سراب کا تعاقب


72 سال سے سرابوں کا پیچھا کررہے ہیں کہ ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آرہا۔ ہم کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس کی پوری جانچ پڑتال اور تحقیق نہیں کر پاتے یا پھر ہمارے مشیر نالائق ہیں یا ہم کسی کی بات نہیں سنتے اور ٹھوکر کھا کر ہی واپس مڑتے ہیں جسے یو ٹرن بولتے ہیں۔ پھر ہم معصوم بن کر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمیں تو اس کا اندازہ ہی نہیں تھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف نے مئی 2013 کے انتخابات کے بعد اپنا پہلا خطاب کرنے میں تین مہینے لگا دیے اس خطاب میں انہوں انتہائی حیرانی کا اظہار کیا کہ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملک کے حالات اتنے زیادہ خراب ہیں کیونکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے فرضی کابینہ بنانے کا یہاں رواج ہی نہیں۔ ہم تو صرف آخری لمحے جاگنے والی قوم ہیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’بُوہے آئی جنج تے ونہو کڑی دے کن‘ یعنی دروازے پر بارات کھڑی ہے اوردلہن کے کان ابھی چھدوانے ہیں۔

سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے ستائے لوگوں سے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے وعدہ کیا وہ چھ مہینے میں ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے۔ جو اتنے کم عرصے میں ناممکنات میں سے تھا۔ بعد میں نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی کے بلند و بانگ دعویٰ پر کہا کہ وہ کچھ زیادہ جذباتی ہے لہٰذا بجلی کی کمی ایک دو سال میں پوری کرلی جائے گی۔ مگر پوری توانائی اور اندھا دھند مالی وسائل بروئے کار لانے کے بعد بھی انہیں بجلی بناتے پانچ سال لگے۔

آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ عمران خان اور قدرے پڑھے لکھے لوگوں کی تصور کی جانے والی جماعت تحریک انصاف نے تو ایسی لمبی لمبی چھوڑیں کے ناقدین ششدر رہ گئے۔ بعض نے تو سمجھا کے یہ سب الیکشن کے نعرے ہیں جب انہیں حکومت ملے گی یہ خود ہی اس خیالی دنیا سے نکل آئیں گے۔ مگر ناقدین کو یقین نہیں آیا کہ تحریک انصاف تو انتہائی سنجیدہ ہے کہ ملک سے باہرغیر قانونی طریقے سے جمع پاکستانی سیاستدانوں کے 200 ارب ڈالر واپس لائے جائیں گے۔ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئیں۔ پھر پتا چلا کہ جتنا شور مچایا جا رہا ہے اتنا پیسہ ہے بھی نہیں اور اس ’لوٹ مار‘ کو واپس لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ایک طرف سرکاری محکمے کہتے ہیں کہ بیرون ملک پاکساتنیوں کے اثاثے تقریبأ 5 سے 7 ارب ڈالر ہیں اور کچھ اثاثے اماراتی ریاستیں اپنے قوانین کی وجہ سے معلومات فراہم نہیں کرہی ہیں۔ اور دوسری طرف چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی کہتے ہیں کہ ان اثاثوں کی مالیت 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کتنی رقم بیرون ملک ہے اور کیا وہ ساری غیرقانونی ہے؟

عوام پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ۔ سب یہ سمجھ بیٹھے کہ بڑے بڑے سیاستدانوں سے ’لوٹ مار‘ کا پیسہ برآمد کرکے پاکستان کے تمام معاشی مسائل حل کیے جا سکتے۔ اور یہ بیانیہ خود وزیراعظم عمران خان نے دیا۔ جو اب لگ رہا ہے کہ پورا ہونے والا نہیں۔

کشمیر کے مسئلے پر پوری قوم لاعلم ہے کہ ہماری منزل ہے کیا۔ اندازہ نہیں تھا کہ مودی ہمارے ساتھ یہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ ایک بے راہروی کا عالم ہے جس سے عام آدمی میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔

نیب کے چئیرمین نے حال ہی میں بتایا کہ ان کے ادارے نے 1997 سے لے کر اب تک 326 ارب روپے کی ریکوری کی ہے جواوسطاً سالانہ 15 ارب روپے بنتی ہے۔ یہی ریکوری 2017 میں 290 ارب روپے تھی اس کا مطلب ہے کہ دو سال میں بڑے بڑے دعووں کے برعکس ریکوری کی رفتار میں 36 ارب روپے کا معمولی اضافہ ممکن ہو سکا۔ حالانکہ ان دوسالوں میں ’کرپشن اور لوٹ مار‘ کے خلاف مہم میں جتنی تیزی آئی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بڑے بڑے الزامات اورسابق وزراء اعظم سمیت قد آورسیاسی شخصیات کی گرفتاریوں کے باوجود نیب کا ادارہ کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کرسکا۔ بلکہ اپنی ساکھ مزید خراب کر بیٹھا۔

بے سمت پالیسیاں ہمیں ایک دائرے میں گھما رہی ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کو ایسا فروغ دیا گیا کہ اسے قومی بیانیہ بنا بیٹھے جس کی مخالفت کرنے والوں کو اسلام دشمن قرار دے دیا۔ اب دنیا کے دباؤ میں آکر انہی شدت پسندوں سے جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور دوسری طرف ہم کہتے ہیں کہ ایشین ٹائیگرنہیں بنیں گے بلکہ ہم میں ریاست مدینہ بننے کی جستجو جاگ اٹھی ہے۔ کیسے بنیں گی اس کی کوئی منصوبہ بندی کہیں دوردور تک نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹرائن بہت سے ہیں لیکن افشا نہیں کرسکتے۔ اسی لیے تو ایک سال بیت گیا مگر کسی ڈاکٹرائن کے چند نکات ڈھونڈنے سے نہیں مل رہے۔

کبھی عدالت سے حکم آتا ہے کہ اردو کو فوری طورپر سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے اور تمام خط و کتابت اردوزبان میں کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ آئین پاکستان کہتا ہے کہ ریاست کا کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہو گا اور حکومت عوام کو اسلامی تعلیمات مے مطابق عمل کرنے اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے مدد کرے گی۔ مدرسوں کے جال بچھاتے مگر دوسری طرف انگریزی تعلیمی نظام آہستہ آہستہ سرکاری نظام تعلیم کو روندتا ہوا تیزی سے آگے نکل رہا ہے اور ہم روحانیت کو سپر سائنس کے طور پر متعارف کرانے جا رہے ہیں جس کے بعد بڑے بڑے لیڈر پیدا ہوں گے۔

افغانستان میں سٹرٹیجک ڈیپتھ یا تزویراتی گہرائی کا نظریہ اپناتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں کو کمزور کررہا ہے۔ یعنی ہمارا نظریہ ناکام اور بھارت کا کامیاب۔ پھر ہم مغرب سے آنکھیں پھیر کر چین اور روس سے پینگیں بڑھانے کے جتن کرنے لگ جاتے ہیں۔ یک دم خیال آتا ہے کہ امریکہ واپس جانا چاہیے۔ یوں ہم اک بھنور سے نکلتے ہیں تو دوسرے میں داخل ہو جاتے ہیں۔

جب ایک ایماندار وزیراعظم ہو گا تو لوگ خود ٹیکس دیں گے مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔ ایک سال بعد یاد آیا کہ لوگوں سے پوچھا جائے کہ ہماری کارکردگی کیسی ہے۔ حالانکہ عوام چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ وہ لٹ گئے ہیں۔ سروے میں معاشی کارکردگی، آئی ایم ایف ڈیل، اداروں میں اصلاحات، احتساب اور خارجہ پالیسی جیسے بڑے موضوعات کے ساتھ ڈال دیا ’پناہ گاہیں‘ تاکہ شاید کوئی اسی پر ’ٹک‘ کردے کیونکہ باقی تو سب ناکام ہوگئے۔ پنا گاہیں اس لیے بنائیں کہ انہیں معلوم تھا کہ جب ہماری حکومت آئے گی توعوام ’پناہ‘ ہی مانگیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).