کشمیر پر ایک کربلا اتر آئی ہے


کربلا کا سانحہ انسانی سفاک تاریخ کے پہلے صفحے پر خون، پیاس اور تپتی ریت سے عبارت ہے۔ اور سفاکیت کے پہلے صفحوں پر کربلا کے پیاسوں کی کہانی ہے۔ اک درد ناک قصہ ہے جو حساس اور باضمیر دلوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کربلا میں پیاسوں کی کہانی ہر برس تازہ ہو جاتی ہے۔ اس کہانی کا درد اس کے غم کی شدت حساس دلوں کو ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ ابھی کل ہو گزرا ہو یعنی کربلا کی کہانی کسی احساس کا نام ہے۔

اک ایسا احساس جس میں ضمیر شامل ہو۔ یہ درد کی کہانی سفاکیت اور مظلومیت کو الگ الگ اس کی تہہ تلک جا کر بیان کرتی ہے۔ کربلا والوں کے اجداد مدینے والے تھے۔ جن کی اک ریاست مدینہ تھی جسے مثالی کہا گیا تھا۔ جہاں اس دنیا کے سب سے بہترین انسان رحمت العالمین کا نظام انصاف مثالی تھا۔ جو پڑوسی ریاستوں سے رواداری کے تعلقات سمیت اقلیتوں کے حقوق اور انسانیت کی فلاح و ترقی پر منحصر تھا۔ نبی کریم رحمت العلمین صلی اللہ و علیہ وآلہ و سلم کے بارے میں روایات میں ملتا ہے۔

کسی دور میں مسلمانوں کے ہاں پانی کی قلت کا دور آیا تو رحمت العالمین صلی اللہ و علیہ وآلہ و سلم نے کسی یہودی کے کنویں سے پانی اجرت پر حاصل کر کے مسلمانوں کے ہاں اس ضرورت کو پورا کیا۔ اور غیر مسلموں کے ساتھ سلوک اور مراسم رکھنے کی ایک مثال پیش کی۔ اس ریاست مدینہ میں انصاف کا بول بالا تھا اور اس کا حاکم تمام عالمین کے لیے رحمت قرار پایا۔

اک ریاست مدینہ یہاں بھی ہے جسے اُس مثالی ریاست سے تشبیہ دے کر اس کا نظم و نسق سنبھالا گیا تھا۔ یہاں نظام انصاف لانے سمیت امور حکومت کو بھی مثالی بنانے کے وعدے کیے گے تھے۔ لیکن عملی طور پر ایسا ہونے میں خاصی دقتوں کا سامنا رہا نئے پاکستان کے بانیوں کو اقتدار میں آتے ہی جہاں کئی چیلنجز کا سامنا رہا وہیں کشمیر کا مسئلہ دو بار ان کے گلے پڑا۔ اک بار حکمت عملی اچھی رہی اور قومی عزت و غیرت سمیت ملک کی ناک بھی عالمی سطح پر کٹنے سے بچ گئی۔

لیکن دوسری بار پانچ اگست کو پڑوسی روایتی حریف ملک نے شہ رگ پر ہی چھری چلا دی۔ ایسا کرنے سے سارا جسم کانپ گیا اور چونکہ شہ رگ پر چھری پڑی تو سفاک قاتل نے اسے آدھا کاٹ کر جسم کو تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا۔ جسم نے ہانپتے کانپتے انگڑائی لی اور شہ رگ بچانے کے لالے پڑ گئے۔ کشمیر پر بھارت کے یک طرفہ اقدام نے وادی کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا۔ بنیادی انسانی حقوق چھین لیے گئے اور آزادی مانگنے والی زبانیں کاٹنے کے لیے بھارتی انتہا پسندوں کو تیز دھار آلے تھما کر وادی کشمیر میں جھونک دیا گیا۔

پاکستان کی جانب سے بھارت سے دو طرفہ مذاکرات معطل کر دینے سمیت دو طرفہ تجارت اور اب فضائی حدود کو بھی بند کرنے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان سب اقدامات سے بھارت کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ آپ نے سفاکیت کی تمام حدیں پار کر دی ہیں اس لیے اپنی حد میں رہو۔ اس سب کے بیچ مملکت پاکستان، جسے ریاست مدینہ کے اطوار پر ڈھالا جا رہا تھا یہاں دو طرفہ تجارت بند ہونے سے کئی تاجروں کی روزی بند ہوئی تو وہیں خام مال بھارت سے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے پاکستان میں دوا ساز کمپنیوں کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔ اور اب ملک پاکستان میں ادوایات مہنگی ہونے کے خدشات لاحق ہیں۔ اس سب کو سوچ سمجھ کر یہی لگتا ہے کہ کل ملا کر یہ کشمیر ریاست مدینہ کے لیے کربلا ثابت ہو رہا ہے۔ یعنی کشمیر خود تو کربلا ہے ہی لیکن اس کی طرف داری کرنے کی وجہ سے خود مملکت پاکستان پر کربلا کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔

کشمیر پر کربلا کا سایہ معلوم پڑتا ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ کوئی انتہا۔ چونکہ پچھلے 27 سالو ں میں جتنا لہو کشمیر میں بہا۔ کتنا درد اس دھرتی نے اٹھایا تو یوں کہا جائے کہ کشمیر میں روز اک کربلا برپا ہوتی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ کشمیر میں بیواؤں اور یتیموں کی ٹولیاں ہیں جن کے سروں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہیں۔ وہاں خوراک کی قلت ہے بھوک سے بلکتے بچے شاید کربلا کے پیاسے بچوں کی آوازوں کی یا دکو تازہ کرتے ہیں۔

بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں میں جہاں کشمیر کا رابطہ دنیا بھر سے کاٹ دیا گیا ہے۔ وہیں اس بدنصیب وادی کو یہ پیغام بھی صاف صاف سنائی دے رہا ہے کہ کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔ کربلا میں 72 جانثاران حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب سید الشہدا تن تنہا بچ جاتے ہیں تو یہ صدا بلند کرتے ہیں کہ ”کوئی ہے میری مدد کرنے والا“ تو جواب میں جن و ملک کے سوا کوئی انسان سامنے نہیں آتا۔ یہاں کشمیر میں بھی کربلا بپا ہے۔

یہاں بھی مدد کو کوئی نہیں آتا۔ آپ کو معلوم ہے سرینگر کے نواحی علاقے صورہ میں جب بھارتی غاصب فوجی داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو وہاں کی عورتیں ڈنڈے اٹھائے دکانوں کے دروازے بجاتی ہیں اور اپنے مردوں کو آگاہ کرتی ہیں کہ فوجی داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ عورتیں پہلے سے جمع شدہ پتھر وں کے ڈھیر مردوں کے حوالے کرتی ہیں۔ اس سب منظر میں عورتوں کے ہاتھ میں ڈنڈے کربلا میں جلے ہوئے خیموں کے ٖ ڈنڈے اٹھائے عوتوں کی حفاظت کرنے والی شریکۃ الحسین کی یاد بھی دلاتی ہے۔ اک جانب کربلا میں بے بسی کا منظر ہے اور اک کشمیر ہے یہاں عورتوں کے ہاتھوں میں پتھر کس قدر بے بسی کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔

کشمیر پر اس قدر خون بہایا جا چکا ہے ہے کہ اسے خون کی وادی کہا جاتا ہے۔ یہاں کا انسان مضطرب ہے اور بے یقینی کی زندگی گزار رہا ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ بیوہ کیا کرتی کیا سوچتی ہو گی جسے آدھی بیوہ کہا جاتا ہے۔ جس کا شوہر لاپتہ ہے اور لوٹ کر نہیں آیا۔ اس نوجوان کی ماں بہن پر کیا گزرتی ہو گی کہ جب وہ گھر سے باہر گیا تھا تو خود اپنے پاؤں پر چل کر گیا تھا اب جو لوٹا ہوگا تو کسی کے کندھے پر سوار ہو آیا ہو گا۔

جاتے وقت جس کی آنکھیں سلامت تھیں اب اس کی دنیا پیلٹ گن کے چھروں سے تاریک ہو چکی ہے۔ وہ اپنے اس آنگن کو کیا دیکھ پائے گا کہ جہاں اس نے ان آنکھوں کو کھولا تھا۔ یہاں خون کی بارش ہوتی ہے، چادریں پامال ہوتی ہیں، بے بس عورتیں غاصب فوجیوں پر پتھروں سے حملہ آور نظر آتی ہیں۔ گلیاں سڑکیں خون سے رنگیں نظر آتی ہیں۔ یہ سفاکیت اور مظلوم کشمیریوں کے یہ درد جب کسی مجموعہ کی صورت بیاں کرتا ہوں تو اس سب سے یہی معلوم پڑتا ہے کہ یہ تو خون ہی مانگتا ہے میاں! کشمیر پر کربلا کا سایہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).