نئے دور کا نیا خاندان


”ضروری نہیں ہے کہ تم مرو، ضروری نہیں ہے کہ مرض تم کوبھی ہوجائے۔ کچھ بھی ضروری نہیں ہے۔ کافی چانس اس بات کا ہے کہ تمہیں کچھ نہ ہو۔ تم بچے کی پیدائش کے بعد بھی اسی طرح ٹھیک رہو۔ صرف ایچ آئی وی پوزیٹو۔ دیٹس آل۔ “ میں نے تسلی دی تھی۔

”ڈاکٹر بچے کو تو بیماری نہیں ہوگی نا؟ “ اس نے پھر پوچھا تھا۔

”نہیں ہوگی، بالکل نہیں ہوگی۔ امید تو یہی ہے مگر کبھی کبھار بچے کو بیماری لگ جاتی ہے اور پیدائش کے بعد خون کے ٹیسٹ سے پتا لگ جاتا ہے اور کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کو بیماری تو نہیں لگتی ہے مگر بچہ صحیح نہیں رہتا ہے، وہ بیمار رہتا ہے۔ ایچ آئی وی نیگیٹو ہونے کے باوجود اسے اِدھر اُدھر کی بیماریاں لگ جاتی ہیں اور وہ دو تین سال کی عمر ہونے تک مرجاتا ہے۔ مگر ضروری نہیں ہے کہ یہ سب تم کو اور تمہارے بچے کو ہو۔ ہمیں اچھی امیدیں رکھنی چاہئیں۔ “ مجھے پتا تھا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں، صرف امید دلا رہا ہوں، اچھی امید دلارہا ہوں۔ صرف امید ہی دلا سکتا تھا اور میرے بس میں تھا بھی کیا۔

میں اکثر اسے دیکھتا، اپنے کمرے کی کھڑکی سے۔ وہ اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے دھیرے دھیرے ہسپتال سے نکلتی تھی پھر میری کھڑکی کے پیچھے سے گزر کر ہسپتال کی دیوار کے کونے سے لگے ہوئے چھولے دہی بڑوں کے ٹھیلے پر کھڑے ہوکر بچوں کو چھولے دہی بڑے کھلاتی۔ گولا گنڈا والے سے بچے گولا گنڈا لے کر کھاتے تھے۔ کبھی کبھی پکوڑے یا کوئی اور چیز یہی چھوٹی موٹی خوشیاں تھیں اس کی زندگی میں۔ میں ان ماں بچوں کو دیوار سے لگے ہوئے چھولے کھاتے پیتے دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہوجایا کرتا تھا۔ کتنی معصوم خوشیاں ہوتی ہیں غریب لوگوں کی۔

اس دن درد شروع ہونے کے ساتھ ہی وہ ہسپتال چلی آئی۔ عذرا سے بات کرنے کے بعد میں فوراً ہی ہسپتال پہنچا تھا۔ لیبر روم میں وہی معمول کا عالم تھا۔ وہی شور وغل اور وہی رشتہ داروں کا ہجوم، وہی دوڑ بھاگ، وہی مارا ماری، خون لاؤ، نہیں لڑکی ہوئی ہے، جلدی کرو تھیٹر لے جانا ہے، اذان بعد میں دینا، ماں ٹھیک ہے بچہ بھی ٹھیک۔ ماں سیریس ہے، پتا نہیں کیا ہوگا۔ ہر طرح کی ملی جلی آوازوں میں آدمی گم ہوجاتا ہے۔

بچے پیدائش میں کوئی خاص دیر نہیں لگی۔ معمول کے مطابق بچہ ہوگیا، نہ کوئی آواز لگانے کی ضرور پڑی اور نہ ہی کچھ کاٹنا پڑا تھا۔ سرخ وسفید بچہ پیدا ہوا۔ دنیا کے سارے بچوں کی طرح لیکن شاید یہ بچھ بھی ایچ آئی وی پوزیٹو ہو، یہ سوچ کر ہی جیسے میرا دل کٹ کر رہ گیا تھا۔

وہ عام بچوں کی طرح پہلی سانس پر چیخا بھی، رویا بھی۔ میں نے فوراً ہی آنول نال کاٹ کر اسے ماں کے حوالے کردیا تھا۔ وہ اسے پکڑ ے رہی تھی۔ اس نے اسے چھوا ضرور تھا مگر پیار نہیں کیا۔ اسے بھینچا ضرور تھا مگر چھاتیوں سے نہیں لگایا۔ مجھے پتا تھا کہ وہ احتیاط کررہی ہے، مرض کو محدود رکھ رہی تھی اپنے پاس۔

اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش بغیر کسی گھن گرج کے بہے جارہی تھی۔ میرا دل بھی نجانے کیسے دھڑک رہا تھا۔ واہ رے مالک تو جانے اپنا حساب۔ ! میں صرف سوچتا رہا، سوال کرتا رہا، گڑبڑاتا رہا، بڑبڑاتا رہا۔ یہ جانے بغیر کہ عذرا مجھے حیرت سے دیکھ رہی تھی۔

تین دن کے بعد اسے ہسپتال سے گھر بھیج دیا ہم لوگوں نے۔ بچہ ایچ آئی وی نیگیٹو تھا اور اس کے بچنے کے پورے چانسز تھے۔ ماں نے یہ خبرسنی تو اس کے چہرے پہ جیسے نورکی بارش ہوگئی۔ آنکھوں میں چمک، ہونٹوں پہ مسکراہٹ، چہرہ کسی شرمائی ہوئی دلہن کی طرح سرخ۔ میں وہی چہرہ یاد رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

تھوڑے دنوں کے بعد ہی یکایک شائستہ بیمار پڑگئی اوردیکھتے دیکھتے ہم لوگوں کے سامنے اس نے جان دے دی۔ ایسا بھی ہوتا، ہم سب لوگوں کو پتا تھا کہ ایڈز کے ساتھ جان تیزی سے بھی جا سکتی ہے۔ خاص طور پر چند حاملہ عورتوں میں حمل کے بعد یکایک مرض تیزی سے بڑھتا ہے۔

اس کے مرنے کے کچھ مہینوں کے بعد میں نے اس کے بچوں کود یکھا تھا۔ بڑی بیٹی نو سالہ عامرہ نے چھوٹے پانچ ماہ کے بچے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ دادی نے دوسرے دونوں بچوں کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے۔ وہ لوگ مجھ سے ملنے آئے تھے، چھوٹے بچے کی طبیعت خراب تھی۔

میں نے بچوں کے ڈاکٹر کوبلاکر اسے دکھوادیا۔ معمول کے مطابق نوزائیدگی کے زمانے کی عام بیماری تھی اسے۔ دوائیں دے کر رخصت کردیا تھا انہیں۔

چھوٹے سے خاندان کی پرورش کی ذمہ داری دادی اور پوتی پر آن پڑی تھی۔ میں نے سوچا کہ اگر اسلام آباد میں رہنے والے حکمرانوں نے ابھی سے اس بیماری پر توجہ نہیں دی تو نجانے کتنی دادیاں اسی طرح سے اپنے ٹوٹے ہوئے خاندان کا بوجھ اپنے کاندھوں پہ اٹھائیں گی۔ بڑھاپا، پھر جوان بیٹے اور بہو کی موت کا غم، خالی گھر، چھوٹے چھوٹے پوتے پوتیاں، نہ نوکری نہ کوئی گزارہ الاؤنس، نہ کوئی آمدنی کا ذریعہ۔ دنیا بنانے والے کیسی یہ دنیا بنائی، کیا تیرے من میں سمائی۔ میں صرف سوچتا ہی رہ گیا۔ اپنی جیب سے کچھ روپے نکال کر میں نے عامرہ کے چھوٹے سے تھیلے میں رکھ دیے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو، کبھی بھی کچھ ہو، میرے پاس آجانا عامرہ۔ یہی کہہ سکتا تھا میں۔ ضرور مدد کروں گا تمہاری جوبھی ممکن ہوسکے گا۔ دادی اور پوتی کی آنکھوں میں تشکر بھرا ہوا تھا۔

تھوڑی دیر کے بعد جب ہسپتال سے فارغ ہوکر میں باہر نکلا اور اپنی گاڑی میں ہسپتال کی دیوار کے ساتھ ساتھ ہوتے ہوئے جب کارنر پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ زمین پہ دیوار کے ساتھ ساتھ عامرہ نے تینوں بچوں کو سنبھالا ہوا تھا۔ چھوٹا بچہ گود میں اور باقی دونوں بچے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوئے عامرہ کو کسی ایسے پرندے کے بچوں کی طرح دیکھ رہے تھے جو اپنے گھونسلے میں اپنی چونچ کھول کھول کر اپنی ماں سے غذا حاصل کرتے ہیں۔ دادی چھولے والے کے پاس کھڑی ہوئی آلو چھولے اور دہی بڑے بنوارہی تھی۔ پینسٹھ سالہ دادی کے چہرے پر بچوں والا بھول پن تھا اور نو سالہ عامرہ کے چہرے کو سنجیدگی کی تہوں نے کہیں گمادیا تھا۔ وہ بچے کو تھپکیاں دے رہی تھی۔ دادی پوتوں پوتیوں کی انوکھی گارڈین۔ نئے دور کے نئے خاندان کی سربراہ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3