اپنے اپنے ایوبی کا بے سود سوشل میڈیائی ماتم


صرف پولیس والوں نے نہیں، ہر طاقتور نے ماورائے عدالت قتل کیے ہیں۔ جس روز تعصب اور خوف سے بالاتر ہو کر یہ معاشرہ ثابت کرے گا کہ ماورائے قانون و عدالت قتل کی کوئی صورت قابل برداشت نہیں اس روز انسانوں کے یوں مرنے کی روایت ختم ہونے کا آغاز ہو گا۔

سیکیورٹی کیمرے کے سامنے ایوبی کی منہ چڑاتی تصویر اور اس کے چہرے سے جھلکتے نارسائی کے رنگ ہر اس شخص کے دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ گئے ہیں جس کے پاس سمارٹ فون ہے یااسے سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے۔ یہ تصویر اور ذہنی طور پر غیر متوازن بدنصیب نوجوان کا الم ناک انجام لوگوں کو مضطرب کیے ہوئے ہیں۔ لیک ہونے والے کلپ میں اس کا تفتیش کاروں سے سوال کہ ”تم نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے،“ حساس لوگوں کے لیے بے خوابی اور صدمے کا سبب بن رہا ہے۔ ملک بھر میں اس کیفیت کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کی حیرت انگیز رسائی ہے۔

کیا ماورائے عدالت قتل کا یہ پہلا واقعہ ہے؟ کیا تشدد اور قتل کا یہ وہ پہلا واقعہ ہے جس کی صوتی، تصویری اور ویڈیو شہادتیں لوگوں کے مشاہدے میں آئیں؟ کیا ملک بھر میں غم و غصے کی کیفیت پولیس کے تفتیشی نظام میں کسی جوہری تبدیلی کا باعث بنے گی؟ کیا لوگ اس وحشی پن کو بھلا نہیں پائیں گے؟ کیا اس واقعے پر پیدا ہونے والا ردعمل ایسے واقعات کے خاتمے کی بنیاد بن جائے گا؟ بدقسمتی سے ان سارے سوالات کا جواب نفی میں ہے۔

زیادہ دور مت جائیں پوری قوم ماڈل ٹاؤن سانحے پر اسی طرح مضطرب ہوئی تھی۔ سرفراز شاہ نامی نوجوان کو چاروں طرف کھڑے بندوق تانے رینجرز اہلکاروں سے ہاتھ جوڑ کر زندگی کی بھیک مانگتے ہم سب نے دیکھا۔ ساہیوال میں دن دہاڑے ماں باپ سے محروم کر دیے گئے معصوم بچوں کے چہروں میں ہفتوں ہمیں اپنے بچوں کی شکلیں نظر آتی رہیں۔ لیکن ہمارے سارے اضطراب اور سوشل میڈیائی ماتم کے باوجود مذکورہ بالا مظلوموں جیسے متعدد لوگ یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف علاقوں میں ماورائے عدالت انصاف سے سرفراز ہوتے رہے ہیں۔ اب بھی ایسا ہی ہو گا۔

جس سوشل میڈیا نے ایک صبح ہمیں صلاح الدین ایوبی کی مظلومیت دکھا کر بے چین کر دیا اس کی پٹاری میں حیرت، صدمے، خوشی، جوش، محبت، نفرت، تعصب جیسی متضاد کیفیات کا سبب بننے والا بہت سارا مواد ہے۔ یہی مواد روزانہ ہمارے ردعمل کا تعین کرتا ہے اور اسے گھڑی تولہ گھڑی ماشہ کی کیفیت سے دوچار رکھتا ہے۔ ہم بھی سوشل میڈیا پر آگے بڑھتی، پیچھے ہٹتی، ابھرتی اور ڈوبتی ان لہروں کے ساتھ ساتھ غم و غصے اور نشاط و جوش کے نشیب و فراز کا تجربہ کرتے رہتے ہیں۔

اس مشق سے بس ہم پریشر ککر والی کیفیت کا شکار نہیں ہوتے۔ دو چار پوسٹس لکھ کر یا پڑھ کر جی ہلکا ہو جاتا ہے۔ دو چار جگتیں لگا کر ایکٹوازم کی ذمہ داری ادا ہو جاتی ہے۔ اربابِ اختیار بھی خوش ہیں کہ شوریدہ سر لہریں دور ساحل سے ہی سر پٹخ کر مر مرا جاتی ہیں، شہر پناہ کی فصیلوں تک ان کے بد اثرات نہیں پہنچتے۔

چنیدہ واقعات کی مذمت اور غم و غصے کے اظہار سے ہمارے ضمیر کا بوجھ کم ہو تو ہو، صورت حال نہیں بدلے گی۔ جب تک اس اصول کی بے لچک پاسداری یقینی نہیں بنائی جاتی کہ قانونی عمل کے بغیر کسی کی زندگی یا آزادی نہیں لی جائے گی، کوئی ریٹائرڈ غریب ٹیچر کا بیٹا غیر متوازن ذہن کا مالک صلاح الدین ایوبی ہو یا اعلیٰ سفارتی و سیاسی ذہن کی مالک بے نظیر بھٹو، ہر ایک مظلومیت کی موت مرتا رہے گا۔ مہذب معاشروں میں فرد کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت صرف قانون کے تابع ہوتی ہے۔

اگر جبری لاپتہ افراد، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں جنم لیتے انسانی المیوں، اور قومی تاریخ کے ہر صفحے پر مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات میں سے ہمیں کچھ پر بات کرنے میں دقت ہوتی ہے تو ہمیں تسلی رکھنی چاہیے کہ ہمارا احتجاج صرف ہمارے ضمیری کچوکوں کو تھپکیاں دینے کے کام ہی آئے گا۔ اس سے ایسی اجتماعی آواز کبھی توانا نہیں ہو پائے گی جو معاشرے میں قانون کی بالادستی کو یقینی اور غیر قانونی قتل اور حراست کو ناقابلِ برداشت جرم قرار دلوا سکے۔ رنگ، نسل، مذہب، زبان، علاقے، سیاسی وابستگی، اور قاتل کی شناخت سے بالاتر کو کر اگر ہم قتل کے خلاف آواز بلند نہیں کر سکتے تو پھر تسلی سے کرتے رہیں اپنے اپنے ایوبی کا ماتم۔ ہماری روٹین کی طرح وہ بھی سیکیورٹی کیمرے کا نہیں، ہمارے ضمیر اور اخلاقیات کا منہ چڑاتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).