گلگت بلتستان : نوآبادیات کا گمنام گوشہ


کرؤان ولز کو عام طور قانون کی بالادستی کا قیام عمل میں لانے والے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے۔ البتہ William Bentinck کے دور میں بھی انڈیا میں اصلاحات کی گئیں اور چار ڈسٹرکٹ عدالتوں کا خاتمہ کرکے ان کا کام کلکٹر کے سپرد کردیا گیا جو کمشنر آف ریونیو اور سرکٹ کے ماتحت تھے۔ اس کے علاوہ الہ آباد میں صدر دیوانی عدالت اور صدر نظامت عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ماتحت عدلیہ میں فارسی کو عدالتی زبان کا درجہ دیا جبکہ سپریم کورٹ میں تمام تر عدالتی کارروائی کے لیے انگریزی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔

اسی دوران انڈین قوانین کی تدوین کرنے کے لیے کمیشن مقرر کیا گیا جس نے 1859 کے سول پروسیجر کوڈ کو انڈین پینل کوڈ 1860 کا نام دیا اور ساتھ ہی ساتھ کرمنل پروسیجر کوڈ 1861 بھی تیار کیا۔ 1935 میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نافذ کیا گیا اور اس نئے قانون نے انڈیا میں حکومتی ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا۔ نظام حکومت ایک اکائی یعنی یونیفارم سسٹم سے بدل کر فیڈرل طرز کی نظام حکومت قائم ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ فیڈرل کورٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جس کو دیوانی اور فوجداری مقدمات میں اپیلٹ جورسڈکشن حاصل تھی۔

ان نوآبادیاتی عدالتوں کے قیام سے قبل برصغیر میں مغل کورٹس موجود تھے یا مقدمہ بازی کی صورت میں کاسٹ کے بڑے یا گاؤں کی پنچایت فیصلے صادر کیا کرتے تھے۔ مغل شہنشاہیت کے دور میں مسلمان قاضی بھی فیصلے کرتے تھے اور بادشاہ سلامت کو انصاف کا سرچشمہ مانا جاتا تھا اور بادشاہ سلامت کا فیصلہ حرف آخر ماننا جاتا تھا۔ لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے بنائے گئے مندرجہ بالا عدالتوں کے فیصلوں سے اگر کوئی فریق مقدمہ مطمعن نہ ہو تو وہ صدر دیوانی عدالت میں اپیل دائر کرسکتے تھے جو سپریم کونسل کے ایک صدر اور ممبران کے زیر نگرانی کام کرتے تھے۔

لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ”ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا کی بہترین تجارتی کارپوریشن ہے، جس کے پاس اپنی پرائیویٹ فوج بھی تھی تاکہ اپنے مفادات کی حفاظت کرسکے۔ کمپنی نے ہندوستان کے غریب لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا اور کرائے کے ان سپاہیوں کے ذریعے اس تجارتی کمپنی نے ہندوستان پر قبضہ کیا اور اسے اپنی کالونی بنا کر دو سو سال تک اپنے زیر تسلط رکھا اور انڈیا کی تاریخ بدل کر رکھ دیا۔ “

10 مئی 1857 کی ناکام جنگ آزادی ہند کے بعد ہزاروں افراد کا قتل عام کیا گیا اور مغلیہ سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگون کے ایک زندان میں قید کر دیا گیا جہاں وہ شاعری کرتے ہوئے وفات پا گئے۔ جبکہ بغاوت ہند کو بے رحمی سے کچل دینے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے ملکہ برطانیہ وکٹوریہ یعنی تاج برطانیہ نے ہندوستان پر براہ راست حکومت کرنا شروع کردیا۔ جو سرکاری طور پر 1876 کے بعد باقاعدہ طور پر انڈیا کی ملکہ کہلانے لگی۔

برٹش راج انڈیا میں دو طرح کے علاقوں پر مشتمل تھا، انڈیا کا ایک حصہ برٹش انڈیا اور دوسرا حصّہ شاہی ریاستوں پر مشتمل تھا۔

برطانوی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کے تعبیر و تشریح کے ایکٹ 1889 کے سیکشن 18 میں بیان کی گئی تشریح کے مطابق برٹش انڈیا میں وہ تمام علاقے /زمینیں شامل ہیں جن پر تاج برطانیہ گورنر جنرل آف انڈیا یا اس کے ماتحت کسی بھی آفسر کے ذریعے حکومت کرتی ہو یاوہ تمام شاہی ریاستیں جو برٹش کروان کے نام پر وائسرائے ہند کے زیر انتظام چلائی جاتی ہیں۔

تاج برطانیہ نے انڈیا میں سیاسی معاشی، انتظامی اور قانونی معاملات چلانے کے لئے برٹش انڈیا ایکٹ 1858 کے ذریعے حکومتی سطح پر تین طرح کی تبدیلیاں انڈیا میں متعارف کروائیں۔

1۔ لندن سے ایک کیبنٹ لیول کے سکریٹری کو بطور سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا مقرر کیا گیا۔

2۔ پندرہ ممبران پر مشتمل ایک ”کونسل فار انڈیا“ بنائی گئی، جن کا کام سیکرٹری آف سٹیٹ فار انڈیا کی مدر کرنا تھا۔

3۔ انڈیامیں حکومت کرنے کا اختیار ایسٹ انڈیا کمپنی سے تاج برطانیہ کو منتقل ہوا اور تاج برطانیہ نے انڈیا کے 2 / 3 حصے پر براہ راست حکومت کی جبکہ برٹش انڈیا کے بقیہ 45 فیصد رقبے پر موجود 680 شاہی ریاستوں کو اپنے زیر تسلط لاکر شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کے ذریعے حکومت کرتے رہے اس طرح کی پالیسی کے تحت تاج برطانیہ نے انڈیا پر دوسو سال تک حکومت کی۔

ابتدا میں ایک پالیسی کے تحت برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے معاملات کو براہ راست برطانیہ کے پارلیمنٹ کے زیر نگرانی لایا گیا، پھر 1813 کے چارٹر کا اطلاق کرتے ہوئے انڈیا میں مکمل نوآبادیاتی ایڈمنسٹریشن اور کمپنی کی علیحدہ علاقائی اور تجارتی جورسڈکشن کا اطلاق کیا گیا۔ اسی دوران کمپنی نے برطانوی سفیر مقرر کیے اور دیگر متصل کارخانوں کا قیام عمل میں لایاگیا اور انڈیا میں برطانوی سیٹلمنٹ کی شروعات کی گئی، اور ساتھ ہی ساتھ اپنی نوآبادیاتی سلطنت میں آرڈر، اور قوانین میں یکسانیت کے لیے قوانین کی تدوین کرکے مرتب کیا۔

ان تمام نوآبادیاتی قوانین کا مقصد رول آف لاء کے نفاذ سے زیادہ مقامی بغاوت کو دبانا تھا۔ تاج برطانیہ نے مغلیہ سلطنت کے کورٹ کو ختم کیا اور برصغیر میں 1857 میں ناکام بغاوت ہند کے بعد 1858 میں برٹش انڈیا ایکٹ متعارف کروایا۔ ساتھ میں اپنی پاور بیس کو مضبوط کرنے کے لیے انگریزی زبان متعارف کروائی اور ایک ایسی ایلیٹ کلاس پیدا کی جو بنیادی طور پر انڈین تھے مگر کلچرل طور پر انگریز جیسے تھے۔ 1860 میں برصغیر کو نئے قوانین کا مجموعہ دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ آنڈین پینل کوڈ متعارف کرایا گیا۔ 1862 میں Crpc کریمنل پروسیجر کوڈ بھی متعارف کرایا گیا مگر اس ضابطہ کے تحت انڈیا کے ججوں کو پابند کیا گیا کہ وہ برطانیہ اور یورپ کے شہریوں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کرسکتے تھے۔

1908۔ 1909 کے دوران منٹو مارلے ریفارمز کے تحت قانون ساز کونسل کے رکن بننے کے لیے انڈیا کے شہریوں کو اجازت دی گئی مگر اس قانون کے تحت اختیارات ان لوگوں کے ہاتھوں میں دیا گیا جنھیں تاج برطانیہ نامزد کرتا تھا۔ جسے کہ آرڈر دو ہزار اٹھارہ کے تحت گلگت بلتستان کونسل کے چھ غیر منتخب ممبران کو وزیر اعظم پاکستان منتخب کرتا ہے جو خود گلگت بلتستان کونسل کے چیئرمین ہیں، جس کے کسی بھی حکم کو گلگت بلتستان کے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے نہ ہی آرڈر 2018 یا آرڈر 2019 کو گلگت بلتستان کے چیف کورٹ یا سپریم اپیلیٹ کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3