جواب آں غزل۔۔۔۔ جمعیت کی پارسائی اور معصومیت؟ (1)


محترم ساجد سلطان صاحب نے’’ہم سب‘‘ پر جس طرح جمعیت کا دفاع کیا ہے اور باقی سب حقائق کو جھٹلا کر ہمیں دروغ گوئی کے مرتبے پر\"moqaddus فائز کیا ہے یہ ان کی قیادت سے لےکر کارکن تک کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے کہ اپنی ہر برائی کو اسلام کا تڑکا لگا کر حق سچ ثابت کرنے اور دوسروں کو جھوٹا، اس شدت سے قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں سادہ لوح افراد اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں

1۔ بات لڑکیوں کی چلی ہے تو کیا ہم سمجھ لیں کہ جہاں جہاں جمعیت نہیں ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں؟ ہم جو یہ دعویٰ کرتےہیں کہ ہم عورتوں کی عزت کے محافظ ہیں، وہ ہے ہی غلط۔ بلکہ عورتیں ہماری عزت کی محافظ ہوتی ہیں۔ اگر عورت خود نہ چاہے تو سات پردوں میں بھی وہ برائی کا رستہ نکال لے گی۔ لہذا، میرے بھائی، اپنی بہنوں کو شک کی نظر سے نہیں بلکہ عزت نظر سے دیکھیں اور اسے اعتماد دیں کہ وہ مردوں کے معاشرے میں سر اٹھا کر چل سکے، نہ کہ اسے گناہ کی پوٹلی سمجھنا شرودع کر دیں۔ اور رہا سوال لڑکیوں کو چھیڑنے کا تو یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیاں کوئی ٹین ایجر نہیں ہوتیں کہ چھچھوری حرکتیں کرتی پھریں بلکہ قدرے میچیور یا سمجھدار ہوتی ہیں۔ اور ایسی بھی لُٹ نہیں مچی کہ ان کو راہ جاتے کوئی چھیڑ کر چلا جائے اور وہ دیکھتی رہ جائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یونیورسٹیوں کے لڑکوں میں ایسا چھچھورا پن دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ ان پر آوازے کستے پھریں، بلکہ لڑکوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تمیز دار گفتگو، کردار، لباس وغیرہ سے دوسری لڑکیوں سے بات کریں کہ ان کا ایمپریشن اچھا پڑے۔ اور رہی کندھا سے کندھا ملانے کی بات تو ایسی بھی کھل کھیل نہیں ہوتی۔ یہ یونیورسٹی ہے کوئی ڈرامہ سیریل یا فلم نہیں کہ جس میں لڑکی لڑکے نے ایک دوسرے کو پیار کی نظر سے دیکھا اور پھر ایک دم سامنے باغ آ گیا اور لڑکی لڑکے نے اپنے تئیں، ہیرو، ہیروئن سمجھ کر ناچنا شروع کردیا۔ اور پھر جمعیت کو پتہ چلتا ہے تو وہ کیدو، ولن یا اسلامی ہیرو بن کر، اس لڑکی، لڑکے کو، اس سے پہلے کہ وہ اپنی حدود پار کریں، انہیں شیطان صفت قرار دے کر سزا دینے پہنچ جاتا ہے۔

اس کے باوجود آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی وجہ سے یونیورسٹی کا ماحول اصلی تے خالص تقویٰ و پرہیز گاری کا مرکز ہے تو پتہ نہیں آپ کس جنت میں رہتے ہیں اور پھر شام کی کلاسز کا کیا ؟ کیا وہاں کا ماحول کچھ مختلف نہیں ہے ؟ یا ان پر آپ کا بس نہیں چلتا کہ زیادہ تر ڈے اسکالر ہوتے ہیں۔ تو شام کا ماحول قدرے کھلا ہونے کے باوجود، وہاں کون سی لڑکیوں پر افتاد آن پڑی ہے؟ جسے برائی کرنی ہے وہ کرنی ہے یونیورسٹی میں کیا اور باہر کیا۔ ہاں اس بات کو مت بھولیں کہ عورت اور مرد کوئی روبوٹ نہیں اور آپ کی، ہماری اس دنیا میں آمد کا باعث ہمارے والدین ہی ہیں۔ اور معاشرے کے جائز و ناجائز فعل کو ہمارا معاشرہ اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ نہیں کہ جو ہم کریں وہ جائز جو دوسرے کریں وہ ناجائز۔

 لہذا جمعیت اگر یہ سمجھتی ہے کہ اسی کی وجہ سے برائی رکی ہوئی ہے اور اگرانہوں نے طلباء و طالبات کو کھلی چھٹی دے دی تو یونیورسٹی شاید، یورپ کے کسی ساحل سمندر یا کسی فحش نائٹ کلب کا منظر نہ پیش کرنے لگے۔ اس قسم کی سوچ، سوائے ان کے اپنے دماغ کی گندگی کے اور کچھ نہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ ہر لڑکی کو اس کے لباس، پردہ کرنے یا نہ کرنے کے پیرائے میں اس کی شرافت پر قدغن لگانے کی بجائے اسے بھی وہی احترام دیں جو آپ اپنی تنظیمی بہنوں کو دیتے ہیں۔ اور یہ سمجھنا بھی بند کردیں کہ ان کے والدین ان کی صحیح تربیت نہیں کی یا پھر شائد ان لڑکیوں کے والدین نے ان کو کسی مذموم مقصد کے لیے یونیورسٹی بھیجا ہوتا ہے۔ یاد رکھیے جس دن جماعتیوں نے اپنا دماغ صاف کر لیا اور طالبات کو بھی جنسی امتیاز کے پلڑے میں تولنے کی بجائے اپنے جیسا انسان سمجھ کر ان کی عزت کرنا شروع کردی اسی دن یونیورسٹی کا منظر نامہ ہی بدل جائے گا۔

 اور میں پھر کہتا ہوں کہ پلیز خواتین والے ٹاپک پر اپنی پارسائی ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں اس سلسلے میں جمعیت کے اپنے کئی اسکینڈلز ہیں کہ مجھے بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اور پھر ہم جنس پرستی کے واقعات کیوں چھپائے جاتے ہیں جو لڑکوں کے ھاسٹلوں میں ہوتےہیں جس میں میرے دور میں آپ کے ہاسٹل ناظم بھی ملوث رہے ہیں ؟ صرف اس لیے کہ اس میں لڑکیوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے؟ کیونکہ برائی صرف لڑکیوں سےہی پھیلتی ہے؟ جب کہ یہاں کئی احباب اپنےذاتی تجربات کی روشنی میں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے بقلم خود مار کھائی ہے تو پھر بھی جمعیت کا یہ اصرار کہ وہ برا کام نہیں کرتی بلکہ برائی کو روکتی ہے۔ چہ معنی دارد!

2۔ اساتذہ سے بدسلوکی اور اسکینڈلز انہی کے نکلتےہیں جن سے جمعیت کا میل ملاپ نہیں ہوتا ورنہ اندر کی بات تو یہ ہے کہ کئی پروجماعت اساتذہ اسائنمنٹ اور امتحانوں کے چکر میں کیا کچھ نہیں کرتے اور اپنی دو تین شاگرد خواتین سے شادی تو عام بات ہے کہ آئی ای آر کے ایک مرحوم استاد محترم منورابن صادق صاحب کا قول کس کو یاد نہیں کہ ’’ میرا شادی کا ایک ہی Criteria ہے کہ لڑکی صاحب روز گار ہو اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ دوسری شرط لکھنے کی میری قلم اجازت نہیں دیتی۔ وہ آپ خود سمجھ جائیں۔ اسی طرح سلطان صاحب نے جبکہ خود تسلیم کیا کہ ان کے ہوتے ہوئے صرف اکا دکا ہی ایسے واقعات ہوئے جس کی وہ مذمت کرتے ہیں مگر وہ ریشو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جس نظریئے یا مسئلک یا تنظیم کے ساتھ دلی وابستگی ہو اس کےہر برے کام کی بھی تاویل ہوتی ہے اور بندہ اس کی  justification گھڑ کر خود ہی مطمعن ہوجاتا ہے۔ اسی لئے تو جمعیت کو اپنا شہتیر بھی بال نظر آتا ہے۔ اور دوسروں کا بال بھی شہتیر۔ یہ تو ان سے پوچھیں جن پر بیتی۔ یا پھر کسی تھرڈ پارٹی سے تجزیہ کروا لیں کہ جمعیت کے اچھے کاموں کی ریشو کیا ہے؟

3۔ رہا سوال کہ جمعیت کا دوسری طلباء تنظیموں سے موازنہ! تو میرے بھائی دوسری کوئی بھی طلباء تنظیم اپنی پارسائی اور’’ دامن جو ہم نچوڑیں فرشتے وضو کرنے ‘‘کا دعویٰ نہیں کرتی۔ قوم پرست طلباء تنظیموں سے لے کر، بائیں بازو کی طلباء تنظیمیں، آپ لوگوں کی طرح، اپنے اوپر نام نہاد اسلام کا لیبل لگا کر اسکی آڑ میں اپنے جائز و ناجائز امور سرانجام نہیں دیتیں۔ حتیٰ کہ ایم ایس ایف جیسی طلباء تنظیم کا مطمع نظر صرف یہی ہوتا تھا کہ اپنے اپنے علاقوں اور کالجوں میں قبضہ کیسے برقرار رکھا جائے؟کر۔ ۔ آپ بھی یہی رہے ہیں مگر آپ کا اپنا سیٹ اپ، تنظیمی ڈھانچہ وغیرہ، واقعی دوسروں سے زیادہ منظم ہے۔ مگر دوسری تنظیموں سے آپ کی الگ بات یہ ہے کہ وہ اپنا نظریہ کسی پر زبردستی نہیں تھوپتے جبکہ آپ اپنا نظام، اپنا نظریہ، اسلام کی آڑ میں زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر آپ کو اپنے اوپر اتنا ہی اعتماد ہے کہ طلباء کے اخلاق و کردار بلکہ زندہ چلتے پھرتے فرشتوں کو دیکھ کر متاثر ہو کر بے اختیار ’’جم جم جمعیت ‘‘ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو پھر آپ کو خطرہ کیسا؟ بس زرا وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیجیے اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی یونیورسٹی میں خندہ پیشانی سےآنے دیجیے۔ اور لڑائی مار کٹائی کی بجائے دلیل اور مکالمے سے طلباء کے دل جیتنے کی کوشش کیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے طلباء کو کھل کر سوچنے کا موقع اور شعور ملے گا، یونیورسٹی کو یقیناً جمعیت سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ ا وراسے تعلیم و تحقیق میں بھی عروج ملنا شروع ہوجائے گاکیونکہ بہرحال پنجاب یونیورسٹی میں کسی قسم کے وسائل کی کمی نہیں ہے۔ بس اس برائی کی جڑ ہے تو وہ صرف آپ کی جماعت جس نے اس عظیم جامع کو مکڑی کے جاکےکی طرح جکڑ رکھا ہے۔

4۔ رہی بات بھتے کی تو سلطان صاحب کتنے معصوم ہیں کہ وہ کسی اجنبی کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ کسی بھی کنٹین یا ہوسٹل میس کے سپلائر سے جاکر پوچھیں کہ قبلہ یہ بتائیے گا کہ آپ، جمعیت کو کتنا بھتہ دیتےہیں اور وہ بھی فر فر سب سچ بتا دے گا کہ جی جی جناب میں مبلغ اتنا روپیہ رائج الوقت جسکے نصف مبلغ اتنے ہوتے ہیں وہ میں جمعیت کو بطور اسلامی بھتہ دیتاہوں۔ اور پھر جب وہ یہ مان جائے گا تو ہم جمعیت کے نوٹس میں یہ بات لائیں گے تو یقیناً وہ بیچارہ روزی روٹی سے جائے گا۔ اس بھتے کا انکشاف مجھ پر بھی آخری دنوں میں ہوا۔ اور تو اور ایک خاص کمپنی کے سیلز ایگزیکٹو نے بھی ایک نجی محفل میں یہ بات بتائی کہ کس طرح وہ جماعت اسلامی کے فلاں لیڈر کو پیسہ لگاتا ہے تو ان کے پروڈکٹ پوری یونیورسٹی میں بکنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ بھتہ ایسے ہی ہے جیسے ایم کیوایم خدمت خلق کے نام سے زکواۃ، فطرانہ، اور کھالیں اکٹھی کرتی ہے۔

پھر یہ کہ جمعیت کی پرائس اینڈ کوالٹی کنڑول کمیٹی سے کیا مراد ہے؟ اسکو کس نے اتھارٹی دی ہے کہ وہ یونیورسٹی کا مال چیک کرتی پھرے؟ کیا یہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کام نہیں ہے؟ کیا اس نام نہاد پرائس ا ینڈ کنٹرول کمیٹی کی آڑ میں، جمعیت اپنی جماعت کے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچاتی؟ اگر یقین نہ آئے تو احباب زرا تحقیق بھی کرلیں کہ یونیورسٹی کے زیادہ تر سپلائر کا پس منظر کیا ہے یا ان کی نظریاتی وابستگی کس جماعت سےہے؟اور یہ کہ اس طرح جماعت کو سالانہ کتنے کروڑوں کا فائدہ ہورہا ہے؟

5۔ اور سلطان صاحب یہ آپ نے کب سے فرض کرلیا کہ اگر جمعیت کے علاوہ کسی اور کے پاس یونیورسٹی کا ہولڈ ہوتا تو پھر یونیورسٹی کا کیا حشر ہوتا؟ تو کیا ہم سمجھ لیں کہ جن جامعات میں جمعیت نہیں ہے۔ کیا وہاں، اخلاق و کردار، کوالٹی کنٹرول اور علم و فن کا قحط الرجال ہے؟ آپ کی یہ خود ساختہ سوچ، بقول قاری حنیف ڈارصاحب کے ایسے ہی ہےجیسے کوئی انسان، صرف اپنے مسئلک کی کتابیں پڑھ کر خود ہی اپنے آپ کو حق پر سمجھنا شروع کردے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ ایسے ہی ہے جیسے دوڑ کے مقابلے میں اکیلے ہی بھاگ کر پہلی پوزیش حاصل کرنا۔

6۔ ماشاءاللہ، اب یہ دعویٰ کہ جمعیت نے معاشرے میں صرف مفید اور دیانتدار شہری ہی پیدا کیے ہیں جبکہ ان کے علاوہ باقی تمام جماعتیں یا طبقہ فکر، خواہ ان کا تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازوسے وہ پاکستان میں شائد، فاسق و فاجر، گنا ہ گار بلکہ غدار ہی پیدا کررہی ہے۔ اب جمعیت کی اس کیفیت کو ہم خبطِ عظمت کی بیماری کہیں یا متقی و پرھیز گار ہونے کی خوش فہمی کہ جیسے ایماندار اور دیانتدا ر لوگ، جماعت پاکستانی معاشرے میں پیدا کر رہی اور کوئی طبقہ شائد اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یقیناً جہاں اتنے فرشتہ صفت انسان، جماعت نے معاشرے میں لانچ کئے ہوں اور وہ بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے، تو اب تک تو ارض پاکستان کو جنت نظیرہو جانا ہیے تھا۔ مگر حقیقت میں کیا نظر آ رہا ہے؟ جہاں جہاں جمعیت ہے یا تھی یا جب کبھی جہاں جماعت اسلامی کی حکومت رہی یا ان کا راج رہا ہے وہ علاقہ جنت کا نمونہ بنا یا جہنم زار بن کر رہ گیا؟ جہاں تک کرپش کا سوال ہے تو جب اسلام، جہاد اور اسلامی چیرٹی کے نام پر بھتہ لیا جاتا ہو اس کو نیب کیا، وزیراعظم بھی ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ جماعت اسلامی کے دیانتداروں کی کرپشن کے بے شمار داستانیں موجود ہیں جب کبھی موقع ملا تواس پر بھی ضرور لکھوں گا، ابھی آپ یونیورسٹی کے قریب ایک پنجاب کے ادارے ڈی ایس ڈی چلے جائیں اور وہاں جاکر زرا پتہ کر لیجیے گا کہ وہاں آپ کے ایک دیانتدار سابقہ کارکن زکریا صاحب کے ذمے کتنا غبن ہے؟ ( یہ آپ کے کہنے کے مطابق ایک نام ہے، میرے پاس تو ایک لمبی لسٹ ہے موقع ملا تو جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی جماعت کے کرتوتوں پر تفصیلی کتاب بھی لکھوں گا تاکہ ان کا مفصل کچا چٹھا سامنے آ سکے) ابھی حال ہی میں کے پی کے میں ایک نجی بنک اسکینڈل میں جماعت اسلامی کا کیا کردار تھا؟ اور جہاں جہاں ایم ایم اے کے جماعت کے منتخب نمائندے تھے ان کے علاقے میں جاکر خود سروے کرلیجیے گا کہ وہاں کیا کیا گل کھلائے گئے۔ اور پھر جب 90 کی دھائی میں نواز شریف اور جماعت اسلامی کا آپس میں اتحاد ہوا تھا تو کن دو وزارتوں پر جھگڑا ہوا تھا ؟ کیا وہ خزانہ اور تعلیم کا محکمہ نہ تھا؟پھر اسی دور میں جماعت اسلامی پر، مسلم لیگ ن نے کروڑوں روپے لینے کا الزام نہیں لگایا تھا؟ اب یہ مت کہیے گا کہ جس نے بھی کوئی غلط کام کیا اس کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ اسے اس شخص کا انفرادی فعل سمجھاجائے! جی نہیں محترم ! جب آپ اپنے نام نہاد کارناموں کے کا بڑھ چڑھ کر تذکرہ کرتےہیں تو پھر ان امور کی ذمہ داری بھی ڈٹ کر لیجیے۔ ایسےہی جیسے اگر کوئی جماعتیا، ناجائز قتل کرے توآپ اسے جہاد قرار دیتے ہیں اور اگر غنڈہ گردی کرے یا مخالفین پر تششد د کرے توآپ کے نزدیک وہ امر بالمعروف ونهي عن المنكر ہوتا۔ یقیناً اسلام کا نام اپنےجائز و ناجائز مفادات کے لئے استعمال کرنا کوئی آپ لوگوں سے سیکھے۔

7-  پھر یہ دعویٰ کہ جماعت اسلامی نےحق کی خاطر یا وطن کی خاطر، فوج کی بی ٹیم کا ساتھ دیا یہ بھی سراسر غلط ہے۔ جماعت اسلامی نے فوج کا نہیں بلکہ ہمیشہ ڈکٹیٹر یا ڈکٹیٹر نما لوگوں کی بی ٹیم کا ساتھ دیا ہے۔ بنگلادیش میں جماعت کے کارکنوں کو، پاکستانی ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کو نہتے، اور بے گناہ بنگالیوں کے قتل عام، ریپ، ان کے مکانات مسمار کرنے، اور بالخصوص ڈھاکہ کے پڑھے لکھے اسکالرز جیسے پروفیسرز، شعراء، ادیب اوردیگر قلمکاروں کے بہیمانہ قتل عام میں ملوث ہونے کی وجہ سے پھانسیاں دی گئ ہیں۔ 1971 کی جنگ میں ڈھاکہ کا کمانڈر، رائو فرمان ہی تھا ناں جس نے آپ لوگوں کو مشرقی پاکستان کے بڑے بڑے اسکالرز کو مارنے کا ٹاسک دیا ہوا تھا ؟ وہ رائو فرمان کہ جب وہ گرفتار ہوا تو اس کے قبضے سے، ہتھیار ڈالنے کے بعد ایسی دستاویزات نکلیں تھیں کہ اس نے سبز مشرقی پاکستان کو سرخ کرنے کا عزم کررکھا تھا۔ یہ کوئی اسلام یا پاکستان کی خدمت نہیں تھی بلکہ آپ جیسے افراد کی منفی سوچ اور ریشہ دیوانیوں کی بدولت، بنگالیوں میں، مغربی پاکستان باالخصوص پنجاب کے خلاف، نفرت کو اتنا بڑھاوا ملا کہ وہ باالٓاخر مشرقی پاکستان کے الگ ہونے پر منتج ہوا۔ دوسرے یہ کہ اگر بنگلادیش کے جماعت اسلامی کے راہنماوں کو پاکستانی ہونے کی وجہ سے یا ان کے ہمدرد ہونے کی وجہ سے پھانسیاں دی گئیں ہیں تو وہ وہاں کیا کر رہے تھے؟ ان کو پاکستان نے ویل کم کیوں نہیں کیا؟۔ یا پھر جس طرح کہ ایم۔ ایم۔ عالم جیسے لوگوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا وہ بھی ہجرت کرجاتے مگر کیا وجہ ہے کہ جماعت کے عہدداروں نے اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے کی بجائے بنگالی کہنا زیادہ پسند کیا؟ اگرپھر بھی مان لیا جائے کہ یہ پھانسیاں پاکستان سے محبت کی وجہ سے تھیں تو پاکستانی گورنمنٹ نے ان پھانسیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھایا یا کھل کر مذمت ہی کی؟ یا ان پھانسیوں کو روکنے لے لیے کسی بین الاقوامی فورم پر آواز بلند کی؟ رہا سوال افغانستان اور کشمیر کے نام نہاد جہاد کا تو میرے بھائی اتنا بھی مبالغہ اچھا نہیں کہ مجاہدین گھر سے روٹی کا ٹفن لے کر یا چنوں کی تھیلی اور ایک پانی کی بوتل اور بقول منور حسن صاحب کے’’ باڑے کی بنی بندوقوں اور چند گولیوں کی مدد سے‘‘ روسی ٹینک اور جہاز تباہ کرنے لگے۔ قبلہ حضور! گھر سے کھا کر اتنی لمبی گوریلا وار نہیں لڑی جا سکتی یہ ایک تھوڑاسا شعور رکھنے والا بھی بخوبی جانتا ہے۔ آپ کیوں نہیں مانتے کہ اس وقت بھی آپ کی جماعت نے، ڈکٹیٹر جنرل ضیاء مرحوم، امریکہ اور عربوں کا آلہ کار بن کر، پاکستان کے غریب گھرانوں کے بچوں کو، حوروں اورجنت کے خواب دکھا کر اس نام نہاد جہاد کی آگ میں جھونک کر اس دنیا میں اپنی جنت بنائی۔ اس وقت تو امریکہ آپ کو بڑا اچھا لگتا تھا۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ آپ کو، ان کی خاطر لڑنے اور حمایت کرنے کے انعام کے طور پر اچھی تنخواہ کے ساتھ ساتھ ہر لاش کے اچھے دام بھی لگاتا تھا۔ یہ وہی دور تھا جب امریکی عہددار، آپ کو خوش کرنے کے لئے، اپنے آپ کو، امریکی کہلانے کی بجائے ’’ مجاہد‘‘ کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اور پھر بعد میں ہیلری کلنٹن کا یہ اعتراف کہ انہو ں نے افغان روس لڑائی میں ایک مخصوص فرقے کو استعمال کیا۔ تو پھر اسے بعد کیا گنجائش رہ جاتی ہے امریکہ نے روس کو غیر مستحکم کرنے کے لیے، آپ کو امریکی اسلام کے نام پر بڑے اچھے طریقے سے استعمال کیا۔

اور تو اور اگر جماعت اسلامی اور اس کے حواریوں کا یہ دعویٰ کہ کہ انہوں نے فوج کا ساتھ، ڈکٹیٹر کی بجائے محب وطن فوج کی بی ٹیم بن کر دیا تو پھر گزشتہ دو دہائیوں سے، ملک دشمن عناصربشمول، القاعدہ جیسے بین الاقوامی دہشت گرد، جماعت اسلامی کے گھرو ں ہی سے برآمد کیوں ہوتے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کا قتل عام کرنے والے طالبان، داعش اور اسامہ بن لادن کے بارے، جماعت اسلامی کا سافٹ کارنر اور بعض مقامات پر، دامے درمے سخنے حمایت ! کون سی محب الوطنی کا ثبوت ہے؟ اسی طرح فوج کا وزیرستان کے دھشت گردوں کے خلاف اپریشن، جماعت کو کیوں کھٹک رہا ہے؟ اسی لئے ناں کہ ان کی خفیہ دھشت گردی کے نیٹ ورک اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں جن کو انہوں نے بڑی مشکل سے پروان چڑھایا تھا؟

اسی طرح کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ ڈکٹیٹر ضیاء بھی جماعت اسلامی کا ہی تربیت یافتہ تھا اور اسی وجہ سے جماعت اسلامی نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ بعض ناقدین کے مطابق، کشمیر کا مقدمہ، نام نہاد جہاد کی وجہ سے ہی کمزور ہوا ورنہ بھارتی فوجیوں کی گولیوں کے آگے پتھر مارنے والے نہتے کشمیری عوام کی آواز میں، مسلح جدوجہد سے زیادہ اثر ہے جیسا کہ فلسطین کی مسلح جدوجہد کے مقابلے میں انتفاضہ تحریک نے دنیا کی آنکھیں کھول دیں کہ اسرائیل کا بڑے سے بڑے حمائتی بھی، اسرائیل کے مظالم پر بولے بغیر نہ رہ سکا۔ اور میں اپنے کئی جماعتی منحرف دوستوں کو جانتا ہوں جن کے بقول، جب وہ جہاد کشمیر کے لیے سرحد پار گیے تو ان کا گائیڈ انہیں ایک فوجی چوکی کے قریب لیجا کر، فائر کر کے، خود غائب ہو گیا اور ان کو بھارتیوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا۔ اس اچانک افتاد سے اکثر ان کو اسلحہ چلانے کی نوبت بھی نہ آتی اور بھارتی فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے ان کے زیادہ ترساتھی مارے جاتے اور شائد ایک آدھ فرد ہی بمشکل جان بچا کر واپس آ پاتا۔ مگر واپسی پر جب کوئی غازی، اس نام نہاد جہاد کے نام پر، ان کے ساتھ ہونے والے’’ہاتھ‘‘ کی، کسی امیر سے شکایت کرنے کی کوشش کرتا تو ان کو زبان بند رکھنے کی دھمکی جاتی۔ اور دوسری طرف اس نام نہاد معرکے میں شہید ہونے والو ں کے جھوٹے کارناموں کو خوب بڑھا چڑھا کر جہادی میگزینز میں چھاپا جاتاکہ کس طرح ان عظیم مجاہدوں نے ہزاروں بھارتی فوجیوں کو مردار یا واصل جہنم کیا۔ اسی طرح اٖفغانستان کی لڑائی میں جہاں اسلحہ کی افغان، پاکستان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں مشروم کی طرح اسلحہ کے بازار کھلنے لگے بلکہ منشیات کا کاروبار بھی خوب پھلنے پھولنے لگا۔ میں نے اس دور میں خود بھی کئی دفعہ اپنے قبائلی دوستوں کی وجہ سے ان علاقوں کی سیر کی ہے اور میں حیران ہوتا تھا کہ کون سا اسلحہ تھا جو ان قبائلی علاقوں سے نہ ملتا ہو۔ جی جناب، پستول، کلاشنکوف سے لے راکٹ رانچر، بارودی سرنگیں اور مزائیل تک یہاں ارزان نرخوں میں دستیاب ہوتےتھے۔ اسکے ساتھ ساتھ سستی منشیات کہ ایک خان صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ چلو اسلحہ تو آپ کا زیور ہوا مگر یہ منشیات؟ تو وہ تسبیح گھماتے ہوئے کہنے لگے کہ خوچہ بتائو، پاوڈر (ہروئین) کی ممانعت کا ذکر کہیں قران میں ہے؟

 اس وقت جماعت اسلامی کا امریکہ کے بارے کیا یہ موقف نہ تھا کہ چونکہ امریکہ، روسی کافروں کے خلاف اسلام کی مدد کررہا ہے لہذا امریکہ کے خلاف بات کرنا گویا اسلام کے مدد گاروں کے خلاف بات کرنا ہے۔ یہ وہی افغان جہاد ہے جس نے جرنیلوں کو تو امیر تر بنایا وہاں جماعت اسلامی نے بھی اپنے اس علاقے میں اس بہتی گنگا میں صرف ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ اشنان پر اشنان کئے۔ ان کو مجاھد تو مفت میں ملتے تھے ہی مگر ان کی لاشوں کی بھی اچھی خاصی قیمت لگنی لگی۔

 اور پھرجہادی ٹریننگ کیمپس سےلے کر سہولت کاری، اور ٹارگٹ تک تک رسائی، کسی مجاہد کا انفرادی فعل نہیں ہوسکتا اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت نام نہاد مجاہدین کوئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے کہ وہ بس آنکھیں بند کرتے تھے اور ان  کو الہام ہوجاتا تھا کہ کہاں کہاں کافر روسی فوجی چھپے بیٹھے ہیں، جن کو ٹارگٹ کرنا ہے۔ اور نہ ہی یہ معلومات مفت میں کوئی گھر آ کر دے جاتا تھا بلکہ اس جہادی نیٹ ورک سے ہزارو ں افغا ن اور پاکستانی لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ اور اب تو روسی کے جی بی کا ریکارڈ، امریکن سی آئی اے کے انکشافات اور دیگر اس موضوع پر لکھی گئیں تحقیقی کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ افغان جہاد ایک شیطانی کھیل تھا، جس میں اسلام کے نام پر بے روزگار اور غریب گھرانے کے بچوں کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ورنہ، ناں تو کوئی گرم پانی تک پہنچنا چاہتا تھا نہ پاکستان کا اس لڑائی سے کوئی لینا دینا۔ مگر جب پیسا نظر آیا تو ہم نے بے گناہوں کو اس دہکتی آگ میں جھونک دیا ورنہ اگر روسی فوج سے کوئی خطرہ ہوتا کیا وہ پاکستان میں فوجی مشقیں کر رہی ہوتیں؟ پھرڈکٹیٹر جنرل مشرف کے ساتھ آپ کا ملاں ملٹری الائینس تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔

 (اگر ٹا ئم ہ وتو جہانگیرستی کی کتاب رولنگ اینیمی، دی ورلڈ گوئینگ اوور وے، جو کے جی بی کا آرکائیو ہے، ڈیولز گیم، ڈیڈ ریکونگ وغیرہ پڑھ لیجیے جس میں آپ کی جماعت کے کارنامے بھی درج ہیں)، لہذا میرا اشارہ تو فقط مشتے از خروارے ہے۔ جوجماعت اسلامی کے جہاد افغانستان اور کشمیر میں گھناونے کردار کی ابھی معمولی نشاندہی کرتا ہےورنہ حقائق تواس سے بھی زیادہ بھیانک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضیاء، اسامہ، بیت اللہ محسود آپ کےنزدیک پکے اور سچے شہید ہیں۔

8- اسلحہ کے انبارکا افسانہ ؟ میرے سلطان بھائی یہ دھول کسی اور کی آنکھوں میں جھونکئےکا، باڑے سے ناجائز اسلحہ سے لے کر کلاشنکوف پورے پاکستان میں آپ کی ہی مرہون منت ہے۔ جب بھی کبھی کہیں بھی خیبر سے لے کر کراچی تک آپ کا کسی مخالف تنظیم کے ساتھ جھگڑا ہوتا ہے یہ اسلحہ کہاں سے نکل آتا ہے؟سچ تو یہ ہے کہ نواز شریف کا دور ہو یا کسی اور کا، کسی نے ابھی تک کسی نےابھی تک پنجاب یونیورسٹی کا خلوص نیت سےکلین سویپ آپریشن کیا ہی نہیں۔ کہ وی سی بیچارہ بھی اپنے آپ کو بے دست وپا سمجھتا ہے۔ یا پھر کوئی کوئی نہ کوئی سیاسی بلیک میلنگ راستے میں حائل ہوجاتی ہے۔ اور ڈکٹیٹر کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے آپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ان کے دور میں آپ کو کھل کھیل کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ورنہ خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ تو یہی ہے کہ جتنے بھی بڑے بڑے دھشت گردی کے واقعات، لاہور یا دیگر علاقوں میں ہوئے ان کے تانے بانے جمعیت، منصورہ، یاپنجاب یونیورسٹی کے ھاسٹلز سے ہی ملتے ہیں۔ وہ خواہ، سری لنکا کی ٹیم پرحملہ ہویا جناح ہسپتال پر، احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملے ہوں یا اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ ہو اسکے قاتلوں کے سرپرست جماعت کے لوگ ہی نکلتے ہیں۔ اگر پھر بھی یقین نہ آئے تو گوگل کرکے دیکھ لیجیے گا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں کتنے دھشت گرد پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل سے پکڑے گئے ؟

 بھائی سلطان! میں نے کلاشنکوف اپنی آنکھوں سے پہلی دفعہ جمعیت کے کارکن کے ہاتھ میں ہی دیکھی تھی۔ اور یہ اسلحہ کا ذخیرہ اپنے مذموم مقاصد کے ساتھ ساتھ اس کے تقسیم کار اور دھشت گردوں کے سہولت کار بھی ہیں۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ تھانے سے لے کر وکیل اور جج تک جہاں کہیں جماعتی بیٹھا ہے وہ اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ان کو سزا نہیں ہونے دیتا اور جلد ہی یہ جیل س باہر ہوتے ہیں اور مقدمات داخل دفتر ہوجاتے ہیں۔ میرے ایک دوست ایس ایچ او نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ کیا کریں جب کبھی بھی پنجاب یونیورسٹی میں ریڈ مارنے لگتے ہیں، جماعتیوں کو پہلے سے علم ہوتا ہے۔ کہ بڑے بڑے افسر بھی ان کے اپنے ہیں جو ان کو بچا لیتےہیں۔ کچھ مزید تلخ حقائق سننے ہیں تو فاروق مودودی سے ہی سن لیں۔ شائد کچھ مزید افاقہ ہوسکے۔

نواں پوائنٹ شاید آپ بھول گئے۔ چلیں کوئی بات نہیں اگلے نقطے کی طرف آتے ہیں۔

10۔ یہ بھی آپ نے خوب ہانکی کہ ’’جمعیت کے پاس اتنی طاقت اور اسلحہ تھا یا ہے تو کیا اس کے بل بوتے پر جمعیت نے کسی کے گھر یا پلاٹ پر جائز یا ناجائز قبضہ کیا؟‘‘ واہ واہ پوری یونیورسٹی پرتو آپ نے قبضہ کررکھا ہے اور کیا چاہیئے۔ کیا پنجاب یونیورسٹی پر قبضہ کوئی چھوٹا موٹا فرد یا جماعت کر سکتی ہے؟ تو ظاہر ہے اس منظم قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ایک منظم قبضہ گروپ تو چاہیے اور یہ کام جمعیت بخوبی کررہی ہے۔ جہاں اربوں بلکہ کھربوں کی زمین کے ساتھ ساتھ آپ کے نام نہاد نظریات کی پنیری تناور درخت بن کر بھی نکل رہی ہے۔ اور کیا ہوسٹل سے لے کر رہائش کی الاٹمنٹ تک اور اب تو اساتذہ کی تعیناتی تک میں کیا جمعیت کی مرضی نہیں چلتی؟ ابھی حالیہ تحریروں میں ایک جمعیت کے خان صاحب نے خود نہیں لکھا ہے کہ جب ہاسٹل میں جگہ نہ تھی تو جمعیت کے ناظم کی مداخلت سے سے ان کا فوراً کام ہو گیا۔ کیونکہ جمعیت نے یہ بتانا ہوتا ہے کہ جو بھی کام ہوگا وہ انکے وسیلے سے ہی ہوگا۔ ورنہ نہیں۔ ۔

 میرے بھائی پنجاب یونیورسٹی آپ کی منی ریاست ہے اگر یہ آپ کے ہاتھ سے نکل گئی تو، جس قسم کے مخصوص دماغ آپ، مملکت پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے تیار کررہے ہیں وہ وہ سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ لہذا آپ کو باہر جا کر چھوٹے موٹے قبضےکرنے ضرورت نہیں بلکہ آپ کے لیے تو پنجاب یونیورسٹی ہی کافی ہے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments