جب زیادہ بارش آتا ہے، تو زیادہ پانی آتا ہے


غریبوں کی زندگی بھی عجیب ہی ہوتی ہے۔ ان کے پاس کسی نومولود کی پیدائش کی خوشی یا کسی جوان کی موت کو celebrate کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ بہت ہی بڑی دعوت چنے والی بریانی کی دیگ کا لنگر کر دینا، اس سے آگے وہ کچھ کر ہی نہیں پاتے۔ جو غریب گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں، ان کو بل گیٹس کا یہ مشہور مقولہ کبھی پلے ہی نہیں پڑتا کے، ”اگر کوئی غریب پیدا ہوا تو اس کی غلطی نہیں لیکن غریب مرا تو یہ اس کا قصور ہے۔

“ If you are born poor it ’s not your mistake، but if you die poor it‘ s your mistake۔

یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی غریب کی ہے جو غریب ہی پیدا ہوا اور غریب ہی مر گیا۔ جیسے ہزاروں، لاکھوں غریب، غریب ہی مر جاتے ہیں۔بشیر بید کی کرسی بنانے والے کاریگر کا بیٹا تھا، اس کے دادا بھی اسی پیشے سے وابستہ تھے۔ وہ لوگ آرڈر پہ گھروں اور دفتروں میں کرسیاں بنایا کرتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بید کی کرسیاں دفتروں اور گھروں سے متروک ہو گیئں۔ چند بندھے ٹکے سرکاری دفتر تھے جہاں سے اس کا کام چل رہا تھا۔ وہ تو یوں بھی خاندانی طور پر غریب تھے ہی اس تیز رفتار چائنہ کے مال کے آنے سے بالکل ہی خالی ہو گئے۔

بشیر جب اسکول میں ہی تھا کہ اس نے بچوں کو ٹیوشن دینا شروع کر دی۔ غریب آبادیوں میں ٹیوشن فیس بہت ہی کم ہوتی ہے۔ بشیر اس پیسے سے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرلیتا۔ اس کے ماں باپ کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں اپنے اکلوتے بیٹے سے۔ وہ گھر کے ہر معاملے پر توجہ دیتا، اپنی چھوٹی بہن کو بھی پڑھاتا۔ وہ کبھی بھی حالات کا رونا نہیں روتا۔ دنیا بھر کے موٹیویشنل اسپیکروں کی تقریروں کو سنتا۔ میٹرک کے فوری بعد ہی اسے ایک دفتر میں آفس بوائے کی نوکری مل گئی۔ اب اس کے پاس پڑھنے اور پڑھانے کا وقت بہت ہی کم ہوتا۔ پھر بھی وہ پرائیویٹ طور پر انٹرمیڈیٹ بورڈ میں داخلہ لے کے امتحان کی تھوڑی تھوڑی تیاری کرنے لگا۔ وہ بہتر زندگی کا خواہش مند تھا۔

ہر ادارے کی طرح اس کے ادارے میں بھی چھوٹی تنخواہ والوں کا ہر وقت حساب اور احتساب ہوتا۔ پا نچ منٹ کی دیر پہ تنخواہ کٹ جاتی۔ دو گھنٹے زیادہ گزارنے پہ کوئی اضافی پیسے نہ ملتے۔ وہ وقت سے پہلے ہی تھکنے لگا تھا۔ صبح کے ناشتے پہ وہ پورا دن ہی گزار دیتا کہ کچھ پیسوں کی بچت ہو جائے، ساتھ میں کچھ کھانے کو لا ہی نہیں سکتا تھا، چونکہ اس کے گھر میں تین وقت کھانے کی گنجائش نہ تھی، دو وقت ہی مشکل سے پورا ہوتا۔ اسی دوران بشیر بارہویں جماعت پاس کر گیا۔ دوسری نوکری کی تلاش میں لگ گیا، تین سال کا تجربہ بھی اب اس کے پاس تھا۔

وہ کوشش کرتا رہا یہاں تک کے اس کو ایک جگہ کیشیر کی نوکری مل ہی گئی۔ اب اس کی تنخوہ بیس ہزار ہو گئی تھی۔ ایک دم پانچ ہزار کے اضافے سے وہ کافی خوش تھا۔ اب وہ کبھی کبھی دوپہر میں کچھ کھا لیا کرتا۔

زندگی کچھ بہتری کی طرف رواں تھی۔ اس کے دماغ میں بل گیٹس کے الفاظ گونجتے تھے ”غریب پیدا ہوئے تو آپ کا قصور نہیں لیکن غریب مرے تو آپ کا قصور ہے۔“ وہ غریب مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس شام جب وہ دفتر سے گھر آیا تو بارش کے آثار تھے۔ اگلی صبح چھٹی کا دن تھا وہ سو رہا تھا کہ بارش شروع ہوئی۔ کراچی میں بارش بہت کم ہوتی ہے، لیکن اس برس نا جانے کون سا سسٹم بنا کے بارش شروع ہوئی تو ہوتی ہی چلی گئی۔

بشیر ملیر کی ایک بہت ہی پسماندہ آبادی کا رہائشی تھا۔ پٹری اس کے گھر کے پیچھے سے گزرتی تھی۔ اس کے گھر کے سامنے کی سڑک اور گٹروقت کے ساتھ گھر کی سطح سے بلند ہوگئے تھے اس کا گھر سڑک سے تقریباً دو سیڑھی نیچے تھا۔ آہستہ آہستہ پانی کی سطح بلند ہوتی گئی اور گھر میں پانی بھرنے لگا، پانی کے بھرنے کی رفتار بہت تیز تھی۔

بشیر نے امی ابو اور بہن کو گھر کی چھت پر بنے کمرے میں بھیج دیا اور خود پانی نکالنے لگا۔ نا جانے کب اور کیسے پانی بجلی کی لائنوں میں چلا گیا۔ یوں تو صبح سے بجلی بند تھی لیکن پتا نہیں کب اور کیسے ایک لمحے کو آئی اور پانی کے ساتھ پورے گھر میں پھیل گئی۔ بجلی کا جھٹکا اس قدر تیز تھا کہ بشیر ایک آہ بھر کے کے خاموشی سے مر گیا۔

تھوڑی دیر بعد بجلی چلی گئی۔ اسکی لاش گھر کے پچھواڑے میں پڑی تھی، جس وقت اسے بجلی کا جھٹکا لگا وہ دیوار میں شگاف ڈال چکا تھا، پانی کو راستہ مل چکا تھا۔

شام کے وقت گھر والے جب نیچے آ ئے، اس کی ماں اور بہن چیخ چیخ کے رو رہی تھیں، محلے والوں نے ہی اپنی جیب سے تھوڑے تھوڑے پیسے لگا کر بشیر کی آخری رسومات ادا کیں اور تدفین کے بعد چنے کی بریانی کی دیگ آئی اور یوں بشیر ایک غریب محنتی کا بیٹا اپنی چھوٹی سی زندگی میں غریب ہی مر گیا۔

بشیر کے انتقال کے بعد سے گھر میں ٹی وی بند ہی تھا۔ آج اس کے ابو نے پہلی بار ٹی وی لگایا تو اس پہ بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس نشر ہو رہی تھی جس میں وہ بول رہا تھا ” جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے، کہ جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).