گم شدہ شہری دفاع


 

آج جس وقت ہم کراچی میں مون سون کی بارشوں کے باعث ہونے والی شہادتوں، بقرعید کے بعد کراچی کے تعفن اور کچرے سے نمٹنے کے لئے ذمہ داریوں کے تعین میں ہی لگے ہیں، وہیں آج بھاماس کو، کیٹگری 5 کے طوفان ”ڈوریان“ نے ہٹ کیا ہے اور اس طوفان کے نقصانات خصوصاً، جانی نقصانات سے بچنے کے لئے وہاں کی انتظامیہ نے آبادی کے مکمل انخلا کو یقینی بنایا ہے۔

اللہ اس ملک پاکستان، سندھ اور کراچی کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے۔

لیکن زندہ قومیں کسی بھی قسم کے حالات سے نمٹنے کے لئے ناصرف تیار رہتی ہیں بلکہ اپنے آپ کو تیار بھی رکھتیں ہیں۔ موسمی حالات، کشمیر کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو سامنے رکھیں اور اگر خدا نخواستہ کسی بھی قسم کی کوئی جنگی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے تو کیا ایک شہری یا سویلین ادارے اس کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں؟

اس قسم کے حالات کا سامنا کرنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک ادارہ ”شہری دفاع“ کے نام سے ہوا کرتا ہے۔ شہری دفاع کے ادارے کو صدارتی آرڈینینس کے بعد 1952 میں بنایا گیا۔ عام دنوں میں اس ادارے کا کام شہریوں، اسکول اور کالج کے طلبا میں شہری دفاع کی تربیت دینا شامل ہے۔ اورکسی ناگہانی آفت کی صورت میں یہ ادارہ حکومت، فوج اور نجی اداروں کے ساتھ مل کربچاو، حفاظت اور بحالی کے کام کا بھی ذمہ دار ہے تاکہ حادثات کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔

اس کا باقاعدہ ایک ڈائریکٹوریٹ اسلام آباد میں قائم ہے اور کراچی، لاہور، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور، مظفرآباد، ایبٹ آباد میں سول ڈیفینس اسکولز بھی قائم ہیں جو کہ وفاق کے زیر انتظام ہے۔

ریجنٹ پلازہ ہوٹل، کراچی میں ہونے والی آتشزدگی کے بعد یہ سوال بہت تیزی سے سامنے آیا تھا کہ یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرے کہ تعمیر شدہ عمارت میں آتشزدگی کے بچاؤ کے تمام انتظامات موجود ہیں تو اس حوالے سے جناب مراد علی شاہ کو شہری دفاع کے ادارے کے بارے میں بریف کیا گیا تھا۔

سندھ کے موجودہ شہری دفاع کے ادارے کے حالات کا جائزہ لیں تو وہ یہ ہیں کہ اس کے پاس 293 افراد میں سے 147 موجودہ پوسٹوں پر تعینات ہیں اور باقی پوسٹیں خالی ہیں۔ اس ادارے کے پاس کوئی بچاؤ کی گاڑی، ایمبولینس، یا ٹریننگ کے آلات موجود نہیں ہیں یہاں تک کے ان کے پاس رضاکاروں کو دینے کے لئے اعزازئیے کے فنڈز بھی نہیں ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے کی خبر ہے کہ یہ ادارہ جوصوبائی سطح پرپہلے سندھ حکومت کے زیرانتظام تھا، اسے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام دے دیا گیا تھا اور ہمارے مشہورومعروف کراچی کے مئیرجناب وسیم اختر صاحب جن کا ہمیشہ کا رونا اختیارات کا نا ہونا ہے، اس کے کرتا دھرتا ہو گئے تھے۔ سید تسنیم احمد صاحب اس کے پہلے ڈائریکٹر منتخب ہوئے اور چارج لیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح بلند بانگ دعوے بھی کیے گئے۔ ان کے زیر انتظام 23 فائراسٹیشنز اور 6 شہری دفاع کے آفیسز بھی تھے۔ اس ادارے کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اس کے اپنے پاس جو فوٹو اسٹیٹ مشین ہے وہ بھی قابل استعمال نہیں ہے۔

ہمارے پاس ہمارے اپنے ملک میں ریسکیو 1122 جیسے ماڈل ادارے موجود ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم ان جیسے ماڈل اداروں کو اپنے صوبے یا شہروں میں بنانے سے قاصر ہیں اور ان اداروں کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

کچھ مجھ جیسے نوجوان بوڑھوں کی یادداشت میں ایک عدد این سی سی کی ٹریننگ کی یادیں بھی موجود ہیں جو نامعلوم وجوہات کی بنا پر ختم کر دی گئی اور رہی سہی شہریوں کی ان حالات میں ہونے والی ترتیب کا رہا سہا نظام بھی موجود نہیں ہے۔

سندھ اور خصوصا کراچی کی صورتحال میں، مجھے اور آپ کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اللہ نا کرے اگر کوئی ناگہانی صورتحال اس ملک پر آ کھڑی ہوئی تو فوج تو سرحدوں کی حفاظت کرہی لے گی، سرحدوں کے اندر جو صورتحال پیدا ہو گی، اس کے لئے کیا ہم تیار ہیں؟

یا وہ محاذ بھی فوج نے سمبھالنا ہو گا؟

اورسندھ سرکار ہمیشہ کی طرح خواب خرگوش کے مزے اڑاتی رہے گی، مئیر کراچی اپنے اختیارات کا رونا روتے رہیں گے اور اس شہر کی تین کروڑ عوام جو اس وقت کچرے سے پیدا شدہ بیماریوں سے مر رہی ہے وہ بعد میں بھی مرنے کے لئے تیار رہے۔

فوری طور پربلکہ جنگی بنیادوں پر اس ادارے کی تنظیم نو، استعداد کاری میں اضافہ، قابل لوگوں کی تعیناتی کو یقینی اور اس جیسے تمام اداروں، جن میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی، پرووینشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی، پولیس، سرکاری اسپتالوں وغیرہ کو ایک مربوط نظام کے ساتھ جوڑا جائے۔ اورعام شہریوں خصوصا طلبا اور خواتین کو شہری دفاع اور ہنگامی حالات پر قابو پانے کی تربیت کے انتظامات کیے جائیں اور انہیں یہ سکھایا جائے کہ اگر کوئی ہنگامی صورتحال پیدا ہو جائے تو کس طرح اسے رپورٹ کیاجائے اور کہاں کیا جائے۔

اس سلسلے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھر پور مدد لی جاسکتی ہے، ”محافظ“ اور ”سائرن“ نام کی موبائل اپلیکیشنز جو کے پاکستانیوں نے خود بنائی ہوئی ہیں، سے بھی استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور انہیں پاکستان سٹیزن پورٹل کے ساتھ لنک بھی کیا جا سکتا ہے جس میں ایک عام پاکستانی کسی بھی قسم کے حادثے یا ناگہانی آفت کی اطللاع فوری طور پر متعلقہ اداروں کو بھیج سکتا ہو۔

خدارا، جاگ جائیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

اللہ میرا، آپ کا اور اس ملک کا حامی و ناصر ہو، آمین

راشد محمود خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد محمود خان

بلاگر تعلیم کے حوالے سے سافٹ وئیر انجینئر ہیں اور نوجوانوں کی ایک غیرسرکاری تنظیم میں چیف ایگزیکٹیو افسر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

rashid-mehmood-khan has 15 posts and counting.See all posts by rashid-mehmood-khan