دریائے سندھ کی سیر کا پہلا راقم، انگریز جاسُوس الیگزینڈر برنس


دریائے سندھ کا وجود صدیوں سے ہے۔ اس کی تاریخ یقیناً اتنی ہی پرانی ہے، جتنی نمکین (سمندری) پانی سے ہمارے سیّارے کے خشک حصّے نمودار ہونے کی تاریخ۔ دریائے سندھ کے کناروں پر آباد ہونے والی ہماری تہذیب (وادیء سندھ کی تہذیب) دنیا کی چار قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اس کے بیشتر حصّے سے لاعلم ہیں۔ (یاد رہے کہ ’تاریخ‘ کی تعریف یہ ہے کہ ’جو کچھ بِیت چکا ہے‘ ، نہ یہ کہ ’اس بپتا میں سے جو کچھ قلمبند کیا جا چکا ہے یا جو کچھ ہم جانتے ہیں۔‘ )

یوں تو دریائے سندھ کو اب تک نہ جانے کتنے سیّاحوں نے نقطہء آغاز تا نقطہء اختتام دیکھا، جانچا اور پرکھا ہوگا، مگر ہمارے یہاں اس ضمن میں، سیرِ مہران کی جو سب سے پہلی (قدیم ترین) تاریخ موجود ہے، وہ ”الیگزینڈر برنس“ کی 1831 ء میں تحریر شدہ ہے، جو کہ تاریخ کے لحاظ سے کل ہی کی بات لگتی ہے۔ (یاد رہے کی اس سے کئی صدیاں قبل ابنِ بطوطہ اور سکندر یونانی بھی دریائے سندھ کے ذریعے سفر کر چکے تھے، مگر ان کے سفر کا مقصد خالصتاً اس دریا کی سیر کر کے اس کے دونوں کناروں پر آباد قوموں کے حوالے سے مطالعہ کرنا نہیں تھا۔ )

سکندر تو جنگی مقاصد کے تحت یہاں سے قبضے کرتا ہوا آگے بڑھا اور دریا کی مخالف سمت (یعنی سمندر کے ذریعے، جو اس وقت ’بحیرہء سندھ‘ کہلاتا تھا، سندھ میں داخل ہو کر پھر جرنیلی سڑک کے ذریعے اوپر پشاور اور اٹک تک جا کر کشمیر میں داخل ہوگیا، اور حسبِ ضرورت دریائے سندھ کو عبور کرتا رہا) ابنِ بطوطہ بھی سمندر کے ذریعے دریائے سندھ میں داخل ہوکر دریا کے بہاؤ کی مخالف سمت سفر کرتا آگے بڑھا۔ گو کہ اس نے دریا کے ذریعے کافی سفر کیا، اور ’مہران‘ کا اپنے سفرناموں میں بھرپور ذکر کیا ہے، مگر اس کے باوجود اس کے سفر کا مقصد صرف ’سندھو‘ کے حوالے سے تحقیق کرنا نہیں تھا۔

یہ کام کرنے والا پہلا تاریخ نویس الیگزینڈر برنس ہی تھا، جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسر، جاسوس اور سیّاح کے طور پر تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے۔ برنس 16 مئی 1805 ء کو اسکاٹلینڈ کے شہر ’مونٹروس‘ میں پیدا ہوا۔ اس کا والد، ’رابرٹ برنس،‘ فور فاشر کا مجسٹریٹ تھا۔ الیگزینڈر برنس 16 برس کا تھا جب وہ 31 اکتوبر 1831 ء کو بمبئی پہنچا، جہاں آنے سے قبل ہی وہ ابتدائی تعلیم مونٹروس میں حاصل کر چکا تھا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندوستان کے ساحلی شہر سورت میں برطانوی اضافی بٹالین میں ہندی زبان کے ترجمان (انڻرپریڻر) کے طور پر مقرر کیا گیا۔

یہاں آنے کے بعد برنس بہت جلد فارسی سیکھ گیا اور بہت ہی کم وقت میں اس نے اس پر ملکہ حاصل کرلیا، جس کی بدولت اسے عدالت میں فارسی بان کے دستاویزات ترجمہ کرنے پر مقرر کیا گیا۔ اس کی صلاحیّتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کمپنی نے اسے صرف 21 برس کی عمر میں ’ڈپٹی اسسٹنٹ کوارٹر ماسٹر جنرل‘ کے عہدے پر فائز کیا۔ وہ فارسی اور ہندی کے علاوہ بھی کئی مشرقی زبانیں لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں نوجوانی ہی سے مہارت رکھتا تھا۔

اس نے کمپنی کی جانب سے 1831 ء میں سندھ میں تالپور حکمرانوں کی طرف سے سخت رکاوٹوں اور مزاحمت کے باوجود دریائے سندھ کے داخلی راستوں کا مکمل سروے کرلیا (تالپوروں کی جانب سے یہ مزاحمت اور رکاوٹیں حب الوطنی کے اصولوں کے عین مطابق تھیں، کیونکہ تالپورمستقبل میں سندھ پر انگریز راج کو قابض ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ) اس نے اٹک سے کراچی تک بجائے خشکی کے راستے سفر کرکے سروے کرنے کے، کمپنی سے دریائے سندھ کے رستے سفر کرنے کی اجازت لی۔

ایسی اجازت اس نے سندھ کے اس وقت کے تالپور حکمرانوں سے بھی لی۔ (اس دور میں برطانوی تاجر، اور بالخصوص اِیسٹ انڈیا کمپنی سے متعلق تاجر دریائے سندھ کے راستے اکثر سفر کیا کرتے تھے ) اس لئے اس سروے کے دوران الیگزینڈر برنس نے بحیثیت تاریخ نویس بھی اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھا اور دریا کے بہاؤ کے بالکل اختتامی علاقوں کے نقشے بھی مرتب کیے۔ اس پورے سفر کو مکمّل کر کے الیگزینڈر برنس 18 جولائی 1831 ء کو لاہور پہنچا۔ اس دن اس کے سرکاری اور سیّاحتی دونوں مقاصد پورے ہوگئے۔ اس نے اپنی سروے رپورٹ جمع کروائی، جس میں سندھ سمیت پورے ہندوستان کی مکمّل رپورٹ بمع نقشہ جات شامل تھی۔ تاریخ دانوں کے بقول، کمپنی کے لئے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی غرض سے الیگزینڈر برنس کی یہ جاسوسی رپورٹ انگریزوں کے لئے بہت کارگر ثابت ہوئی۔

اس سفر کے بعد الیگزینڈر برنس کی زندگی کا ایک اور انوکھا اور خطرناک سفر شروع ہوا، جب وہ دوبارہ ایک برس بعد 17 جنوری 1832 ء کو لاہور میں داخل ہوا اور راجہ رنجیت سنگھ نے اس کا شاندار استقبال کیا۔ وہ وسطی ایشیا کے انتہائی خطرناک سفر کے لئے روانہ ہونے کے لیے تیار تھا، جو سفر کم اور ”جاسوسی“ زیادہ تھی۔ اس کو غیر محسوس طریقے سے افغانستان کے مختلف علاقوں کا سروے کرنا تھا، جو اس وقت کے افغان بغاوت کے ماحول میں کسی انگریز کی جانب سے کیا جانا، مشکل ہی نہیں، ناممکن تھا۔

اس کے لیے برنس نے اپنا بھیس بدل کر ایک افغان تاجر کا روپ اختیار کرلیا۔ افغانی اور فارسی زبانوں کی معلومات نے اس کے اس بہروپ میں اس کا ساتھ دیا۔ اس نے اپنا حلیہ ہی نہیں، بلکہ عادات واطوار بھی افغانیون جیسی بنالیں۔ اس سفر میں اس نے اپنے ساتھ بنگالی فوج کے ایک سرجن ’سر جیمس گیراڈ‘ کو بھی شامل کرلیا اور اس کا حلیہ اور عادات بھی افغانی باشندوں جیسی بنالیں۔ برنس نے رنجیت سنگھ کی جانب سے دیے ہوئے فوجی دستے کے ساتھ مل کر اس کی ریاست کا جائزہ لیا اور ان کے ساتھ ہی وہ افغانستان میں جاکر افغانیوں سے ملا۔

یہ فوجی ’اکوڑہ‘ تک برنس اور سرجن گیراڈ کے ساتھ گئے۔ جس کے بعد وہ کامیابی سے پشاور، جلال آباد اور کابل سے ہوتے ہوئے، لکھنؤ اور بخارا تک جا پہنچے اور اس پورے سفر میں برنس کو کسی نے نہیں پہچانا۔ برنس بلخ پہنچ کر واپس پلٹا اور ٹھیک ایک برس بعد بمبئی پہنچا۔ اس پورے سفر کے دوران کی گئی اور انگریزی میں لکھی گئی سروے اور تحقیق ”دی نیویگیشن آف دی انڈس اینڈ جرنی بائی بلخ اینڈ بخارا“ کے نام سے نہ صرف کمپنی نے شایع کروائی، بلکہ اس کے فرنچ اور جرمن زبانوں میں فوری تراجم بھی کرائے گئے۔

گورنر کو جب برنس نے اس سفر کی تفصیلی رپورٹ پیش کی تو گورنر جنرل، الیگزینڈر برنس سے بہت خوش ہوا، اور اسے طلائی تمغے سے نوازا۔ برنس کے اس کام کی انگلستان میں بھی بہت پذیرائی ہوئی۔ اس کامیابی کے بعد برنس انگلینڈ، فرانس اور دیگر علاقوں میں رہنے کے بعد جب واپس ہندوستان آیا، تو اس کو اہم فوجی ذمہ داریاں دی گئیں اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک ترقی دی گئی۔ افغانستان کی بغاوت زوروں پر تھی، اور اس دوران برنس کے افغانستان میں متعیّن ہونے کے بعد حیدر خان ولد دوست محمّد کے اپنے آپ کو برطانوی فوج کے حوالے کرنے، اس کے کوئٹہ کے گورنر مقرر کیے جانے، بعد ازاں اس کے افغانستان سے فرار ہونے، اس کے جگہ پر شاہ شجاع کی تقرری اور ولیم ایم ناٹن کی کابل میں برطانوی سفیر کی حیثیت سے تقرّری جیسے اہم واقعات رونما ہوچکنے کے بعد، افغان بغاوت کو دیکھتے ہوئے میجر پاٹنجر کے خبردار کرنے کے بعد، 14 ہزار برطانوی فوجی افغانستان میں تعینات کیے گئے، مگر اس بغاوت کا نشانہ الیگزینڈر برنس اور اس کے خاندان کو بہرحال بننا ہی تھا۔

2 نومبر 1841 ء کو صبح 9 بجے باغی افغانوں نے کابل میں برنس کی رہائشگاہ پر دھاوا بول دیا، اور الیگزینڈر برنس، ان کے بھائیوں، لیفٹیننٹ چارلس برنس، لیفٹیننٹ بروڈفٹ اور گھر میں موجود تمام بچّوں، خواتین اور مردوں کو ایک ساتھ لقمہء اجل بنا دیا اور برنس کے گھر کو جلا کر راکھ کر دیا۔ یہ ایک نڈر برطانوی فوجی، جاسوس، سیّاح اور تاریخ دان کی زندگی کا بھیانک اختتام اور انگریزوں کے خلاف افغانوں کے خوفناک سانحوں کے سلسلے کی ابتدا تھی۔

گو کہ برنس نے سندھو کی سیر، اپنے آقاؤں کو اس خطّے کے لوگوں کے حوالے سے تفصیلاً آگاہ کرنے ہی کی غرض سے کی اور لکھی تھی، مگر پھر بھی سندھ کی تاریخ، الیگزینڈر برنس کو ”دریائے سندھ کا پہلا سیرنامہ رقم کرنے والے سیّاح اور مؤرخ“ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).