دادی بکھوڑی


ہم سب بڑے ہو رہے تھے۔ گھر میں اب کوئی مرد ملازم نہ پھٹک سکتا تھا۔ ایک آدھ عورت ہی آتی تھی۔ وہ بھی کام کاج کر کے روانہ ہو جاتی تھی۔ اب دادی کی رشتے دار عورتیں بھی کم کم آنے لگی تھیں کہ ان کی جگہ مشینیں آگئی تھیں۔ مصالحہ سل بٹوں پہ پسنے کی شرط پر امی نے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ صاف ستھرے، پسے پسائے مصالحے تھیلیوں میں گھر آنے لگے۔ گھر کی چکی کے بجائے، آٹا پیسنے والی چکی پہ گندم جانے لگی اور چاچا گلاب کاندھے پہ آٹے کی بوری لادے، گھر کی دہلیز پہ دھر جاتا تھا۔

اب بھی کبھی کبھار دادی اپنی رشتے دار عورتوں کو لاتی تو تھی مگر انہیں زیادہ تر کسی ہسپتال میں ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے لے جانا ہوتا تھا۔ چند گھنٹے وہ عورتیں، دادی کے ہمراہ گھر میں رکتی تھیں اور دوپہر کا کھانا کھاتے ہی گاؤں جانے والی بس میں سوار ہونے کے لیے نکل جاتی تھیں۔ امی کو دادی کی رشتے دار عورتوں سے خاص چڑ ہو گئی تھی۔ ”سگریٹ پھونکنے کے لیے آتی ہیں یہاں جاہل عورتیں“ ۔ امی کا غصہ بڑھنے لگتا تھا ان عورتوں کو دیکھتے ہی۔

وہ ایک ٹھٹھرتی ہوئی سیاہ رات تھی، جب سرشام ہی امی نے انگیٹھی لا کر برآمدے کے وسط میں رکھ دی تھی اورہم سب بہن بھائی اپنی اپنی چارپائی پر لحافوں میں دبکے سورہے تھے۔ رات کے کوئی دس بجے تھے کہ کچھ زیادہ، دروازے کی دستک پر کھتا اوڑھے ابا جی گئے تو اپنے ساتھ ایک سایہ سا لیتے آئے۔ میری آنکھیں، کان اور دماغ ہر انہونی اور ہونی کو عجیب ہی طرح سے محسوس کرتے تھے۔ میں ابا کے دائیں طرف بچھی چارپائی پر سوتی تھی۔ امی اور ابا کی چارپائیوں کے درمیان انگیٹھی جل رہی تھی۔ لال لال دہکتے کوئلے، جن کے کناروں پہ سیاہ سیاہ حاشیے تھے، بالکل بھوتوں کی شکل والے کوئلے، ہلکا ہلکا دھواں، کہیں کہیں راکھ سے ڈھکی روشنی کی جل بجھ۔ میرا سر لحاف سے باہر تھا اور میں مندھی مندھی آنکھوں سے یہ ماجرا دیکھ رہی تھی۔

ابا کے ساتھ آتا سایہ دادی تھی، جو اپنی پرانی اونی شال میں کچھ ڈھکے آرہی تھی۔ امی بھی لحاف کو اپنے اردگرد لپیٹ کر اپنی چارپائی پہ بیٹھ گئیں۔ امی کی سرگوشی سننے کو آئی، ”سب اسکولوں کالجوں سے تھکے تھکے آتے ہیں۔ گہری نیند میں سو رہے ہیں“ ۔

”بچہ۔ بچہ۔“

حیرانی اور قدرے پریشانی سے بولے گئے اس لفظ کی بار بار بدبداہٹ نے میری سماعت کے ریڈار مزید چوکنے کر دیے۔ دادی نے چوکس نظروں سے آس پاس کاجائزہ لیا۔ ابا اور امی کے انداز سے ہویدا تھا کہ وہ کسی اچھنبے کی منتظر ہیں۔ اچانک منظر میں ایک ننگ دھڑنگ بچے کے وجود کا اضافہ ہو گیا۔ ایک ہلکی سی آواز سنائی دی جیسے کسی خونخوار بلے نے کسی بلونگڑے کو دبوچا ہو۔

دونوں چارپائیوں اور انگیٹھی کے درمیان ایک بڑی سی چوکی کا اضافہ ہو چکا تھا۔ جس کا درمیانہ حصہ بان کی رسی سے بنا ہوا تھا۔ ابا نے دادی کو لحاف بھی دے دیا تھا۔ گوشت پوست کے لوتھڑے کی ایک جھلک کسی ڈراؤنے خواب کی طرح نظر آئی تھی اور میرے وجود کو لرزا گئی تھی۔

اب دادی کی باری تھی۔ جلتے بجھتے کوئلوں کی جھل مل، دھوئیں کی پراسرار خوشبو، میرے ماں باپ کے ہنکارے۔ اور دادی کی سرسراتی سرگوشیاں۔

ٹوٹے ٹوٹے۔ زخمی، کرلاتے لفظوں سے بنتے، ٹوٹتے جملوں نے بہت شکستہ کہانی ترتیب دی تھی۔ ”شدید سردی سے۔ نیلا ہوا پڑا۔ مگر جان تھی۔ رونے کی آواز پر میں ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔ شاید چند لمحے پیشتر ہی کسی نے اسے رکھا تھا۔ اسی لیے زندہ بچا ہوا تھا ورنہ اس سردی میں تو پارہ بھی جم جائے“ ۔

دادی کی آواز لرز رہی تھی۔

”میں نے بچے کو لپک کر اٹھا لیا۔ برف جیسا گوشت۔ ایک دو کتے تو قریب ہی تھے۔ ۔ بھونکنے لگے۔ میری تو جان ہی نکل گئی۔ ہمت کر کے ایک ہاتھ سے بچہ تھاما اور دوسرے سے کتوں کو پتھر اچھالا۔ یہ شہری کتے ہوتے تو بزدل ہی ہیں، پیچھے ہٹے تو میں نے جلدی سے دو تین پتھر اور سنبھالے۔ اور اس معصوم سی جان کو لے آئی“ ۔

میں دم سادھے، آنکھیں بند کیے بستر میں دبکی ایک ایک لفظ سن رہی تھی۔ میرا پورا جسم کان بن گیا تھا۔ بچے کی آواز میرے کانوں میں نہیں آئی۔ نہ ہی میں اسے پوری طرح دیکھ پائی تھی۔ شاید وہ عجیب اجنبی آواز۔ جو دادی کے بیٹھنے سے پہلے آئی تھی۔ وہ اس بچے کے حلق سے نکلی تھی یا شاید نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ چارپائی کے ہلنے۔ یا چوکی کے رکھنے سے آئی تھی۔ جو کچھ بھی تھا مگر وہ آواز میری سماعت میں کنڈلی مار کر بیٹھ گئی۔ لمحہ لمحہ ڈستی ہوئی آواز۔

دل تڑپنے لگا۔ کیسے اٹھوں، کہاں سے جھانکوں، کیسے دیکھ لوں اس ننھی سی جان کو۔ مگر میں تو کروٹ تک نہیں بدل سکتی تھی۔ دہشت سے جسم کانپ رہاتھا۔ کیسا ہوگا؟ کوئی تو باپ بھی ہوگا اس کا۔ دنیا میں آنے کا جرم۔ کس شکم میں رہا ہوگا اتنے مہینے۔ اور کس کے خوف سے پورا بچہ۔ وہ بھی بیٹا اٹھا کر گٹر کنارے ڈال دیا۔ اخبار میں کبھی کبھار خبر لگتی تھی۔

”کنواری ماں کے گناہ کی سزا“ ۔

نہ کنواری ماں کا مطلب سمجھ میں آیا، نہ گناہ کا اور نہ ہی سزا اور جزا کی رام کہانی کو عقل کبھی مان سکی۔ جسمانی ملاپ کا گناہ۔ اور عورت کی بیضہ دانی میں مرد کے سپرم جانے کا جرم۔

ابا نے انگیٹھی کی راکھ جھاڑی۔ میرے بستر کی طرف آئے۔ میری پشت کی طرف سے رضائی کھینچ کر میری پیٹھ کے نیچے دبائی۔ پھر میرے سر پر رضائی کا سرا اچھی طرح ٹکایا۔ پور پور جاگتے ہوئے، دم سادھے رہنا آسان نہ تھا مگر اس سنسنی اور حیرت و دکھ بھری صورت حال کو مکمل طور پر سمجھنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ میں اسی عالم میں مردہ سی بنی پڑی رہی۔

امی کو دیکھا شہد کی بوتل دادی کے حوالے کر رہی تھی۔

” بیچارہ بالکل برف بناہوا تھا۔ شکر ہے کسی پولیس والے نے مجھے یہ بچہ لاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں سیدھا اسے یہاں لے آئی ہوں۔ خدا لمبی حیاتی دے۔ ساری عمر بیٹا بیٹا کرتی رہی۔ میاں اس غم میں رخصت ہوا۔ بیٹا سہارا ہوتا ہے۔ لاٹھی ہوتا ہے بوڑھے ماں باپ کی۔ نہ مجھے نرینہ اولاد، نہ میری کسی بیٹی کو۔ پھر بیٹی کی بیٹی اور بھی دو بیٹیاں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو گئیں۔ نہ کوئی آگے نہ پیچھے۔ شاید اسی روپ میں خدا نے ہمارے گھر بیٹا دینا ہو“ ۔ دادی کی سرگوشی میں آس اور امید کے تارے ٹمٹمارہے تھے۔

”مجھے کیا، کہاں سے آیا ہے۔ میرے لیے تو اللہ سائیں کی امانت ہے۔ باقی ماندہ بڑھاپا اس کے جوان ہونے کی آس میں گزار دوں گی۔ بیٹے کے بغیر بڑھاپا کیسے گزرتا ہے، کوئی مجھ سے پوچھے! اس کو پڑھاؤں گی۔ ۔ نر بچہ تو پندرہ، سولہ برس میں جوان آدمی بن جاتا ہے، کماؤ پوت بن جاتا ہے“ ۔

وہ رات، اچانک ایک عجیب خواب رات سی بن گئی۔ ایسی ٹھنڈی ٹھار رات میں دہشت کے باوجود ایک سکون کی سی لہر میرے وجود میں اترنے لگی۔ بچے کو گھر مل گیا۔ ماں جیسی محبت کرنے والی دادی مل گئی، مجھے اندر ہی اندر خوشی سی محسوس ہونے لگی اور نہ جانے کس پہر میری آنکھ لگ گئی۔

صبح آنکھ کھلی تو دادی کا پوری رات کا بنایا ہوا محل چکنا چور تھا۔ دادی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ رہی تھی۔ بے آواز آنسو دادی کے دوپٹے میں جذب ہو رہے تھے۔ میرے بہن بھائی اسکول اور کالج جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

میں نے کن اکھیوں سے دادی کو دیکھا۔ دادی مجھے پہلے کبھی اتنی اکیلی، تنہا اور ویران نظر نہیں آئی تھی۔ نہ بچہ تھا نہ بچپن، نہ اس کا اسکول، نہ اس کی جوانی۔ نہ اس کی نوکری، نہ دادی کی لاٹھی اور نہ دادی کے بڑھاپے کے سنورنے کی کوئی امید۔ دادی کے لبوں پہ ”جو اللہ سائیں کی رضا“ کا ورد تھا۔

بچہ کسی عورت کے پیٹ میں، کسی مرد سے ملن کے نتیجے میں بنا، اللہ کی رضا۔
عورت کے پیٹ میں پورا بچہ بنا۔ اللہ کی رضا۔
بچہ پیٹ سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا، اللہ کی رضا۔
بچہ ٹھنڈ کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ اللہ کی رضا۔

دادی کی بے رنگ زندگی میں دکھ کی ایک اور کیل ٹھک گئی، اللہ کی رضا۔
دادی بار بار دوپٹے سے اپنی آنکھیں رگڑ رہی تھی۔
”دادی طبیعت تو ٹھیک ہے؟“ میری آواز بھی بھرا سی گئی۔
امی نے توے پہ پراٹھا ڈالتے ہوئے کہا ”بکھوڑی بچی کے سامنے مت رو، اس کا دل کمزور ہے، کسی کو روتے دیکھتی ہے تو فوراً رو دیتی ہے“ ۔

”جانتی ہوں میں اسے۔ میرے ہاتھوں میں بڑی ہوئی ہے، ابھی تک سوتے میں دودھ پیتی ہے“ ۔ دادی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ میں نے دادی کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ دادی کا بازو بہت گرم تھا۔ آنسوؤں سے ترچہرے پر دادی کی بوڑھی اور زخمی آنکھیں دیکھ کر میرا کلیجہ دہل گیا۔ ”دادی ڈاکٹر سے دوائی لے لینا“ ۔ میرے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔ میں رونا چاہتی تھی۔ مگر امی کے سامنے صبر اور ضبط سے بیٹھی رہی، پھر آزردہ سی اسکول چلی گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4