائر میں خوشیاں مناتا پھرتا تھا۔ ارے بھئی ٹڈ منگے روٹیاں تے گلاں ساریاں کھوٹیاں۔ “ (پیٹ روٹیاں مانگتا ہے اور باقی ساری باتیں کھوٹی ہوتی ہیں)

اُس کے پنجابی محاورہ بولنے پر میں تو حیران رہ گئی تھی۔ میری حیرت پر کوئی اظہار کی بجائے اُ س نے بات جار ی رکھی۔

چودہ ریپبلکیں آپ نے اپنے ساتھ باندھی ہوئی ہیں۔ اب وہ آزادہونا چاہتی ہیں۔ بھئی ہونے دو اُنہیں۔ سنٹرل ایشیا پر تقریباً ڈیڑھ صدی اور بالٹک ریاستوں پر کوئی نصف صدی ڈنڈا چلا لیا آپ نے۔ شوق پورے ہو جانے چاہئیں تھے۔ آپ کی اپنی معیشت کا یہ حال کہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لئے فرلانگ لمبی قطاریں۔ ڈبل روٹی مل گئی ہے تو گوشت نہیں۔ آلو ملے تو پنیر نہیں۔

کوئی ازم ا نسانی پیٹ اور اُس کی ضروریات سے آگے نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی ازم انسانی پیٹ اور اُس کی ضروریات سے آگے نہیں۔ اُن دنوں ایک لطیفہ بُہت مشہور ہوا تھا۔ میخائل ہنسا آپ بھی سُنیں۔

ماسکو کی ایک خاتون گوشت لینے کے لئے تین گھنٹے سے ایک قطار میں کھڑی تھی۔ اِس سارے وقت میں قطار نے اِنچ برابرآگے حرکت نہ کی۔

خاتون چلاّئی۔

”بس بُہت ہوگیا۔ میں گوربا چوف کو قتل کرنے جا رہی ہوں۔ “

وہ قطار سے نکل کر بگولے کی طرح اُڑتی نظروں سے غائب ہوگئی۔ صرف ایک گھنٹہ بعد واپس آگئی۔

” کیا ہوا؟ “ اُس کی ساتھی عورتوں نے پوچھا۔

” تم نے گوربا چوف کو قتل کر دیا؟ “

”اُس کو قتل کرنے والوں کی قطار بُہت لمبی تھی اور میرے پاس اتنا وقت نہیں۔ “

سچی بات ہے میں نے میخائل ویزا لیوچ کی کمپنی سے بُہت لُطف اُٹھایا۔ کچھ جانا۔ کچھ سیکھا۔ وقت رُخصت جب اُس نے مصافحہ کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا میں نے برگر کے بند جیسے اس کے ہاتھ کو اپنے سوکھے سڑیل ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔

”میخائل تمہارا بُہت شکریہ۔ اِسی اجنبی سر زمین پر ایک رُوسی کے منہ سے اُردو سن کر مزہ آیا۔ “

٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).