جاوید چودھری کی محنت، علم اور مقدر کے بارے میں رائے سے اختلاف


یہ انسان کی فطرت ہے یا مختلف ادوار میں یہ خود غرضی اس کی فطرت کا حصہ بنا دی گئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک کی لکھی ہوئی موجود تاریخ میں انسان بڑا خود غرض اور تن آسان رہا ہے اور دوسروں کی ملکیت پر مفت میں ڈاکہ ڈالنے سے ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچایا ہے۔

دوسری طرف کچھ نابغہ روزگار ایسے بھی ہیں جو محنت اور علم کا درس دیتے ہیں اور محنت کو کامیابی کی کنجی قرار دیتے ہیں اور علم سے کائنات کی پراسرار گتھیوں کو سلجھانا چاہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی راہ روکنے اور زباں بند کرنے کی خاطر قسمت، تقدیر یا مقدر کا ڈرامہ رچایا گیا جس میں پیش پیش مذہبی لوگ تھے کیونکہ انسان کو آسانی سے زیر کرنے کا مذہب سے بہترین اور موثر نسخہ اور ہتھیار دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا، بقول کارل مارکس ”مذہب عوام کے لیے افیون کا درجہ رکھتا ہے“۔

ابن خلدون کے نزدیک قسمت پوشیدہ اسباب کا نام ہے مگر مفت خوروں نے سب کچھ اللہ یا بھگوان یا کسی بھی سپر نیچرل ہستی پر چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ دھر لیے اور ایسی ایسی دیومالائی اور جھوٹی کہانیاں گھڑیں کہ عوام کیا، اہل دانش بھی چکرا کے رہ گئے۔

مومن خان مومن کچھ یوں ارشاد فرما ہیں

دربدر ناصیہ فرسائی سے کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو قسمت کا لکھا ہوتا ہے

یعنی محنت سے کچھ نہیں ہوتا، ایک عظیم ہستی جس طرح چاہتی ہے، وہی ہوتا ہے یعنی انسان قسمت یا مقدر کے سامنے لاچار و بے بس ہے۔

دوسرا قول ملاحظہ ہو ”خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کے دیتا ہے“ یعنی محنت سے سب کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ خدا اگر عادل ہے تو ایک کی جھولی بھر کر اور دوسرے کو خالی ہاتھ لوٹا کر کیوں بھیجتے ہیں اور بھوکا کیوں سلاتے ہیں یا چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے کیوں مرواتے ہیں، اصل میں یہ سارا ڈرامہ اپنے سرمایہ داری نظام کے کرتوت چھپانے کے لیے رچایا گیا ہے ورنہ خدا کو کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟

اس سارے تمہید کا مقصد یہ ہے کہ کیا انسان کی زندگی میں قسمت یا مقدر کا کوئی کردار ہے۔ میرے خیال میں نہیں، ہر گز نہیں۔

بات یہ ہے کہ قسمت یا مقدر کے آنے سے انسان خودمختار نہیں رہتا بلکہ اس کی حیثیت ایک غلام کی سی رہ جاتی ہے، جس کو جو حکم ملتا ہے وہی بجا لاتا ہے، اس کی آزادی سلب ہوجاتی ہے اور وہ ایک روبوٹ بن جاتا ہے اور روبوٹ کو سزا کا تصور بھی مذاق لگتا ہے۔

فطرت کے اپنے قوانین ہیں جن سے وہ ذرہ برابر انحراف کرنے پر بھی کسی صورت راضی نہیں ہو سکتی۔ پانی کا کام ڈبونا ہے اور آگ کا کام جلانا ہے اور یہ کبھی بھی کسی بھی حالت میں نہیں ہو سکتا کہ آگ جلانا اور پانی ڈبونا چھوڑ دے، فطرت رحم نہیں جانتی۔ آپ کسی معصوم بچے کو آگ میں پھینک دیجئیے، اور دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے کیونکہ فطرت انسانوں کی طرح جذبات و احساسات نہیں رکھتی۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ فطرت کسی کا بھی ساتھ نہیں دیتی اگر کوئی اس سے ہٹ کر چلنا چاہے۔

مورخہ 27 اگست 2019 کو ایک معزز کالم نگارجاوید چوہدری (اگر ”ہم سب“ کی پالیسی نام کی اجازت دیتی ہو) نے محنت اور علم پر مقدر کو ترجیح دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مقدر علم اور محنت کا بادشاہ ہے اور سب کچھ وہی کرتا ہے۔ مثالیں دنیا والوں کی دی ہیں کہ فلاں فلاں کو اپنی محنت کا پھل نہیں ملا۔ ظاہر ہے نہیں ملا ہوگا مگر یہ تو انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے سقم ہیں۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ آج جتنے لوگوں کو عزت ملی ہے ( گو کہ عزت اور غیرت اضافی چیزیں ہیں ) ، ان میں سے کتنوں کو قسمت ( قسمت دھوکہ اور ناقص انسانی نظام کا نام ہے ) اور کتنوں کو محنت اور علم کی وجہ سے ملی ہے۔ دنیا بھی جتنے بھی ہماری زندگی میں آسانیاں لانے والے ایجادات ہیں، وہ سب محنت اور علم کی وجہ سے ہیں نہ کہ قسمت کی وجہ سے۔

سقراط کو سچ اور دیوتاؤں کے نہ ماننے اور نوجوانوں کو ورغلانے کی پاداش میں زہر کا پیالہ پینا پڑا، گلیلیو نے زمین سورج کے گرد گھومنے کی بات پر معافی چاہی اور ابن رشد کو مسجد کی سیڑھیوں پر بٹھا کر نمازی اپنی تھوک سے اس کو نجس سے پاک کرنے کی کوشش کرتے رہے، کیا ان سب کی قسمت اچھی نہیں تھی یا یہ اپنے وقت کے مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری اور ہوس کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کو اچھی بات کا اچھا صلہ نہ ملے، شہرت نہ ملے تو کیا آپ کی قسمت خراب ہے یا آپ کا مقدر سویا ہوا ہے۔ ہرگز نہیں، نیکی مقصود بالذات ہونی چاہیے۔ ہاں اگر آفریں و تحسین کے دو الفاظ ملیں تو پھر تو سونے پر سہاگہ۔

اصل میں ہمارے معاشرے میں اب تک سوائے کمیونزم (کچھ حد تک) ایسا نظام پیش ہی نہیں ہوا ہے جس سے تمام دکھوں کا مداوا ہو سکے۔ سرمایہ دارانہ نظام یا دوسرے جو بھی نظام ہیں، امیر

کے حق میں زیادہ بولتے ہیں، مزدور کے ہاتھوں کے چھالے اس کی قسمت کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر کے استحصال کی وجہ سے ہیں اور نظام میں برابری نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔ لہذا نظام کی غلطیوں اور زیادتیوں کو قسمت کا نام دینا ٹھیک نہیں ہے۔

دنیا میں انسان کی تکالیف اور دکھ کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا علاج ڈھونڈا جائے نہ کہ اس کو مقدر کے سر تھوپ کر آرام کی نیند سویا جائے۔

بہت سے لوگ چور دروازے سے اچھی پوسٹوں پر پہنچ کر اسے قسمت کا کرشمہ قرار دیتے ہیں جبکہ اصل میں یہ انسان کی ہوس، بددیانتی، کمینہ پن اور نظام کی بے انصافی، اقرباپروری اور میرٹ کا نہ ہونا ہوتا ہے، اس لیے خدا کے لیے بچوں کو غیر عقلی اور غیر منطقی باتیں نہ پڑھائییے۔

علامہ نیاز فتح پوری کتاب ”من ویزداں“ میں لکھتے ہیں۔

” ’یضل من یشاء و یھدی من یشاء‘ کے معنی بھی بعض مفسرین و مترجمین نے صحیح نہیں کیے ہیں۔ اس کا ترجمعہ عام طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ اللہ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے یعنی انھوں نے ’یشاء‘ کا فاعل اللہ کو قرار دیا ہے حالانکہ حقیقتاً ’یشاء‘ کا فاعل من ہے (یعنی اللہ گمراہ کرتا ہے جو کوئی ( گمراہی) چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جو کوئی چاہتا ہے ) ۔ ورنہ ’لتسعلن عما کنتم تعلمون‘ (اور تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا) بالکل بے کار ہو جائے گا کیونکہ جب ہدایت و گمراہی صرف خدا کے لیے مخصوص ہو گئی تو باز پرس کیوں اور کس سے؟ “

علامہ صاحب نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ مقدر وغیرہ نہیں ہے بلکہ انسان اپنے اعمال میں آزاد ہے اور اگر مقدر یا قسمت آ جاتی ہے بیچ میں، پھر تو انسان ایک مشین رہ جاتا ہے پھر حساب کس بات کا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).