محرم کے جلوس اور کشمیر کے جلوس


غالباً 5 سال پہلے 6 یا 7 محرم کو میں اسلام آباد سے اوکاڑہ کے پاس اپنے آبائی ٹاؤن جانے کے لئے فیصل آباد سے گزرا۔ محرم کی مجالس اور جلوسوں کی وجہ سے شہر کی تقریباً تمام سڑکیں بند تھیں۔ گلیوں سے ہو کر کسی دوسری سڑک پر پہنچتے تو وہ بھی بند ملتی۔ میں تو خیر گاڑی پر تھا لیکن پھر بھی میں موٹر سائیکل، رکشہ، دوسری گاڑی والے حضرات اور ویگنوں والے مسافروں کی پریشانی اور اذیت محسوس کر رہا تھا۔

تقریباً 2 گھنٹے کی مشقت کے بعد کسی نہ کسی طرح شہر سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔ گو کہ میں خود ایک امام بارگاہ کا منتظم ہوں اور ایام عزاداری میں ماتمی جلوسوں کے ساتھ ہوتا ہوں لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس تجربے سے پہلے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مجالس اور جلوس کی وجہ سے بند روڈز عوام کے لئے کتنے پریشان کن ہو سکتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ دوران محرم زیادہ تر سڑکیں خود پولیس سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے بند کرتی ہے اور تمام جلوس نہ صرف حکومت سے منظور شدہ ہوتے ہیں بلکہ حکومت ہر سال ان جلوسوں کے لائسنسز کی تجدید کرتی ہے اور جلوس والے راستوں کے متبادل راستوں کی فراہمی یقینی بناتی ہے۔

خیر اس دن کے بعد میں نے تہیہ کیا کہ اپنے طور پر میں کم از کم اپنے علاقے میں کوئی راستہ یا سڑک بند نہیں ہونے دوں گا۔ اس عزم کو تب اور تقویت ملی جب تحریک لبیک کے دھرنوں نے ملک جام کیا اور مجھے بچوں کو سکول سے لے کر گھر پہنچنے میں آدھا دن لگا۔ اس دن مجھے مذہب کے نام پر کی گئی غنڈہ گردی سے نفرت ہو گئی اور میں اس بارے میں اور زیادہ پرعزم ہو گیا کہ راستے عوام کی ملکیت ہیں ان کو کسی بھی وجہ سے روکنا تہذیب، اخلاق اور قانون کے خلاف ہے۔

میرا عزم اس محرم میں بھی پچھلے سالوں کی طرح غیر متزلزل تھا کہ آج کا دن 30 اگست بروز جمعہ آ پہنچا جس میں ہمارے وزیر اعظم نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے 30 منٹ تک پورے ملک کے عوام کو اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو کر احتجاج کرنے کی کال دی۔ اس کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں خاص طور پر اور باقی ملک میں بھی ٹریفک کے اشاریے کئی منٹوں تک سرخ رکھ کر ٹریفک روکی گئی اور ایسا سرکاری سرپرستی میں ہوا۔

آج کے احتجاج نے کچھ سوالوں کو جنم دیا کہ اگر کشمیری انڈین فوج اور حکومت کے ظلم کی وجہ سے پورے ملک میں سڑکیں بلاک کر کے کیے گئے احتجاج کے مستحق ہیں تو کیا یہ حق نواسہ رسول کو نہیں دیا جا سکتا کہ سال کے بعد شہر کے کچھ علاقوں میں احتجاجی ماتمی جلوس برآمد کیے جائیں جو مسلمانوں کو خاص طور پر اور باقی دنیا کو عام طور پر اس ناقابل بیان ظلم کی یاد دلائیں؟ یاد رہے کہ کشمیر ڈے بھی ہر سال منایا جاتا ہے جس میں ریلیاں اور جلوس نکالے جاتے ہیں۔

کربلا اب صرف کوئی تاریخی یا مذہبی واقعہ نہیں رہا بلکہ پوری دنیا میں ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے کا استعارہ بن چکا ہے۔ اگر کربلا کی مذہبی حیثیت کو پس پشت بھی ڈال دیا جائے تو بھی کربلا ایک عظیم سیاسی جدوجہد کے طور پر ابھر کے آتا ہے کہ یزید کا حسین سے مطالبہ ووٹ کا ہی تو تھا۔ صبرواستقامت کی یہ لازوال داستان جس میں ظلم کا اختتام شام غریباں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ مخدرات عصمت کو کربلا سے شام، شام سے کوفہ اور کوفہ سے دمشق تک قیدی بنا کے لایا گیا۔

بے شک لوگ کہیں گے کہ کشمیر کے حق میں کیا گیا احتجاج علامتی تھا اور ہم نے کشمیریوں کے حق میں کھڑے ہو کر بھارتی مظالم سے بیزاری کا اظہار کیا ہے تو کیا کربلا اور شہداء کربلا مسلمانوں سے اتنا حق بھی نہیں رکھتے کہ ان کی یاد میں علامتی طور پر ہی احتجاج میں شامل ہو جائے؟

اگر سڑکیں بند کیے جانے پر ہونے والی اذیت کو ایک اصول کے طور پر لیا جائے تو یہ اصول اگر، مگر، چونکہ اور چنانچہ کے بغیر لاگو ہو گا اور کسی کو بھی مذہبی، سیاسی یا سماجی استثنیٰ نہیں دیا جا سکے گا۔ اور اگر کسی بھی جواز کی بنا پر کسی قسم کے احتجاج کے لئے سڑکیں بند کی جا سکتی ہیں تو یہ جواز محرم کے جلوسوں پر بھی بنا چون و چرا لاگو ہونا چاہیے۔ اگر 2 ہزار سال سے ابراہیم کے بیٹے کی علامتی قربانی کی یاد میں قربانی کی رسم ادا کی جاسکتی ہے تو پورا خاندان قربان کرنے والے اور ظلم کے آگے نہ جھکنے والے حسین ابن علی کی یاد میں رسمی احتجاج کیوں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).