ضیا محی الدین: لفظوں کو آب حیات پلانے والا


اکثر لوگوں کے صرف ہونٹ ہی ہلتے ہیں ضیاء محی الدین بولنا جانتے ہیں۔ دہن کے اس بادشاہ کے حضور الفاظ اطاعت شعار درباری ہیں۔ ادب کو انہوں نے بڑے ہی ادب سے پیش کیا۔ انگریزی میں کہتے ہیں ”انٹیلیکٹ ہنگر“ اور ایک ہوتی ہے پیاسی سماعت، اس خوبصورت بھوک اور پیاس کے شکار افراد ضیا ءمحی الدین صاحب کو ضرور جانتے ہوں گے۔ پیاسی سماعت کے لیے بھلا ضیاء صاحب سے بہتر امرت کیا ہو گا۔

ضیاء محی الدین قرات کے فن میں کئی دہائیوں سے ہماری سماعتوں کی پرورش کر رہے ہیں اور کیا ہی تہذیب سے کر رہے ہیں۔ ۔ انتخاب کمال انداز بیاں لازوال ہے۔ انگریزی ہو، اردو ہو یا فارسی، زبانوں کو ان کے درست تلفظ اور لب و لہجے سے ادا کرنا ان ہی کا خاصہ ہے۔ ان کے لب و لہجے میں آبشار سا بہاؤ ہے۔ گویا آواز آبشار کا لہجہ لیے سماعتوں پہ گر رہی ہو۔ ضیا ء کو سنیئے یہ قطعاً وقت کا ضیاع نہیں۔

بولنا تو ضیاء صاحب کو آتا ہے ہی لیکن خاموش کہاں ہونا ہے اور کیسے ہونا ہے یہ بھی ضیاء صاحب خوب جانتے ہیں۔ اگر کبھی انہیں سننے کا اتفاق ہو تو ضرور غور فرمائیے گا کہ دو جملوں کے درمیان ضیاء صاحب کی خاموشی کیا ہے اور پھر یہ خاموشی کیا کہتی ہے۔ کبھی کبھی تو ان کی خاموشی ان کے ادا کیے گئے لفظوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہو جاتی ہے۔

ایک بات اور دوسری بات کے درمیان جو ایک مختصر سا وقفہ آتا ہے جب آنکھیں بولتی ہیں انگلیاں خاموش نہیں رہ سکتیں اس عالم میں آدمی درحقیقت اصل بات کرتا ہے، عام طور پر لفظ بیچارے تو مصلحت کے مارے ہوئے ہی ہوتے ہیں۔

نثر اور شاعری کو تکنیکی اور ایستھیٹکلی اعتبار سے ضیاء سے بہتر کوئی نہ پڑھ سکا۔ لفظ کو محض پڑھنا اور ہے اور دل میں اُتار دینا اور، وہ صرف لفظ کو پڑھتے نہیں سامع کے دل میں اُتارتے ہیں۔ سماعت تو ضیا سے راضی ہے ہی مگر نظر بھی ان کی سلیقہ مندی کی معترف ہے۔ خوش لباش و خوش ادا۔

پاکستان میں ون مین شو کے خالق، نثر ہو شاعری ہویا ڈاکیومنٹری، ضیاء جس انداز میں انتخاب کو پیش کرتے ہیں وہ باکمال ہے۔ ضیاء صاحب نے ویسے تو کئی زبانوں میں لکھا ادب بہت عمدگی سے پڑھا لیکن چونکہ خاکسار اردو اور انگریزی جانتا ہے اس لیے ان ہی زبانوں کا کلام زیادہ سنا۔ ویسے خاکسار نے انگریزی تو سرا سر اضافی ہی لکھ دیا اور اردو بھی معلوم نہیں جانتا ہے یا نہیں

خیر چھوڑیے، بات ہو رہی تھی ضیاء صاحب کی، سال 1933 کے گرم مہینے جون میں موجودہ فیصل آباد میں جنم لینے والے دھیمے مزاج کے ضیاء محی الدین نے بچپن میں پہلا ڈرامہ والد خادم محی الدین کے زیر ہدایت ”دیوتا“ کے نام سے کیا۔ کچھ تو انہیں عطا تھی اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ انہوں نے با قائدہ تربیت بھی حاصل کی۔ فنون و لطیفہ سے لگاؤ انہیں سات سمندر پار لے گیا، رائیل اکیڈمی آف ڈرامیٹک آرٹ میں باقاعدہ تربیت حاصل کی۔

لارنس آف عریبیا میں اداکاری کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے برسوں تک پاکستانی اور برطانوی چھوٹی بڑی اسکرینوں کے لیے اداکار، قرأت کار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے طور پر وابستہ رہے۔ محرّم الحرام کی مناسبت سے مرثیے پڑھے اور دستاویزی فلموں کو اپنی آواز سے نوازا۔ بلاشبہ ان کی آواز پاکستان کی تاریخ کی قیمتی ترین آوازوں میں سے ایک ہے۔

ضیاءمحی الدین صاحب پیپلز پارٹی دور میں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے ڈائریکٹر رہے پھر 2004 میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ڈائریکٹر مقرر کیے گئے۔

ضیاء محی الدین صاحب تین خواتین کے مجازی خدا رہ چکے ہیں، دو کتابوں کے حقیقی اور چار بچوں کے مجازی خالق ہیں۔ دی گوڈ آف مائی ایڈولیٹری، میموریز اینڈ ریفلیکشن اور اے کیرٹ از اے کیرٹ، کے عنوان سے کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

آج تقریبا ہر لکھاری کا خواب ہے کہ ضیاء محی الدین ان کے لفظوں کو اپنی آواز سے نوازیں۔ ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، اور لائف ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ یافتہ ضیا محی الدین کا لب ولہجہ لفظوں کے لیے آب حیات ہے۔ یوں کہیے کہ گویا ضیاء کے لبوں سے ادا ہونے والے لفظوں نے آب حیات پی لیا، ان پہ موت ٹال دی گئی، لفظ اب مرنے کے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).