طاقت نہیں، قانون کی حکومت چاہیے


پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی یہ آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے کہ ریاست کی اصل طاقت (عوام) جن کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا ہے، بے حقیقت ہو جائے گی اور وہ ادارے جن کے پاس انتظامی امور سنبھالنے کی طاقت موجود ہے، پاکستان کی اصل طاقت بن کر ابھریں گے اور پھر ملک کا آئین و قانون وہی کہلائے گا جو کچھ ان کے منھ سے نکلے گا۔ اس بات کا خطرہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کو بہت جلد ہی ہو گیا تھا۔

انھوں نے کئی بار اداروں کو ہدایات جاری کیں کہ ان کا کام یا تو ملک کے انتظامی امور سنبھالنا، ملک کے عوام کو آئین و قانون کا پابند بنانا ہے یا پھر ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ سیاستدانوں کا کام امور مملکت کو چلانا اورریاست کو ایک فلاحی اسلامی مملکت بنانا ہے۔ وقت نے بہت جلد یہ ثابت کر دیا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے یہ خدشات بالکل بھی غلط نہیں تھے بلکہ گیارہ برسوں کے اندر ہی اندر ان کے سارے خدشات حقیقت کا روپ دھار گئے۔ ایک ایسی سول قیادت جس نے انتہائی غربت اور کسمپرسی کے عالم میں پاکستان کی رہنمائی کرتے ہوئے، جبکہ ان کے پاس بیٹھنے کی جگہ بھی میسر نہیں تھی اور پاکستان کے خزانے میں اتنا پیسہ بھی نہیں تھا کہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تک ادا کر سکے، انھوں نے نہ صرف پاکستان کا آئین ( 1956 ) بنایا بلکہ پاکستان کے ساتھ مخلصی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی کھاتوں سے پیسے نکال کر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تک ادا کیں۔

ایسی مخلص اور اہل ترین قیادت جس نے ”ٹاٹ“ پر بیٹھ کر ملک کا آئین بنایا ہو، جو پاکستان اور پاکستان کے مفلس عوام سے اس درجہ مخلص ہوں کہ اپنی جائیدادیں پاکستان کے لئے وقف کردیں اور غریب ملازمین کی تنخواہیں تک اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کریں، اچانک ان سب کو نالائق و ناہل ترین قرار دے کر اقتدار کی کرسیوں سے ہٹا دینا اور ان کی جگہ ”طاقت“ کی حکمرانی قائم کرکے پوری پاکستانی قوم کو یہ سمجھانا کہ ان کا بنایا ہوا آئین بھی غلط، ان کی قابلیت بھی مشکوک اور قوم سے ان کی مخلصی بھی تشکیک سے پُر تھی اس لئے ریاست پاکستان کو بچانے کے لئے یہ ضروری تھا کہ ”ہم“ آئیں اور قوم کو اس منزل کی جانب رواں دواں کردیں جس کے لئے اس وقت کے لاکھوں انسانوں نے اپنی جان، مال عزت اور آبروؤں کی قربانیاں دی ہیں۔

کئی صدیوں سے غیروں کے امتیازانہ سلوک اور ظلم و ستم سہنے والی قوم اس آس پر کہ شاید آنے والی ”طاقتور“ قیادت ان کو ماضی کی محرومیوں اور اندھیروں سے نکال کر خوشحالی کی زندگی اور روشنیوں کی منزلوں کی جانب لے جائے، اس بڑی تبدیلی پر کسی رد عمل کا مظاہرہ کیے بغیر تیل اور تیل کی دھار کو دیکھتی رہی لیکن جلد ہی اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور بمشکل ایک دہائی ہی گزری تھی کہ قوم کے سامنے طاقت کے ڈھول کے سارے پول کھل گئے۔

پاکستان کے پہلے مارشل لائی دور ہی سے ”الزامات“ کی سیاست کا ایسا آغاز ہوا جس کا سلسلہ تا حال کسی بھی مقام پر رکتا نظر نہیں آرہا۔ پہلے مارشل لا کی وجہ سیاستدانوں کی نا اہلی اور ان کو ملک و قوم کے ساتھ غیر مخلص قرار دینا بتائی گئی۔ سقوط ڈھاکہ اور پاکستان کی دو لختگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی معطلی اور پھر ملک کے اسی وزیر اعظم کو، جس کو خود ”طاقت“ تختہ اقتدار تک لائی تھی، تختہ دار پر چڑھایا گیا اور اسے قاتل و ظالم قرار دیا گیا۔

پی پی پی کی حکومت کو ختم کرنے وجہ نہ صرف بد عنوانیاں قرار دی گئیں بلکہ پورے ملک میں اس کے ”دلائی کیمپوں“ کا جال بھی دکھایا گیا جس میں مخالفین اور خاص طور سے وہ سیاستدان جو اس کے (بھٹو کے ) اور پی پی پی کی مخالفت میں سرگرداں تھے، ان کو وہاں لیجا کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات بھی شامل تھے لہٰذا ضیا الحق کے 11 سال مارشلائی دور میں ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کے نعرے لگائے جاتے رہے جس پر تمام مخالف سیاستدانوں کا اجماع تھا جس کی وجہ سے کئی مرتبہ ملک انتخابات کے قریب پہنچ کر بھی ضیا الحق کی زندگی میں انتخابات کا منھ نہ دیکھ سکا۔ ایک ایسی حکومت (جونیجو والی) جو 100 فیصد ضیاءالحق کی مرضی و منشا کے مطابق معرض وجود میں آئی تھی، اس کا خاتمہ بھی سنگین بد عنوانیوں کے الزامات لگا کر عمل میں لایا گیا۔

پاکستان میں آج کے دن تک جتنی بھی حکومتیں تشکیل پاتی رہیں خواہ وہ پرویز مشرف کی ہو، ن کی ہو، پی پی پی کی ہو یا اب عمران خان صاحب کی، وہ ایک دوسرے پر سنگین بد عنوانیوں، پر تشدد کارروائیوں، ٹاگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات لگا تی ہی نظر آئیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جن جن شخصیات پر یہ الزامات لگائے جاتے رہے وہ ”دھلائی“ مشینوں سے گزر نے کے بعد ہر حکومت کے ہراول دستے میں شامل کیے جاتے رہے۔

پاکستان میں ایک ایسی بھی پارٹی ہے جو بھٹو دور سے نسلی فسادات میں بری طرح ملوث رہی ہے اور جس صوبے میں اس پارٹی کا ”بیس کیمپ“ ہے اس صوبے کے نہ صرف 22 شہروں میں ”غیر مقامی“ لوگوں کی قتل و غارت گری سے لے کر حیدرآباد کا پکا قلعہ ہو یا کراچی شہر، ”غیر مقامی“ افراد کے خون سے ہولی کھیلنا اس کا سب سے بڑا مشغلہ رہا ہے، اس پارٹی کے لوگ اتنے جنونی ہیں کہ کسی بھی بہانے کراچی تا پشاور، پھونک کر رکھ دینے میں لمحہ نہیں لگاتے۔

27 دسمبر 2007 کو بینظیر کا خود کش حملے میں مارا جانا ایک عظیم سانحہ سہی لیکن اس کی سزا پورے پاکستان کو خاک و خون میں نہلا کر دینے والی اسی پارٹی کو اتنے بڑے اور عظیم جرم کے بعد نہ صرف پاکستان کی حکومت سونپ کر وزارت عظمیٰ پر متمکن کر دیا گیا بلکہ اس کے سب سے بڑے ڈاکو کہلائے جانے والے فرد کو ملک کا صدر بھی بنا دیا گیا۔

کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پر بھی دنیا پھر کے سنگین الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ بھتہ خوری، ملک دشمنی، ٹارگٹ کلینگ اور بد ترین مالی بدعنوانیوں کے نہ صرف ان پر الزامات عائد کیے گئے بلکہ کئی بڑی سرجریوں کے ذریعے اس پارٹی کے ہزاروں افراد کو نہ صرف کسی عدالت میں پیش کیے بغیر دوسری دنیا میں پہنچایا جاتا رہا بلکہ سیکڑوں کے بارے میں آج تک ان کے لوحقین کو یہ بھی خبر نہیں کہ اٹھائے جانے والے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

گزشتہ کئی دھائیوں سے پاکستان میں الزامات کی سیاست کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل رہا ہے۔ یہ الزامات ممکن ہے درست ہی ہوں لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ جس پر جو بھی الزامات ہوں ان کو عدالتوں سے ثابت کیا جائے۔ پاکستان میں عدالت سے انصاف ملنا بے شک مشکل ہی سہی لیکن کیا اس بنیاد پر عدالت میں کسی ملزم کو پیش کیے بغیر اس کو سفر آخرت پر روانہ کردینا یا اسے ہمیشہ کی طرح لاپتہ کر دینا قانونی قرار دیا جانا درست ہے؟

یہاں سب سے غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کا جب کوئی ایک بھی سیاستدان ملک و قوم سے مخلص نہیں، ساری سیاسی پارٹیاں یا تو بالواسطہ غیر ملکی ایجنٹ ہیں یا بلا واسطہ ملک دشمنی میں ملوث ہیں تو پھر ان کے رہنما آزاد کیوں پھر رہے ہیں اور سیاسی پارٹیاں کالعدم کیوں قرار نہیں دی گئیں؟ دوسری پارٹیوں کی بات چھوڑ کر پی پی پی اور ایم کیو ایم پر تو ہمالیہ کی سب سے بلند چوٹی سے بھی کئی گناہ بلند الزامات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن ان ساری پارٹیاں کو ہر قسم کی سیاسی سر گرمیوں کی اجازت ہے۔ جب پارٹیاں ملک کے لئے سنگین خطرہ ہیں اور ان کے رہنما غیر ملکی ایجنٹ ہیں تو ان کا سیا سی سرگرمیاں جاری رکھنا کس قانون کے تحت آئینی اور قانونی ہے؟

آج کل یہ بات بین الاقوامی سطح پر بہت اٹھائی جارہی ہے کہ پاکستان میں ”انتظامیہ“ نے اپنے بیشمار دلائی کیمپ اور عقوبت خانے بنائے ہوئے ہیں جہاں کسی کو بھی پکڑ کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنا کر اس کی ہڈیاں پسلیاں تک توڑ کر رکھ دی جاتی ہیں۔ پولیس ہو، اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد والے محکمے ہوں یا خود ”طاقت“ ہو، اتنے با اختیار ہو گئے ہیں کہ وہ جس کو چاہتے ہیں اٹھا لے جاتے ہیں اور پھر ان کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ انھیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

ایک جانب ظلم کی یہ انتہا کہ اے ٹی ایم سے اپنا کارڈ یا پیسے نکالنے والا نہ صرف پکڑا جاتا ہے بلکہ اس کو نہایت درندگی کے ساتھ مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب کھربوں کا فراڈ کرنے والے سرخ رو بنا دیے جاتے ہیں۔ کیا یہ دہرا معیار انصاف نہیں۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسی قسم کی ”طاقت“ گردی سے ملک و قوم ترقی کی منازل طے کر لے گی اور ملک مدینہ جیسی اسلامی فلاحی ریاست بن جائے گا تو اس کی اس سوچ کو بو جہلانہ یا بو لہبانہ تو کہا جاسکتا خلافت راشدانہ سے کسی صورت تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کو ہر قسم کے امتیاز سے پاک کرکے ہی عادلانہ نظام کا نفاذ ممکن ہو سکتا ہے ورنہ جو انجام سامنے ہے وہ کوئی بہت خوش کن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).