نظریہ پاکستان اور ملی نغموں کی بے حرمتی کا نوحہ


ماہرین عمرانیات و نفسیات اس بات پرمتفق ہیں کہ کسی ادارہ، تحریک یا قوم کی ترقی یا زوال میں متعلقہ رہنما اور سربراہ کے نظریات، اس کے انداز و اطوار، وہ عناصر و عوامل ہوتے ہیں جن کی بنیاد پرمتعلقہ ادارہ، تحریک یا قوم کے مستقبل کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔

زمانہ قدیم سے عصر حاضرتک کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ میدان چاہے کوئی بھی ہو، علم و فلسفہ ہو، سیاست و مذہب ہو، ادب و اخلاق ہو، امن و جنگ ہو، فنون لطیفہ یا سائنس ہو، ہرشعبہ میں ترقی یا زوال کی بنیاد متعلقہ رہنما کی اپنے نظریہ سے وابستگی اور قربانی ہی ہوتے ہیں۔ یہی عوامل متعلقہ شعبہ کو جلا بخشتے ہیں۔ دین کی راہ میں حضرت ابراہیمؑ کا اذن الہی پہ لبیک اور حضرت اسماعیل کی قربانی، حضرت محمد (صلعم) کے ساتھ طائف کے لوگوں کا سلوک اور آپ کی استقامت، امام حسین کی شہادت اور اپنے نظریے پہ وابستگی، نے ہی دین کو بقا عطا کی۔

نیز فلسفہ و سائنس میں سقراط کی قربانی سے لے کر فیلسوفان یہود و عیسائی اور اسلام پر فتاوی ہائے کفر، زندہ جلانا، معتوب قرار دے کر واجب قتل ٹھہرائے جانے کے باوجود اپنے نظریات کی خاطرسب برداشت کرنے کے عمل نے ہی علوم کو زندگی عطا کی۔ کوپرنیکس، نیوٹن سے آ ئن اسٹائی تک، ابن رشد سے ملا صدر الدین شیرازئی تا سر سید احمد خان، جمہور کا نا روا سلوک اور ان تمام حالات کے باوجود ان لو گوں کی اپنے نظریات سے وابستگی، قربانی اورثابت قدمی نے، فلسفہ، فنون، سائنس، ادب، اور مذہب کی لاج رکھی اور ان کی بقا کی وجہ بنی۔

دوُسری طرف ایسے منفی نظریاتی لوگ بھی ہیں جن کے نظریا ت یا ان نتائج نے دنیا کہ ہلا ڈالا۔ فرعون سے لے کر یزید و بعد ازاں عصر حاضر تک کے جنونیوں تک، سکندر اعظم، چنگئیزخان، ہٹلر، مسولینی کے نظریات کے تباہ کن نتائج تک، ان کے علاوہ حکمائے علوم، سائنس و فلسفہ و ادب کے مخالفین تک، جنگ عظیم سے لے کر روہنگیا کے مسلم کش متشددین، نریندر مودی کی کشمیری انسان کشی تک، عراق اور شام کی انسانی تباہی تک ان سب کے پیچھے بھی نظریات سے وابستگی ہی کار فرماعوامل ہیں۔ ان منفی نظریات نے بنی نوع انسان کو تباہی، مایوسی، غم کے سوا کچھ نہیں ں دیا۔ مگر یہ بھی تھے تو نظریات ہی، اگرچہ منفی سہی لیکن ان نظریات نے دنیا پر اثرات مرتب کیے ؑ۔

آ ئیے مملکت خداداد یعنی پاکستان کی طرف۔ اس ملک کو قائم ہوئے بہتر برس ہو چکے۔ ’بہتر برس‘ ، اک چھوٹا سا لفظ۔ ۔ مگر تین نسلوں پر محیط۔ ، تیسری نسل جس نے صرف کتابوں میں پڑھا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کتنی تعداد میں لوگ قتل ہوئے، کتنی تعداد میں بیٹیاں بے عزت ہوئیں اور کتنے مکان ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اعداد و شمار بس اتنا ہی بتاتے ہیں۔ یہ نہیں ں بتاتے کہ کتنے خوابوں کا قتل ہوا، کتنے خواب حسرتوں میں تبدیل ہوئے۔ کتنے نازوں کے پلے گھبرو لاشے بنے، کتنی کلیاں برباد ہویئں۔ یہ وہ جانتے ہیں جن پہ بیتی ہے وہ نہیں جانتے جنہوں نے بس اک داستان سنی ہے۔ جن پہ بیتی، ان سے ذرا پوچھ کے دیکھیے کہ ملک کیا ہے، قومی ترانہ کیا ہے، ملی نغمہ کیا ہوتا ہے، اور نظریہ پاکستان کیا ہے۔

ان سطور کے پس منظر میں نظریہؑ پاکستان کا تجزیہ کیجیے۔ نظریہ پاکستان وہ تصور تھا جو 1857 کی جنگ ٓازادی کے بعد عملی صورت میں نمودار ہوا۔ یہ وہ نظریہ تھا جس نے ٓایندہ نوے سال مسلمانوں کو ایک جگہ متحد کیا، ایک شناخت عطا کی۔ اس ایک نظریے نے عملی صورت اختیار کرنے میں نوے سال، لاکھوں جان، مال، رشتوں کی قربانی لی۔ اگر اج ہم اس نظریہ کو بھلاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے سب کچھ گنوا دیا۔ بغیر نظریہ پاکستان ہماری حالت اس فرد کی سی ہو گی جو اپنی یاد داشت کھو چکا ہو اور زندہ ہو۔ لیکن اگر ہم نظریہ کو یاد تو رکھیں مگر اس کی عزت نہ کریں بلکہ اس کی بے حرمتی کریں تو کسی قوم کے لیے اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا۔

اپنے نظریہ شناخت کی بے حرمتی کوئی جان بوجھ کر نہیں کرتا تو پھر ان جانے میں نظریہؑ پاکستان اور ملی نغموں کی بے حرمتی سے کیا مراد ہے۔ اس سوال کے جواب سے قبل ایک پوسٹ گرایجوایٹ تعلیمی ادارے میں یوم آزادی کی تقریب نیز ملی نغموں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی مختصر روداد ملا حظہ فرمایؑے :

یوم آزادی چودہ اگست کی تقریب، مورخہ 22 اگست کومنانا طے پایا۔ وجہ شاید یہ ہو کہ سولہ اگست کو تعلیمی ادارے اپنا آغاز کریں گے تو طلبا کو زبردستی ہال میں بٹھا کر پرہجوم ہال سے تصاویر میں تالیاں بجاتے ہوئے لا تعداد ہاتھ دکھائی دیں گے۔

تقریب کا آغاز ساڑھے دس بجے ہونا تھا مگر گیارہ بجے بھی نہ ہو سکا کیونکہ تعلیمی ادارہ کے سربراہ اور معزز مہمانان گرامی یوم آزادی کی تقریب کے لیے وقت پر نہ پہنچ سکے۔

تقریب میں طلبا کو مصروف رکہنے کے لیے چودہ اگست کی مناسبت سے ملی نغمے اور قومی ترانے، بلند بازگشت (ایکو سسٹم) کے ساتھ چلائے گئے۔ جن کی بنا پر طلبا کو محظوظ کر کے ہال میں بیٹھے رہنے پر آمادہ کیا جاتا رہا۔ نیزایکو ساونڈ سسٹم کا معیار بھی جانچا جاتا رہا۔ مستعد چپراسی اس اصول پر عمل پیرا تھے کہ سربراہ ادارہ اور مہمانان گرامی کی آمد تک ملی نغمے بجائے رکھو۔ نیز سربراہ ادارہ کی آمد پر ملی نغمے روک کر خوش آمدید کہا جائے۔ طلبا پرشور تالیوں میں کھڑے ہو کراستقبال کریں۔ مہمانان گرامی کی آمد پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی جائیں اور پتیوں سے بھرا شاپنگ بیگ میز پر موجود تھا۔ جو استقبال کے موقع پر سربراہ ادارہ پر نچھاور ہو کر مٹی اور جوتوں میں بے آبروہونے کے لیے تیار پڑا تھا۔

معزز قارئین، اپنے ضمیر کی آواز سنیے۔ کیا قومی ترانے اور ملی نغمے اس لیے ہیں کہ سامعین کو محظوظ کر کے تقریب کے سربراہ و مہمانان گرامی کا انتظار کروانے کے لیے بطور ہتھکنڈے کے استعمال کیے جائیں، نہیں۔ بلکہ یہ قومی ترانے اور ملی نغمے ہماری شناخت، ہماری جان ہیں۔ انتظار کے لمحوں کو قابل برداشت بنانے کے ہتھکنڈے نہیں۔ اک طرف انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں ملی نغموں کا کرداردیکھیے اور دوسری طرف تقریبات آزادی میں سربراہ کی آمد تک بطور آلہ کارحیثیت پر ماتم کیجے۔

تعلیمی اداروں میں طلباؑ صرف ٹیکسٹ بکس ہی نہیں پڑھتے بلکہ اپنے اساتذہ کے انداز و اطوار اور رویوں کو بھی غیر شعوری طور پر اپنی فطرت کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ تقاریب میں طے شدہ وقت سے لیٹ آ کر ہم اپنے طلبا کو کیا سکھا رہے ہیں۔ سربراہ ادارہ اور مہمانان گرامی کے لیے تو غالبا بڑائی کی بات ہو مگر طلبا اور قوم کے مستقبل کے لیے یہ زہر قاتل ہیں۔ قومی ترانوں اور ملی نغموں کے تقدس کی اس طرح پامالی، مستقبل میں قومی تشخص کے لیے ضرر رساں ہے اورآیندہ نسل جس نے مستقبل کی قوم بننا ہے ان کے اذہان میں نظریہ پاکستان، قومی شناخت، ملی نغموں کے تقدس کو مجروح کرنے کا باعث ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا ہے :

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

ان ستاروں کی تربیت اور بقا کے ذمہ دار ہم اساتذہ ہی ہیں

بندہ عاجز و حقیر کی گزارش یہی ہے کہ جوانان ملت کو، سربراہان ادارہ خود وہ درس دیں جو قوم و ملت کے حق میں بہتر ہو، یا کم از کم جو لوگ قوم کا بھلا چاہتے ہیں اور اپنے رویوں اور اعمال سے اقبال کا درسِ خودی دینا چاہتے ہیں اور ملی حمیت سکھانا چاہتے ہیں، انہیں محض اس بنا پر معتوب نہ ٹھہرائیں کہ ان بندگان عاجز کے اطوار سربراہان کی خوشنودی کی بجاے صرف نوجوانان ملت کی بہتری کے سوا کچھ اور نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).