عمران حکومت کا پہلا سال: ملکی تاریخ کا بدترین مالیاتی خسارہ


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پہلے سال میں مالیاتی خسارہ 8.9 فیصد رہا جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ مالیاتی خسارہ وفاقی حکومت کے آمدن اور خرچ کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ مالی سال 2018-19 میں یہ خسارہ جی ڈی پی کے 8.9 فیصد کے برابر ریکارڈ کیا گیا۔ مالی سال کے آغاز میں 4.9 فیصد خسارے کا ہدف طے کیا تھا۔ جون 2019 میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ مالیاتی خسارہ 7.1 فیصد تک رکھے گی تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے مالیاتی آپریشنز کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ پورے سال میں ملک کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 34.45 کھرب روپے (8.9 فیصد) رہا، جو اقتصادی سروے کے مطابق 80-1970 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال ملکی خسارہ جی ڈی پی کا 22.6 کھرب روپے یا 6.6 فیصد رہا تھا۔ واضح رہے کہ جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران آمدن اور خرچ سمیت تمام اہم مالی اشاریوں میں بگاڑ نظر آیا۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ خرچ پر کنٹرول کے لیے اقدامات موثر نہیں ہو سکے جبکہ آمدن میں کمی کا سلسلہ سال کی پہلی سہ ماہی میں ہی ہوگیا تھا۔

زیادہ تر خسارہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں سامنے آیا، رواں سال 31 مارچ تک خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد تھا تاہم آخری سہ ماہی کے درمیان اس میں 80 فیصد (15.23 کھرب روپے) کا اضافہ سامنے آیا۔

حکومت کے سابق اقتصادی مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے اپنے کیریئر کے دوران اتنا زیادہ خسارہ نہیں دیکھا، وزارت خزانہ نے خرچ پر قابو پانے پر کوئی توجہ نہیں دی جبکہ آمدن تاریخ کی کم ترین سطح کی جانب جا رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافے سے 11 کھرب 10 ارب کی سود کی ادائیگی سامنے آئی جس میں 10 کھرب 20 ارب اندرونی قرضے اور 90 ارب کے بیرونی قرضے شامل ہیں۔

انہوں نے روپے کی قدر میں کمی بھی مسئلے کی وجہ بتائی اور کہا کہ ‘اس سے قرضے میں 32 کھرب روپے کا اضافہ ہوا اور جب سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوتا ہے تو موجودہ خرچے اور کُل اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے’۔

مالی سال 19-2018 کے دوران ترقیاتی اخراجات 45 فیصد تک کم کر دیے گئے اس کے باوجود خسارے میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ ہوا۔

رواں سال قرض پر سود کی مد میں ادائیگیاں 21 کھرب روپے یا جی ڈی پی کا 5.4 فیصد رہیں، جو 2001 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے جبکہ گزشتہ سال یہ 4.4 فیصد تھی۔

تحریک انصاف کے حکومت میں آتے ہی پالیسی ریٹ 7.5 فیصد سے 13.2 فیصد ہو گیا جب کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔ ان دونوں عوامل نے سود کی لاگت میں اضافہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).