امریکہ کا کردار لیکن؟


اب تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ بھارت خطے کے امن کو تباہ کرنے پر کل بھی تلا ہوا تھا اور آج بھی امن کو آگ لگانے سے باز نہیں آرہا ہے۔ ادھر عالمی برادری ہے کہ باندر کے ہاتھ سے ماچس لینے کی بجائے تماشا بین کا کردار ادا کررہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گرتی لاشوں، لٹتی عزتوں اور بھارتی فوج کی طرف سے بے انت ظلم پر ٹھٹھ لگا رہی ہے۔ امریکہ بہادر جوکہ سپر پاور کی حیثیت میں دنیا کا تھانیدار ہے، اور ہمیشہ پاکستان کو بازو کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بناکر رکھتا ہے، اس کی بھی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ پاکستان کا دوست ہے یا پھر دوست نما دشمن ہے؟

کیوں کہ تاریخ میں پیچھے مڑ کردیکھیں تو امریکہ پاکستانی قوم کو تندور میں ڈال کر پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ پھر اس وقت صاحب بہادر سے فون پر ملاقات ہوتی ہے، جب موصوف کو ہماری ہمدردیوں اور تلواروں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگلے محاذ پر فی الفور جانا ہوتاہے۔ انکار تو ہو ہی نہیں سکتاہے۔ ہمارے حکمران ہیں کہ وہ امریکہ بہادر کی ساری باریک وارداتوں کو بھول کر میدان جنگ کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ ادھر پاکستانی قوم کی زندگی بھی جمہوریت کے نام پر بادشاہوں کے زیر اثر گزر رہی ہے۔

پاکستانی قیادت کی اقتدار اور اپوزیشن کے دنوں میں خارجہ پالیسی اور عالمی سطح پر دوستوں اور دشنموں کے لئے معیار اور پالیسی مختلف ہوتی ہے، مثال کے طورپر اپوزیشن میں عوام کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا جاتاہے کہ فلاں ہمارا دشمن ہے اور اس کی تباہی وبربادی تک جنگ رہے گی لیکن اقتدارملتے ہی اور کہانی ہوتی ہے جوکہ تابعداری اور نیازی مندی سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتی ہے۔ یوں قوم کو ایک خارجہ پالیسی اور ایک نقط پرکبھی متفق ہونے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی ہے۔

جس کا فائدہ یقینا ملک وقوم کی بجائے دوسروں کو ہوتا ہے۔ ادھر قوم کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کے دعویدار ہمارے حکمرانوں کے پاس جب کوئی بڑا فیصلہ کرنے کا وقت ہوتا ہے تو وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر اپنے من مرضی فیصلے قوم پر مسلط کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ واردات ایسی کرتے ہیں کہ جب فیصلہ کن گھڑی ہوتی ہے اسوقت قوم کو اعتماد میں لینا تو درکنار، آگاہ ہی نہیں کرتے کہ کس کی اور کون سی جنگ کی دلدل میں کس کی خاطر اپنے ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے جارہے ہیں؟

پھر اپنے غلط فیصلہ کو درست ثابت کرنے کے لئے میڈیا کو بلواکر ایک خوف کی فضا پیداکی جاتی ہے اور ساتھ قوم کا انگوٹھا پکڑ کے اپنے غلط اور ابہام سے بھرے قوم مخالف فیصلہ کے حق میں یوں لگوایا جاتا ہے، جیسے ہمارے ہاں زرعی بنک کے ایم سی او ر شوت بھی لیتے اور ساتھ ان پڑھ کاشتکار کا تلخی سے انگوٹھا پکڑ کر فائل میں پڑے انگریزی میں لکھے قرضہ فارموں پر لگواتے ہیں۔ دلچسپ صورتحال یوں ہوتی ہے کہ زمیندار کو اتنی جرات نہیں ہوتی ہے کہ پوچھے بادشاہ سلامت میری مادری زبان میں نہ سہی، قومی زبان اردو میں تو بتادو کہ یہ درجن بھر انگریزی کے کاغذوں پر جو انگوٹھوں کی بارش کروائی جاری ہے، یہ کس مقصد کے لئے ہیں؟

مجھے کون سی بلی چڑھانا ہے؟ بنک سے قرضہ کے لئے اپنی زمین تو پہلے ہی پٹواری، قانونگو اورنائب تحصیلدار کے پاس جاکر ان کو مال پانی دے کر پاس بک بنوا کرزرعی بنک کے نام کرواچکاہوں اور پاس بک تین مختلف رنگوں میں ہیں، اس کا بھی مجھے نہیں بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ مان لیا ہے ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر ہمارے ملک کے بھی اپنے مفادات ہوں گے یا ہم دنیا میں انوکھی قوم ہیں؟

اور ہم کوئی کرائے کے قاتل تو نہیں ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات چھوڑ کر دوسروں کی خاطر آگ کی لڑائی میں نسلوں کو لے کر کود جائیں۔ ادھر ان کے شہری امن کو انجوائے کریں۔ اور ہمارے بچے آگ میں جل مریں، عورتیں بیوہ ہوں۔ اور پورا معاشرہ خوف کی زندگی میں دن پورے کرنے لگے۔ ایک بار پھر اس تھیوری سے اتفاق کرلیتے ہیں کہ ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور کوئی ملک کسی کا دوست نہیں ہوتا ہے؟ پھر بھی فرض کرتے ہیں کہ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے دوران طاقت تو انسانوں کے پاس ہوتی ہے، شطیانوں کے پاس تو نہیں ہے یوں کہیں تو ایسا موقع آتا ہوگا کہ طاقتور ملکوں کی قیادت کو خیال آتا ہوگا کہ خون اور پھر خون کا کھیل روکنے اور زمین پر امن کے لئے اثرورسوخ استعمال کیاجائے۔

امریکہ سمیت کون سا ملک نہیں جانتاہے کہ کشمیر کا ایشو کیا ہے؟ بھارت کی اس پر کیا پوزیشن ہے؟ اقوام متحدہ میں کمشیر کا معاملہ کب کون اور کیوں لے کر گیا تھا؟ اور سلامتی کونسل میں کشمیر کی کیا پوزیشن ہے؟ ادھر پاکستان کا کشمیر پر کیا موقف ہے؟ پھر کشمیری جو کہ کشمیر کے مالک ہیں اور ان کی ملکیت کو کوئی چیلنج کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، ان کا موقف کیا ہے؟ ان ساری حقیقتوں کے باوجود دنیا کے تھانیدار، منصف کشمیر کے معاملے پر مودی کو یہ حق کیوں دے رہے ہیں کہ وہ یہ کرے اور وہ کرے؟

ظلم کی قیادت کشمیریوں پر ڈھا دے۔ یہاں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں وہ عالمی کردار خاموش کیوں ہیں، جوکہ ساری دنیا میں اس بات کا واویلا اور کریڈٹ لیتے ہیں کہ وہ دنیا میں امن قائم رکھنے والے اور سب کو آزادی سے جینے کا حق دینے والے بڑے چمپین ہیں؟ یہاں ان کی منافقانہ پالیسی عیاں ہوتی ہے۔ اور تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ کشمیر متنازع ایشو کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کشمیر میں سلگتی آگ پورے خطے کے امن کو اپنی لیپٹ میں لے سکتی ہے۔

یہاں ایک بار پھر ہم امریکہ کے کردار کی طرف آتے ہیں جوکہ میرے نزدیک تو دوست جیسا کردار ادا نہیں کررہا ہے بلکہ اس کے الٹ چل رہا ہے۔ کشمیر جوکہ خطے میں اہم ترین ایشو ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان میں تنازعات میں سے مرکزی تنازع ہے۔ لیکن اس تلخ صورتحال میں امریکہ ایک طرف پاکستان کو تھپکی دیتا ہے کہ کشمیر پر آپ کا اور کشمیری قوم کا موقف درست ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی لیڈرشپ کو بھی انگلی کرواتا ہے کہ جوکشمیر میں آپ کررہے ہیں، وہ بھی ٹھیک ہے، جس کا یہ ملطب لیاجاسکتاہے کہ ہمدردی پاکستان کے ساتھ اور تلواریں بھارت کے ساتھ ہیں۔

اور سب گول ہے۔ راقم الحروف کو قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ایریا اسٹڈی سنٹرفار افریقہ، نارتھ اینڈ ساوتھ امریکہ میں امریکن اسٹیڈیز میں ماسٹر آف فلاسفی (ایم فل) کے طالب علم کی حیثیت میں تحقیق کے دوران اس بات کا پتہ چلا کہ آج کی طرح یہی کچھ امریکی صدر نکسن اور کسنجر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں مشرقی پاکستان کے درمیان ٹکراوکے وقت کررہے تھے۔ امریکہ کی اس وقت تھپکی ہماری پیٹھ پر تھی تو انگلی بھارت کے لئے بھی تھی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری پیٹھ میں اس وقت ہمارے حکمرانوں جوکہ امریکہ بہادر کے چہتے، اور منظور نظر تھے، وہ چھرا گھونپا کہ آج تک قوم مشرقی پاکستان کے سانحہ سے نہیں نکل سکی ہے اور نہ ہی خطے کو امن نصیب ہوا۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ میں امریکی آخری وقت تک تسلی کرواتے رہے کہ سب اچھا ہے۔ پھر امریکہ بہادر نے یہاں ایک طرف سے بیک ڈور ڈپلومیسی سے روس کے ساتھ معاملات طے کرکے ہماری افواج کے ہتھیار ڈلوانے کی کارروائی کا انتظام کروایا، اور دوسری طرف ہمارے ساتھ ہمدرد اور مخلص ہونے کا یقین یوں دلایا کہ بھارت تو آپ کے مغربی پاکستان کے بھی درپے تھا۔

یہ تو میری بیک ڈور ڈپلومیسی تھی مغربی پاکستان تک پاکستان قائم ودائم ہے۔ پھر یوں ہوا کہ مشرقی پاکستان کے سانحہ میں تنیوں مرکزی کردار شیخ مجیب رحمان، ذوالفقار علی بھٹو اور اندرگاندھی قتل کردیئے گئے۔ بھٹو صاحب کے لئے بھی قتل کا لفظ غلطی سے نہیں لکھا ہے بلکہ اس لیے جان بوجھ کر لکھا ہے کہ ان کے بارے میں بھی سب کا اتفاق ہے کہ موصوف کی زندگی کا خاتمہ عدالتی قتل ہے۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد اس خطے میں یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ خطے کی سیاسی لیڈرشپ کو یوں ایک مختصر عرصہ میں سیاسی منظرنامہ سے قتل وغارت کرکے ہٹا دیا گیا۔

اس کارروائی کے پیچھے کون سی طاقت تھی؟ اور کون سی طاقت ان چلاک، ہوشیار اور پڑھی لکھی لیڈرشپ سے خوف زدہ تھی۔ اس مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد ان کو یقین ہوچکاتھا کہ خطے میں خون اور نفرت کی جنگ کی بنیاد رکھی جاچکی ہے جوکہ اب نسلوں تک چلے گی اور چل رہی ہے۔ یوں یہاں کی لیڈر شپ کے خاتمہ کا وقت آچکاہے۔ اس بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے وگرنہ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے حقیقی اور ذمہ دار کردار پردے کے پیچھے رہیں گے اور ہم کملوں کی طرح پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ کا کردار اداکرتے رہیں گے۔

راقم الحروف کی خواہش ہے کہ ایم فل کے تھیس (Regional conflict in south Asia، Secession : Case Study 1971 ) کو آگے پی ایچ ڈی میں جاری رکھا جائے کیونکہ پی ایچ ڈی میں ایم فل کی نسبت وقت زیادہ ہوتا ہے، یوں تحقیق تسلی سے کی جاسکتی ہے۔ پی ایچ ڈی کی اس تحقیق کے دوران مجیب، بھٹو اور اندر گاندھی کے کردار کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے لیکن خاص طورپر مشرقی پاکستان کے ایشو میں امریکہ ڈپلومیسی کیوں ناکام ہوئی؟ اس سوال کا جواب کو ریسرچ میں خاص طورپر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ امریکہ بہادر سردجنگ میں اگلے محاذ مطلب افغانستان میں پاکستانی قوم کو ایک زخمی شیر کی حالت میں لے جانے کا متمنی تھا۔ ہماری بات کشمیر سے چلی تھی، اور اسی طرف واپس آتے ہیں۔ بھارت نے کشمیر کے ایشو پرسارے اخلاقی اور قانونی جواز خود ہی ختم کرلیے ہیں۔ کشمیری بھارت کے تسلط و ظلم کو کل بھی زندگی پر کھیل کر چیلنج کررہے تھے اور آج بھی کررہے ہیں۔ کشمیر، کشمیریوں کا تھا اور ہے، ان کا موقف واضع ہے، وہ بھارت کے تسلط کو قبول نہیں کرتے ہیں۔

لیکن اس پورے سچ کے باوجود مہذب دنیا کی دعویدار قیادت منافقانہ کردار اداکرکے مایوس کررہی ہے۔ امریکہ کو افغان ایشو میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کی ضرورت ہو یا پھرکہیں بھی اگلے محاذوں پر پہنچانا ہو؟ ہماری بادشاہ قیادت انگوٹھا تیار رکھتی اور اگلے محاذ پر قوم کو لے کر پہنچ جاتی ہے لیکن کشمیر جوکہ پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا ایشو ہے، پھر کشمیری ایک لمحہ کے لئے بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہیں۔

ریفرنڈم سے لیکردنیا جو بھی کروالے کشمیریوں کا موقف بھارت کے خلاف ہے۔ اس صورتحال میں امریکی صدر ٹرمپ امن کی خاطر کوئی فیصلہ کن کردار اداکرنے کی بجائے مودی کو چٹکلے سنا کر اور قہقے لگوا کر کشمیری اور پاکستانی قوم کے زخموں پر نمک پاشی کیوں کررہے ہیں؟ اور یہ سوال بھی غورطلب ہے کہ جو امریکہ، افغانستان میں امن کا داعی ہے اور ہونا بھی چاہیے، وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے میں بحیثٰت سپر پاور کوئی فیصلہ کن اداکرنے سے گریزاں کیوں ہے؟ آخر پر ہم تو امریکہ بہادر سے اتنا عرض کریں گے، آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں۔ ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).